کالی تتری
کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے ساتھی ڈاکوؤں کے ساتھ ملکر اپنی ہی بہن کے گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ جب وہ زیور چرا کر جانے لگتے ہیں تو غلطی سے ان کا ایک ساتھی گولی چلا دیتا ہے۔ اس سے پورا گاؤں جاگ جاتا ہے۔ گاؤں والوں سے باقی ڈاکو تو بچ کر نکل جاتے ہیں لیکن کالی تتری پھنس جاتا ہے۔ گاؤں کے کئی لوگ اسے پہچان لیتے ہیں اور ان میں سے ایک آگے بڑھکر ایک ہی وار میں اس کے پیٹ کی انتڑیا ں باہر کر دیتا ہے۔‘‘
کالی تتری چری وچ بولے
تیاڈدی نوں باج پے گیا
بڑے مزے میں مولا نے چلم میں تمباکو اور اس کے اوپر سلگتے ہوئے اپلے کے دو ٹکڑے جمادئے اور پھر مارے سردی کے دانت کٹکٹاتا ہوا چارپائی پر چڑھ ٹانگوں پر دھسہ مگن ہو گیا۔
روٹی کھانے کے بعد اسے حقے کی سخت طلب ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے آنکھیں موند کر دو چار کش ہی لیے ہوں گے کہ دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔ یہ دستک اسے بڑی ناگورار گزری۔ اس نے کرخت لہجے میں پوچھا۔
’’کون ہے؟‘‘
جواب میں پھر کھٹ کھٹ کی آواز سنائی دی۔
پرداٹھٹھا۔ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ عین اس کے سرے پر مولا کا کچا مکان تھا۔ جہاں وہ اپنی بوڑھی ماں اور ایک بیوہ بہن سمیت رہتا تھا۔ گاؤں میں گھستے وقت چونکہ اس کا مکان سامنے پڑتا تھا، اس لیے راہگیر اسی سے کسی مکان کا پتہ یا کسی اگلے گاؤں کا راستہ دریافت کرنے کے لیے دروازہ آن کھٹکھٹاتے تھے۔ لیکن اس وقت آدھی رات ہونے کو تھی اور پھر سردیوں کے موسم میں تو سر شام ہی گاؤں پر خاموشی کا تسلط ہو جاتا تھا۔ نہ جانے بے وقت کون آن دھمکا تھا۔
جب مولا کو یقین ہو گیا کہ اسے اٹھنا پڑےگا تو اس نے حقے کی نے ایک جانب کو ہٹائی ا ور دھسے کو سنبھالتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔
دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر تاریکی میں میانے قد کا ایک سکھ کھڑا ہے۔ پگڑی اس کے سر پر موٹے رسے کی طرح لپٹی ہوئی تھی اور اس کے ایک سرے سے اس نے اپنے چہرے کا، آنکھوں کے سوا، نچلا حصہ چھپا رکھا تھا۔ اس کا رنگ سیاہی مائل گندمی تھا۔ بھنویں موٹی، گھنی اور لمبی تھیں۔ آنکھیں تیز اور متجسس۔ اس کی ناک کی جڑ کے قریب آنکھوں کے نیچے باریک اور گہری لکیروں کا جال سا بنا ہوا تھا۔
مولا بدکلامی کرتے کرتے رک گیا۔ اس نے بھاری اور خشک لہجے میں پوچھا۔
’’تم کون ہو؟‘‘
اجنبی نے لمحہ بھر اس کی طرف چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور پھر غصہ سے بولا۔
’’میں بھنبھوڑی گاؤں سے آ رہا ہوں۔‘‘
’’بھنبھوڑی! وہ تو یہاں سے بیس کوس کی دوری پر ہے۔ لیکن تم یوں بات کرتے ہو جیسے پڑوس کے گاؤں سے آ رہے ہو۔۔۔‘‘
اجنبی نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’میں ڈاچی پر آیا ہوں۔‘‘
مولا کو اس کے بولنے کا ڈھنگ پسند نہیں آیا۔ اس نے بےپرواہی سے کہا، ’’خیر مجھے اس سے کیا غرض۔ سوال تو یہ ہے کہ تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘
’’مجھے بگا سنگھ بھنبھوڑی والے نے بھیجا ہے۔‘‘
یہ سن کر مولا چوکنا ہو گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر نووارد کا بازو تھام لیا اور جلدی سے دھیمی آواز میں بولا۔
’’تو یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ اندر چلے آؤ نا۔‘‘
اجنبی بہ یک جست اندر آ گیا۔ وہ بڑا مضبوط شخص دکھائی دیتا تھا۔ اس نے بدن پر موٹا کھیس لپیٹ رکھا تھا۔
مولا نے ڈیوڑھی میں سے جھانک کر اندر کی جانب دیکھا اور اس امر کا اطمینان کر لیا کہ اس کی بہن اور ماں سب سے پیچھے والے کمرے میں لحافوں میں گھسی پڑی ہیں تو اس نے صحن والا دروازہ بند کر لیا اور اجنبی سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’میں نے دروازہ بند کر دیا ہے تاکہ ہماری باتوں کی آوازیں اندر تک نہ پہنچیں۔‘‘
اجنبی کچھ نہیں بولا۔ مولا نے تیزی سے باہر والے دروازے میں سے جھانک کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ پھیکی چاندنی میں دور جوہر کا پانی پگھلے ہوئے سیسے کی ٹکلی کے مانند دکھائی دے رہا تھا۔ ہوا ساکن تھی۔ پیڑ اور دور دور تک پھیلی ہوئی جھاڑیاں بےحس و حرکت کھڑی تھیں۔ یہ دیکھ کر مولا نے اپنے دانتوں میں اٹکی ہوئی حقے کی نے کو ہونٹوں میں دبوچ کر بڑے اطمینان سے گڑ گڑ کی صدا بلند کی اور پھر دروازہ بند کر کے لوٹا۔ نووارد ڈیوڑھی میں اندر بنی ہوئی کھرلی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
’’بھوک لگی ہو تی بتاؤ کھانے دانے کا کچھ بندو بست کروں۔‘‘
’’نہیں میں کھانا کھا کر آیا ہوں قریب کے گاؤں سے۔ بس اب کام ہو جانا چاہیے۔‘‘
’’کیوں اتی جلدی بھی کیا ہے؟‘‘
’’مجھے پھورن لوٹنا ہوگا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بگے نے یہی کہا تھا۔ میرا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کسی نے دیکھ لیا سک ہوگا۔ کھاہ مکھاہ۔‘‘
’’ڈاچی کہاں ہے؟‘‘
’’ڈاچی ساتھ والے گاؤں میں اپنے ایک دوست کے ہاں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
’’اور بندوکھ؟‘‘ (بندوق)
’’بندوکھ میرے پاس ہے؟‘‘
مولا کو تعجب ہوا کہ اتی بڑی بندوق اس نے کہاں چھپا رکھی ہے۔
اس پر اجنبی نے قدرے جھنجھلا کر کھیس کے نیچے سے دو تالی بندوق دکھائی جس کی دونوں نالیاں الگ کر کے اس نے بٹ سمیت انگوچھے میں لپیٹ رکھی تھی اور پھر ان پر ایک رسی کس کر باندھ رکھی تھی۔
اب مولا سمجھا۔ سر ہلا کر بولا۔
اچھا توڑ کر باندھ رکھی ہے۔‘‘
’’ہاں ویسے چھپ تو نہں سکتی نا۔‘‘
’’ٹھیک۔‘‘
’’اب جلدی کرو۔‘‘
’’اور کارتوس؟‘‘
اجنبی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ بگڑ کر کہنے لگا۔
’’دیکھو میں بالکل تیار ہو کر آیا ہوں۔۔۔ بس اب مجھے موکے پر لے چلو۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مولا نے حقے کے دو تین خوب گہرے گہرے کش لیے پھر دھسے کو بدن پر خوب اچھی طرح لپیٹا اور مسکرا کر بولا۔
’’استاد تمہیں میرے گھر کا پتہ کیسے چلا؟ کسی سے پوچھا تھا کیا؟‘‘
’’میں ایسا کچا نہیں ہوں کہ کسی سے تمہارے گھر کا پتہ پوچھتا پھروں۔ اس طرح تو تم پر شبہ کیا جا سکتا تھا۔ بگے نے مکان کا ٹھیک ٹھیک پتہ اور تمہارا حلیہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ تمہاری راہ دیکھتا ہوگا۔‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘ مولا ہنس کر بولا۔
بگّو اس کام کو کسی مامولی آدمی کے سپرد نہیں کر سکتا تھا۔ اچھا تولو میں چلا۔ ابھی دو تین اور آدمیوں کو بھی بلانا ہے۔‘‘
’’بلا لاؤ۔ پر میں ان کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا۔‘‘
’’بےشک بے شک جرورت بھی کیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر مولا چلنے لگا تو اجنبی بولا۔۔۔ ’’حکا لیتے جاؤ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’حکا گڑگڑاتے چلوگے تو سک نہیں ہوگا۔ دیکھنے والوں کو۔‘‘
’’یہ تو واقعی کھری بات کہی تم نے۔‘‘
مولا نے حقہ اٹھایا۔ نے دانتوں میں دبائی اور چلم سے بندھی ہو چمٹی جھلاتا اور تہبند لہراتا ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔
اجنبی نے اس کے رخصت ہوتے ہی دروازہ اندر سے بند کر لیا اور سرکنڈوں کا بنا ہوا بالشت بھر اونچا مونڈا گھسیٹ کر سلتے ہوئے اپلوں سے بھر ی ہوئی مٹی کی انگیٹھی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ کر بیٹھ گیا۔
مولا کینچوؤں کی طرح بل کھاتی ہوئی سنساز اور تنگ گلیوں میں سے گزرتا ہوا بالآخر ایک بوسیدہ کچے مکان کے آگے کھڑا ہوکر آوازیں دینے لگا، سدا گرا، اوئے سدا گرا!‘‘
کوئی جواب نہ ملنے پر اس نے پھر ہانک لگائی۔
’’اوئے سدا گر! سداگر! ہوئے!‘‘
پھر وہ اطمینان سے حقہ گڑ گڑانے لگا۔ دماغ میں جو طراوت پہنچی تو دل اجنبی کو دعائیں دینے لگا۔ جس نے کہ حقہ اس کے ہمراہ بھجوا دیا تھا۔
مکان کا دروازہ کھلا اندر سے گھنے اور کالے بالوں والا ایک نوجوان نکلا۔ پہلے تو اس نے مولا کی جانب خوابناک آنکھوں سے دیکھا لیکن جب پہچانا تو اس کی آنکھیں پورے طور سے کھل گئیں۔
مولاؔ نے زرد زرد دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا، ’’واجیں دے دے کر میرا تو گلا بھی بیٹھ گیا۔ کہاں گھسا پڑا تھا لاں کے موڑے۔‘‘
اس پر دونوں ہنسنے لگے۔
سداگر نے پرچھا، ’’ہاں بے بتا۔‘‘
جواب میں مولا چپ چاپ حقہ گڑ گڑاتا رہا۔ پھر اس نے شرارت اور پر معنی انداز سے ابرو اوپر اٹھا کر ایک آنکھ اس طرح ماری جیسے ڈھیلا کھینچ کر مار دیا ہو۔
سدا گر سمجھ گیا۔
’’چلو۔‘‘ مولا نے کہا
’’ٹھہرو۔ میں اوڑھنے کے لیے تو کچھ لے آؤں اندر سے۔‘‘
وہ بھاگا اندر گیا اور کالے رنگ کی ایک لوئی بدن پر لپیٹتا ہوا فوراً واپس آ گیا۔
دونوں وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ گاؤں پر ہوکا عالم طاری تھا۔ کہیں کہیں کوئی کھجلی ماری کتیا دانت دکھاتی ہوئی دکان کے ایک تختے سے نکل کر دوسرے تختے تلے دبک جاتی۔ یا گارے سے بنے ہوئے کچے مکانوں کی دیواروں تلے چھچھوندریں جان چھپاتی پھرتی تھیں۔
دبے دبے لہجے میں باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے میلا سنگھ کو اس کے مکان سے اور لبھو کو مویشیوں کے طویلے سے بلا کر اپنے ہمراہ لیا اور واپس مولاؔ کے مکان پر پہنچ گئے۔
اندر سے اجنبی نے دروازہ کھولا۔ اس کا پہرہ اب پگڑی کے شملے میں چھپا ہوا تھا۔ سداگر، لبھو اور میلا سنگھ ابھی جوان تھے۔ ان کاموں میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اجنبی کا نقاب کے پیچھے چھپا ہوا چہرہ اور جن کے مانند گھنی بھنووں تلے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر ان کے نوخیز جسموں میں سنسنی کی لہریں دوڑ گئیں۔
اجنبی نے جلدی سے ان کی صورتوں کا جائزہ لیا۔ پھر اس نے کھیس میں سے ہاتھ نکال کر اشارہ کیا کہ اب دیر کس بات کی ہے؟
اس کا ہاتھ بھی کالا تھا۔ اس پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔
مولا نے جواب دیا۔
’’دیر کسی بھی بات کی نہیں۔‘‘
’’تو اب چلیں۔‘‘
’’ضرور۔‘‘
مولا نے آگے قدم بڑھایا اور باقی سب اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ اجنبی کے قدم بڑی پھرتی سے اٹھ رہے تھے اور اس کی پتلیاں دم بھر کو بھی ایک جگہ نہیں رکتی تھیں۔ تسبیح کے دانوں کی طرح کھٹاکھٹ گھومتی تھیں۔
دور سے کبھی کبھار پہرے دار کے دفعتاً چلانے کی آوازیوں سنائی دے جاتی جیسے وہ کوئی خوفناک خواب دیکھ کر ہڑ بڑا کر اٹھا ہو۔ اس آواز اور اپنے درمیان کا فاصلہ رکھتے ہوئے وہ بڑی تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
گاؤں سے نکل کر تقریباً پون میل کی دوری پر واقع پیران والے رہٹ پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ مولا کے اشارے پر سدا گر نے رہٹ کے قریب والے باڑے میں گھس کر ایک مریل بیل کو باہر نکالا اور پھر وہ اسے ہانکتے ہوئے ذرا پرے لے گئے اور گاؤں کے ایک بڑے سود خود کے کھیت میں اسے چھوڑ دیا اور وہ خود ببول کے پیڑ کی چھدری چھاؤں تلے جا کھڑے ہوئے۔
پورا چاند آسمان پر چمک رہا تھا۔
اجنبی سکھ نے اپنی بغل میں سے بندوق کا اسنجر پنجر نکالا۔ نالیوں کو بٹ سے کڑک کیا اور نیچے کی جانب چوبی کھینچی جمائی اور ہتھیلی کی ایک ہی ضرب سے اسے اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔
پھر اس نے دونوں نالیوں میں ٹھوس گولیوں والے کارتوس بھرے اور ایک نظر مریل بیل کی جانب دیکھا جو سرد ہوا میں کان پھڑ پھڑاتا اور پتلی اور کمزور دم کو نقاہت سے ہلاتا گھاس پر منہ مار رہا تھا۔ پھر اس نے شست باندھ کر لبلبی دہائی۔ گولی کھاتے ہی بیل بغیر کسی جدوجہد کے زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ یہ گولی تو شیر کو ٹھنڈا کر دینے کے کافی تھی، لیکن اجنبی نے احتیاط کے طور پر دوسری گولی بھی اس کی گردن پر چکا دی۔
بیل کا کام تمام ہوتے ہی اجنبی نے اپنی اور بھی تیزی سے چمکتی ہوئی آنکھوں سے مولا اور اس کے ساتھیوں کی جانب دیکھا پھر بھاری آواز میں بولا۔
’’اچھا اب مجھے چلنا چاہیے۔ صبح سے پہلے واپس پہنچا ضروری ہے۔‘‘
مولاؔ نے ہاتھ بڑھا کر کہا، ’’اچھی بات۔‘‘
اجنبی نے چاروں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ایک بار پھر بھاری آواز میں کہا۔
’’ساب سلامت!‘‘
’’ساب سلامت!‘‘
اجنبی نے پھر اپنی بندوق کو توڑ تاڑ کر اس پر کپڑا لپیٹ دیا اور پھرتی سے قدم اٹھاتا ہوا قدرے پھیکی چاندنی میں غائب ہو گیا۔
وہ چاروں کچھ دیر تک اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر وہ بیل کی جانب بڑھے اور دیکھا کہ وہ قطعاً مر چکا ہے۔
اب وہ جلد جلد گاؤں کی جانب بڑھے اور گاؤں کے قریب پہنچ کر انہوں نے دفعتاً، پکڑو، پکڑو، کا شور بلند کیا۔
لوگوں کو ڈاکوؤں کا ڈر لگا رہتا تھا۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تب انہیں پتہ چلا کہ بیچارے مولا کا بیل گولی سے مار دیا گیا ہے۔
مولا دیر تک گولی مارنے والے کی ماں اور بہنوں سے اپنا رشتہ گانٹھتا رہا اور جب اس کا گلا بیٹھ گیا تو سورج نکلنے سے پہلے پہلے وہ چھ کوس پرے تھانے میں اس امر کی رپٹ درج کروا کر گاؤں لوٹ آیا۔
(۲)
پیرداٹھٹہ گاؤں چھوٹا تھا۔ لیکن یہاں کا سب سے امیر گھرانہ ’’ماہنہ‘‘ دور دور تک مشہور تھا۔ ارد گرد دیہات میں ان کی اسامیاں موجود تھیں اب ماہنوں کا دبدبہ کچھ کم ہو گیا تھا۔ کیوں کہ پیر کے ٹھٹے اور ارد گرد کے دیگر گاؤں کے بدمعاشوں نے مل جل کر خواہ مخواہ مقدمہ بازی میں پھنسا کر انہیں کھوکھلا بنا دیا تھا اور ادھر ان کے لیےمولا نے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی تھی۔
سردیوں کا سورج کچھ زیادہ بلند نہیں ہونے پایا تھا کہ علاقے کے تھانے سے ایک لمبا تڑنگا مسلمان تھانے دار گھوڑے پر بیٹھا اور دو سائیکل سوار سپاہی ساتھ لے کر پیر کے ٹھٹے میں آن دھمکا۔
گاؤں کے باہر ایک بڑے اور بزرگ پیپل کے پیڑ تلے پہنچ کر تھانے دار گھوڑے پر سے اترا۔ سنہرے کلاہ پر لپٹی ہوئی اس کی خاکی رنگ کی کلف لگی پگڑی کے لہراتے ہوئے شملے دور ہی سے دکھائی دینے لگے۔ چنانچہ گاؤں بھر کے چماروں، بھینگیوں اور کسانوں کے بچے اور کتے گاؤں میں گھستے ہی ان کے پیچھے ہو لیے اور اب وہ ایک برا سا حلقہ بنائے کھڑے تھے۔
پیپل کے نیچے بلا کی گرد تھی جس میں سوکھے پتے اور بھوسے کے تنکے ملے ہوئے تھے۔
گھوڑے کی لگام سکھ سپاہی کے ہاتھ میں تھما کر تھانیدار نے دونوں طرف سے وردی کو کھینچ کر اپنے سڈول بدن پر جمایا، اس کا اونچا قد کلاہ دار پگڑی کے باعث اور بھی اونچا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی نہ مکتی ہوئی پیشانی خوب کشادہ تھی اور اس کی ناک جڑ ہی سے ایک دم اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ اپنی شان دار اونچی ناک کی وجہ سے وہ بڑا باوقار اور بارعب انسان نظر آ رہا تھا۔ ابھی نوجوانی کی ناتجربہ کاری اس کے چہرے سے جھلکتی تھی، لیکن وہ ذہین ضرور تھا۔ اس کی سبز رنگ کی پتلیوں کی وجہ سے وہ بقول دیہاتیوں کے ’انگریج‘ جان پڑتا تھا۔
پہلے اس نے کھلی ہوا میں ٹہل ٹہل کر دو تین گہرے سانس لیے اور پھر جیب ٹٹول کر ایک خاکی زنگ کا کا غذ باہر نکالا اور اس پر بغور نظر دوڑانے لگا۔ اسی اثنا میں گاؤں کے لوگ بھی جمع ہونے شروع ہو گئے۔ ادھر سکھ سپاہی نے گھوڑے کی لگام پیپل کی جڑ سے باندھ دی۔
کہیں سے نمبردار کی خبر ملی تو وہ بچارا سر پرپاؤں رکھ کر بھاگا۔ جب وہاں پہنچا تو حال یہ کہ دم پھولا ہوا اور پگڑی ٹانگوں میں الجھی ہوئی۔ تھانے دار نے ٹانگیں اکڑا اکڑا کر نظر اوپر اٹھائی اور حلقے میں کھڑے ہوئے آدمیوں میں سے ایک کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔
وہ بچارا گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
تھانے دار نے تحکمانہ انداز سے کہا، ’’میں تمہیں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’جی مجکو؟‘‘ اس آدمی نے اپنے سینے پر انگلی جماتے ہوئے پوچھا اور اثبات میں جواب پاتے ہی اس نے مضحکہ خیز انداز سے آنکھوں کی پتلیاں دائیں بائیں گھماکر ادھر ادھر دیکھا اور پھر پگڑی سنبھالتا ہوا تھانیدار کی جانب بڑھا۔
’’تم مولا کا گھر جانتے ہو؟‘‘
’’آہو جی اوؤ۔۔۔‘‘
’’جاؤ اسے بلا کر لاؤ۔‘‘
وہ آدمی سرپٹ بھاگا۔ لیکن مولا حقہ ہاتھ میں لیے پہلے ہی سے تہبند اڑاتا چلا آ رہا تھا۔
تھانیدار سے آنکھیں چار ہوتے ہی اس نے دور ہی سے حقہ زمین پر رکھ دیا اور بڑ غلو سے جھک کر فرشی سلام کیا اور پھر آگے بڑھا۔
’’موتیاں والیو! میں نے دور ہی سے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ بس حقہ تازہ کرنے میں دیر ہو گئی۔‘‘
یہ کہہ کر مولا نے بڑے خوشامدانہ انداز سے حقے کی نے اس کے نتھنوں سے بھڑادی۔
نمبردار آتے ہی چارپائی کا انتظام کرنے کے لئے الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ بیٹھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پاکر تھانیدار ایک مگدر پر بیٹھنے لگا تو مولانے بڑھ کر اپنا کھیں بچھا دیا اس پر اور پھر للکار کر کہا۔۔۔ ’’ادے میا دیوا بھیج کے میرے گھر سے چار پائی اور بستر لے آؤ۔‘‘
اس کی بات سنتے ہی دو تین آدمی بھاگ نکلے۔
تھانیندار نے پہلے تو چپ چاپ حقے کے خوب گہرے گہرے کش لیے اور پھر مولا کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے مسکرا کر بولا، ’’سنا اوئے بھوتنی پلستر! بات کیا ہے آج چوروں کے گھر مور پڑ گئے؟‘‘
’’توبہ! میری توبہ!‘‘ کہتے کہتے مولا وہیں اس کے قدموں میں بیٹھ گیا، ’’جبرجستو! جبھی تو کہتے ہیں کہ بد اچھا بدنام برا۔‘‘
’’ہاں خوب یاد آیا۔‘‘ تھانیدار نے سپاہی کی طرف متوجہ ہو کر کہا، ’’اوئے عجیب سینہا! جا جرا رام لال مانہے تے اوہدے لڑکے کو تو بلا کے لیا۔‘‘
پہلے ہی سے سدھائے ہوئے سداگر نے آگے پڑھ کر ہاتھ جوڑ دیے اور مسکین آواز میں بولا، کھان صاحب بڑا انرتھ ہوئیا اے جی۔ بچارے مولا کی تاں کمر ہی ٹٹ گئی۔ کسان کو بیل کا بڑا سہارا ہوتا ہے۔‘‘
مولا نے ٹھنڈی سانس بھر کر منہ نیچے کو لٹکا دیا۔
ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ رام لعل سفید دھوتی اور اس پر سفید کرتا پہنے آ پہنچا۔ اس کے ساتھ اس کا نرم و نازک بیس سالہ لڑکا ہیرا لعل بھی تادجو پتلون پہنے تھا۔
تھانیدار نے باپ بیٹے کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ باپ بچارا ادھیڑ عمر کا سنجیدہ انسان تھا۔ لیکن تھانے دار کو لڑکے کے کھڑے ہونے کے انداز سے بغاوت کی بو آئی، تاہم اس نے کافی تحمل سے پوچھا۔
’’ابے لونڈے اپنا نام بتائیو۔‘‘
اس پر پڑھے لکھے لڑکے کو کچھ گرمی آ گئی۔ برہم ہو کر انگریزی زبان میں بولا۔
''YOU SHOULD NOT BE SO RUDE!''
تھانیدا کو انگریزی بس واجبی آتی تھی۔ اس لیے وہ تحکمانہ لہجے میں بولا، ’’دیکھ اوے منڈیا! ہم سے زیادہ گٹ پٹ نہیں کرتا۔ جو کہنا ہو سو اپنی بولی میں کہوتا کہ سب لوگ تمہارا بیان سمجھ سکیں۔‘‘
نوجوان ذرا تیز مزاج تھا۔ بولا، ’’آپ افسر ہیں۔ آپ کو ذرا تمیز سے بات کرنی چاہیے۔‘‘
یہ غیر متوقع جواب سن کر تھانیدار نے سر اوپر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے۔ اس نے اشارے سے سپاہی کو قریب بلایا اور ہونٹ کاٹ کر بولا، ’’عجیب سینہا! ایس منڈے کو تھوڑی تمیز دکھاؤ۔‘‘
عجیب سنگھ کے دو تین جھانپڑ کھا کر نوجوان کے دانت ہل گئے۔ تھانے دارنے اس کے چکنے بالوں کے گچھے کو ہاتھ میں دبوچ کر کہا، ’’بیٹا میں تمہارے ایسے شریف بدمعاشوں کو سیدھے راستے پر لانا خوب جانتا ہوں۔‘‘ پھر حاضرین کی جانب متوجہ ہوئے ’’دیکھو جی ایک غریب کسان کا بیل گولی سے اڑا دیا اور اوپر سے دھونس جماتے ہیں۔ قانون ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھانا ہمارا کام ہے۔‘‘
حاضرین میں سے بیشتر نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تھانیدار غرا کر بولا، ’’ائے مولیا۔‘‘
’’جی موتیاں والیو!‘‘
مولا بغل ہی میں سے نکل کر ہاتھ باندھ کر تھانیدار کے روبرو کھڑا ہو گیا۔
’’بیل کہاں پر مرا پڑا ہے۔‘‘
’’شہنشاۃ جی! وہ تو مانہوں کے کھیت میں ہی مرا پڑا ہے۔ بےچارا قسمت کا مارا باڑے میں سے نکل ان کے کھیتوں میں جا نکلا۔ بس اٹھا کے گولی داغ دی انہوں نے۔ بھلا دو ڈنڈے مار کر نکال دیتے سالے کو۔ غریب کا بیل تو بچ جاتا۔‘‘ یہ کہتے کہتے مولا نے رونی صورت بنالی۔
مانہا یہ الزام سن کر سٹپٹا گیا۔ لیکن بیٹے کا حشر دیکھ چکا تھا، اس لیے چپ رہا۔
’’ہم مرا ہوا موقع پر دیکھیں گے۔‘‘
’’چلو موتیاں والیو!‘‘
اب آگے آگے موتیاں والا۔ ساتھ ساتھ مولا، سداگر، لبھو وغیرہ۔ ان کے پیچھے مانہے اور سب کے آخر میں ناک سڑ سڑاتے بچے اور دمیں ہلاتے ہوئے کتے۔‘‘
یہ لشکر کھیت پر کھیت پھلانگتا ہوا جب مانہوں کے کھیت میں پہنچا تو دیکھا کہ سردی سے اکڑا ہوا بیل کھیت میں ٹانگیں پسارے پڑا ہے۔۔۔مولا نے احتیاطاً ایک لونڈے کو وہاں بٹھا دیا تھا۔ تاکہ گدھ اور کتے مردار کے قریب نہ آئیں۔
خان صاحب (تھانیدار) نے بیل کی اگلی ٹانگوں کے نیچے اور گردن میں لگی ہوئی گرمیوں کے نشانا کو بغور دیکھا۔
گاؤں کے تین چار آدمیوں کو بھی دیکھنے کا حکم دیا۔ پھر گاؤں واپس آکر پیپل کی چھاؤں تلے بچھی ہوئی چار پائی پر بیٹھ گئے۔ اس وقت ان کے لیے مکھن اور لسی کا کٹورا تیار تھا۔
مکھن کا گولہ نگل کر اور اوپر سے لسی چڑھا کر خان صاحب نے باچھیں جھاڑن نما رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا، ’’ہاں بے مولو! اب بتا سارا قصہ۔ تیرا بیان لکھا جائےگا اب۔‘‘
مولا نے کھانس کر گلا صاف کرتے ہوئے بتانا شروع کیا کہ کیسے پچھلی رات کو وہ اپنے باڑے تک یہ دیکھنے کے لیے گیا کہ وہ لونڈا جو وہاں مویشیوں کی رکھوالی کے لیے مقرر تھا، وہاں موجود بھی تھا یا نہیں کیوں کہ اس کمبخت کا ایک چمارن سے یارانہ تھا۔ موقع پا کر راتوں کو ادھر بھی کھسک جایا کرتا تھا۔‘‘
’’تم اکیلے تھے یا اور بھی کوئی ساتھ تھا۔‘‘
’’نہیں جی کیلا کتھے۔ میرے نال سداگر امیلو اور لتھو بھی تو تھے۔‘‘
’’یہ کب سے تمہارے ساتھ تھے؟‘‘
’’بادشاہو، یہ تو ہر روج میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ کھانے دانے سے فرصت پاکر کبھی یہ میرے پاس آ جاتے ہیں اور کبھی میں ان ک پاس چلا جاتا ہوں۔ گپ اڑانے کے لیے۔‘‘
’’اچھا اچھا پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر شہنشاہ ہو، ابھی ہم باڑے سے دور ہی تھے کہ دھائیں دھائیں دو بار بندوق چلنے کی آواز سنائی دی۔ ہم تو جی ڈر کے مارے کھیتوں میں چھپ گئے۔۔۔‘‘
’’اچھا تو تم ڈر گئے؟‘‘ خان صاحن نے پوچھا کیوں کہ شکل ہی سے مولا ان آدمیوں میں سے دکھائی دیتا جنہیں ڈر کبھی چھوتا بھی نہیں۔
’’آہوجی ہم ڈر گئے۔‘‘
ہچھا پھر؟‘‘
’’اتنے میں یہ نکا ماہنہ گاؤں کی طرف بھاگتا دکھائی دیا۔ پہلے ہم سمجھے کسی ڈاکو نے اس پر گولی چلائی ہے۔ پر جی اس کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر ہم گھبرا گئے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ خان صاحب نے اثبات میں یوں سر ہلایا۔ جیسے وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں۔‘‘ پھر؟‘‘
’’پھر جی ہم باڑے کی طرف بڑھے۔ راستے میں انہیں کے کھیت پڑتے ہیں۔ وہاں ہمیں سفید سفید چیز دکھائی دی۔ ہم ڈرتے ڈرتے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میرا بیل مرا پڑا ہے۔ میں نے تو سر پیٹ لیا اور نجیک سے دیکھا تو گولیوں کے نشان دکھائی دیے۔‘‘
تھانیدار صاحب نے مولا سے متعدد سوالات کیے۔ پھر میلو، سداگر اور لبھو کی جرح کی گئی۔
’’اچھا تو سدا گر! تم نے اچھی طرح پہچان لیا تھا کہ وہ ’’رام لعل کا بیٹا ہیرا لعل ہی تھا؟‘‘
‘‘ہاؤجی۔‘‘
اس طرح سے سب نے الگ الگ اس امر کی تصدیق کی۔ اب خان صاحب پھر ہیرا لعل کی طرف متوجہ ہوئے، ’’دیکھو ہیرا! سچ سچ بتا دو کہ آخر بات کیا ہے۔ ورنہ یاد رکھو کہ میں مجرموں کا سخت دشمن ہوں۔ تھانے پہنچ کر دوکانوں میں سرکردوں گا تمہارا۔‘‘
اب تو ہیرا لعل تاؤ میں آنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ابھی پہلی مار ہی سے اس کی ناک جل رہی تھی اور ہونٹوں پر سوجن آ گئی تھی۔ اس نے مدھم آواز میں کہا، ’’یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ میں تو کھانا کھا کر گھر سے باہر تک نہیں نکلا۔‘‘
خاں صاحب نے اس کے باپ کی طرف دیکھ کر کہا، ’’لالہ! تمہارا لونڈا ذرا سخت دانہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا کام بھی بھولے بھٹکوں کو راستے پر لانا ہے۔ سمجھا لو اپنے بیٹے کو۔ ورنہ ایک بار میں نے ہاتھ اٹھا دیا تو یاد رکھو پہچان نہیں پاؤگے کہ اس کا سر کدھر کو تھا اور منھ کدھر کو۔‘‘
رام لعل مقدمہ بازی سے تنگ آ چکا تھا۔
ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’خاں صاحب! ابھی لڑکا ہی تو ہے، شاید۔۔۔ میں بیل کی قیمت دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’بیل کی قیمت؟‘‘ مولانے چلا کر کہا۔ گریب کے بیل کی جان ایسی سستی نہیں ہوتی کہ جب جی چاہا مار دیا اور پھر پیسے کی دھونس جمانے لگے۔‘‘
خاں صاحب بولے، ’’چپ رہو جی تم۔ بکواس بند کرو۔‘‘
’’نہیں بادشاہو! میری کیا مجال ہے۔‘‘ مولا ہاتھ جوڑ کر الگ کھڑا ہو گیا۔
’’اچھالالہ اپنی بندوق تو منگواؤ ذرا۔‘‘
بندوق حاضر کی گئی۔
ہیرا بولا، ’’دیکھئے بندوق کی نالی میں گریز لگاکر میں نے الگ رکھ چھوڑی تھی۔‘‘
خاں صاحب نے ہیرا کی طرف گھور کر دیکھا اور زور زور سے سر ہلاکر بولے، ’’سب سمجھتا ہوں یہ گریز تو آج ہی کی لگی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر تک بندوق کا معائنہ کیا گیا پھر انہوں نے سپاہی سے کہا۔
’’عجیب سینہا! کاغذ لاؤ تو بندوق کی رسید لکھ دوں۔‘‘
اس کے بعد سب کے بیانات مکمل کیے گئے اور پھر تھانے دار نے کہا، ’’بندوق تھانے میں داخل ہوگی بیٹا! ہیرا چلو تھانے۔ پھر دیکھو میں ہیرا کا بیڑا کیسے بناتا ہوں۔‘‘
رام لعل بیٹے کے لیے سخت پریشان تھا۔ ہاتھ باندھ کر بولا۔
’’خان صاحب دیا کیجیے۔ میں بیل کی قیمت اور جرمانہ دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری جیب میں روپے اچھل رہے ہیں لالہ!‘‘
رام لعل نے بہ مشکل تھوک نگلتے ہوئے پوچھا ’’کیا ضمانت نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’یہ سب تھانے پہنچ کر طے ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر خاں صاحب گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ جب وہ ہیرا کو لے کر چلنے لگے تو رام لعل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ جانتا تھا کہ لڑکے نے جوش میں آکر گستاخی کی ہے۔ اس لیے اس کی خیر نہیں۔ کچھ سوچ کر آگے بڑھا اور ہاتھ جوڑ کر بولا،
’’خاں صاحب! ایک بات عرض کروں۔‘‘
خاں صاحب نے گھوڑا روک لیا۔
’’بات یہ ہے کہ مولا کے بیل کو میں نے گولی ماری تھی۔‘‘
خاں صاحب نے ہنس کر گھوڑے کو ایڑ دی اور بولے، ’’لالہ! لڑکے کو بچانے کی خاطر جھوٹ بول رہے ہو۔ ذرا گواہوں سے تو پوچھو۔ ہم تو قانون کے بندے ہیں۔‘‘
جب تھانے دار صاحب ان سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور بندوق بھی اپنے ساتھ لے گئے تو مولا نے اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں پہنچ کر پہلے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر بھاری آواز میں بولا، ’’یامولا!‘‘ اس کے بعد سداگر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا، ’’دیکھ بے سداگر! ابھی بھسنگڑی پر سوار ہو کر سیدھا بھنبوڑی چلا جا اور بگا سنگھ سے کہہ دے کہ دھائیں دھائیں بولنے والی چڑیا پنجرے میں بند ہو گئی ہے۔
(۳)
ابھی سورج ڈھل ہی رہا تھا کہ دفعتاً اس قدر زور کی آندھی اٹھی کہ زمین سے آسمان تک دھواں دھار ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کرۂ زمین کا سینہ پھٹ گیا ہے ارد گرد کے بادل دربا دل فلک بوس پہاڑوں کے مانند جھوم جھوم کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ارد گرد کا یہ سمندر خس و خاشاک کو اڑاتا، امڈتا چلا آ رہا ہے۔سورج دفعتاً روپوش ہو گیا۔ ہر چہار جانب دھندلاہٹ اور تاریکی بڑھتی جا رہی تھی اور گدلے آسمان میں آنے والی آندھی کی خبر دینے والے چیلوں کے جھنڈ بھی اس بےپناہ دھندلاہٹ میں خلط ملط ہو گئے۔
لکڑی کے بنے ہوئے بھاری بھاری چرکھڑوں والے رہٹ کے اوپر چھائے ہوئے پھلاہ کے بڑوں کے جھنڈ میں سے کپورا سنگھ بھٹٹے والا ایک آتشیں تھوتھنی والی سرتا پا سیاہ مضبوط گھوڑی پر سوار باہر نکلا۔ اس نے پہلے پیر کے ٹھٹے کی جانب دیکھا اور پھر دور دور تک بچھے ہوئے کھیتوں پر نگاہ دوڑائی۔ لیکن اس کی نظر دور تک نہیں جا سکی۔ کیوں کہ آندھی دم بدم بڑھتی آ رہی تھی۔ کھیتوں کی فصلیں گرد آلود ہوا کی آمد آمد سے ایک بڑے تالاب کے میلے گدلے پانی کی طرح لہریں لیتی دکھائی دے رہی تھیں۔
کپورا ٹھٹے والا، جسے عام طور سے کالا تیتر کہتے تھے، اسے گاؤں سے نکال دیا گیا تھا۔ کئی برس سے اس نے گاؤں میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کی تھی۔ لیکن ہفتہ بھر پہلے وہ چوری چھپے اپنی بہن کو ملنے کے لیے گیا۔ صرف ایک رات رہ کر اور یہ معلوم کرکے کہ سسرال سے لائے ہوئے زیورات وہ کہاں پر رکھتی ہے، چپ چاپ لوٹ آیا تھا۔ آج ان زیورات اور اس کے ساتھ اڑوس پڑوس والوں پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ تھا۔
وہ بہت جسیم انسان تھا، کالا بھجنگ، حرامی پن نس نس میں بھرا ہوا تھا۔ اس کا دل بے حس اور جذبات کند ہو چکے تھے۔
ابھی وہ دور دور تک نگاہ دوڑا ہی رہا تھا کہ کھیتوں میں چند سائے دکھائی دیے جو پرچھائیوں کی طرح اس کی جانب آئے۔
آندھی کا زور بڑھنے لگا۔
گاؤں کے چاروں طرف پھیلی ہوئی گرد پر پہلے تو سبک دھول کی چادریں لہلہائیں۔ پھر بھاری گرد تہہ در تہہ اوپر کو اٹھنے لگی اور جوہڑ کے پانی کی سرسراتے ہوئے سانپوں کی طرح ننھی ننھی لہریں بل کھا کھا کر کروٹیں لینے لگیں۔
طوطے، کویے و دیگر گھریلو چڑیا پیپل اور دھریک کے پیڑوں میں پناہ گزین ہو گئیں۔
کھیت کھیت چلتے ہوئے وہ آدمی جب قریب پہنچے تو کپورے نے انہیں پہچان لیا۔ آگے آگے مولا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے سدا گر، لبھو اور میلا سنگھ۔
انہیں دیکھتے ہی کپورا کرخت لہجے میں بولا۔
’’تم لوگ کہاں تھے؟‘‘
’’یہیں تو تھے۔‘‘ سدا گر نے ہنس کر جواب دیا۔
کپورے کو سداگر کی ہنسی پسند نہیں آئی۔ اس نے اس کی جانب کڑی نظروں سے دیکھا۔ وہ خود بہت کم ہنستا تھا۔ ظاہر تو یہ ہوتا تھا کہ وہ سداگر کے منہ پر الٹے ہاتھ کا جھانپڑ دےگا۔ لیکن پھر خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا او رمولا سے مخاطب ہوا۔
مولا !
’’ہوں۔‘‘
’’سب ٹھیک؟‘‘
’’ہم تو سب ٹھیک ہی ہیں۔۔۔ تیاری باتوتمہاری ہونی چاہیے۔‘‘
اسے مولا کی حاضر جوابی بھی پسند نہیں آئی۔ لیکن اس وقت غصے کا موقع نہیں تھا اور کچھ نہیں تو ڈاکے کا معاملہ چوپٹ ہو جانے کا ڈر تھا، تاہم اس نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ہماری تیاری سے تمہارا کیا مطلب؟ تم تو اپنی کہو۔‘‘
’’ہمارا کام تو کبھی کا ہو چکا۔ گاؤں میں ایک بندوق تھی سو اب تھانے میں ہے۔‘‘
’’کسی طرف سے کوئی بات نکلی تو نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کوئی افواہ، شک و شبہ؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کپور کی گھوڑی شاید آندھی میں کسی قسم کی بو پا کر بےچین ہو ہو کر بدکتی او ربے چینی سے زمین پر دم جھاڑتی تھی۔ لیکن وہ اسی پر خوب جم کر بیٹھا تھا۔
تاریکی دم بدم بڑھتی جارہی تھی۔ کپورے کی لوہے کی تاروں کی سخت داڑھی کے بال لہرانے لگے۔ کھیتوں سے بھاگ کر لوگ باگ اپنے اپنے گھروں میں گھس گئے تھے، چور خوش تھے کہ آج پروردگار بھی ان کی مدد کرنے پر تلا ہوا تھا۔
انہیں کئی ساتھیوں کا انتظار تھا جو دور دور یعنی پٹیا لے تک سے آنے والے تھے۔ کپور نے سوچا کہ اگر آندھی کی ہی کیفیت رہی تو انہیں اپنی کاروائی جلد شروع کرنی ہوگی۔
کپورا بولا، ’’اچھا اب میں چلتا ہوں۔‘‘
’’ابھی باقی لوگ تو نہیں آئے ہوں گے۔‘‘
’’آ گئے ہوں گے۔ چل کر دیکھتا ہوں۔ تم لوگوں کو تلاش کرنے میں میرا وقت خراب ہوا۔‘‘
’’ہم تمہیں دیکھتے رہے۔ تم کہیں دکھائی نہیں دیے۔‘‘
’’رہٹ پر ملنے کا وعدہ تھا۔ میں سیدھا اسی جگہ پہنچ گیا تھا۔‘‘
’’پہلے ہم بھی رہٹ پر گئے تھے۔ پھر ہم کھیتوں میں چلے گئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہم نے سوچا کہ کہیں رہٹ پرہمیں کوئی ساتھ ساتھ دیکھ نہ لے۔‘‘
’’یہ اچھی حرکت کی تم نے۔ اس قسم کی حرکتیں کرو گے تو خود پھنسوگے اور ہمیں بھی پھنساؤگے۔
اگر مجھے کوئی اس جگہ دیکھ لیاس تو؟‘‘
مولا بولا، ’’اچھا جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ ہم اپنی جگہ سے تمہیں دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن آندھی کی وجہ سے تم دکھائی نہیں دیے۔
بھئی! آگے کو خیال رکھیں گے۔ ایسی گلتی نہیں ہوگی۔‘‘
اس پر کپورا خوش ہو گیا۔ بولا۔
’’دیکھو ہم آ کر پہلے اسی جگہ رکیں گے۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو تو ہمیں خبر کر دینا۔‘‘
’’اچھی بات۔‘‘
’’مولا! تمہارا گھر تو بالکل سامنے پڑتا ہے۔‘‘
’’تو پھر ذرا نظر رکھنا تاکہ جب ہم یہاں پہنچیں تو تم میں سے ایک شخص ہمیں یہاں آن ملے۔ سمجھے۔‘‘
’’لیکن آندھی بڑھتی جا رہی ہے۔ نہ جانے کب تک اس کا جور رہے۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہاتھ کو ہاتھ تک سجھائی نہں دےگا۔ تم لوگ اتی دور سے کیسے دکھائی دے سکتے ہو۔‘‘
کپورے نے قدرے تامل کیا پھر بولا، ’’یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اب کریں کیا؟‘‘
’’تم یہ بتاؤ کہ سب کو لے کر کب تک لوٹوگے؟‘‘
کپورے نے قدرے غور کرنے کے بعد جواب دیا، ’’بھئی پٹیالے اور جیند تک سے جوان آ رہے ہیں۔ اگر سب پہنچ گئے تو پھر ایک گھنٹہ تک لوٹ آئیں گے۔‘‘
’’اچھی بات۔‘‘
’’اور کیا اب رات بھیگنے کا انتجار تو کریں گے نہیں ہم۔ آندھی سے تو اس قدر اندھیرا چھا جائےگا کہ بس طبیعت کھس ہو جائےگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’لو بھئی اب میں چلا۔‘‘
یہ کہہ کر کپورے نے گھوڑی کو ایڑ دی اور بگولے کی سی تیزی کے ساتھ دم بدم دھندلائی ہوئی جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔
(۴)
ایک گھنٹہ گزرنے بھی زنہ پایا تھا کہ پیر کے ٹھٹے پر ایسی گہری تاریکی چھا گئی کہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
کپورا اور اس کے ساتھ گھوڑوں اور سانڈھینوں پر سوار اندھا دھند چلے آ رہے تھے۔ تیز و تند ہوا گویا ان کےکپڑے نوچ کر ان کے بدن سے الگ پھینک دینا چاہتی تھی۔ ان کی داڑھیاں اور مونچھیں گرد سے اٹ گئی تھیں۔ آنکھوں کی پلکیں ایک دوسری میں پیوست ہوئی جا رہی تھیں۔ اگر کپور ان کی رہ نمائی نہ کرتا تو کبھی راستہ تلاش نہ کر پاتے۔
ان میں ہندو مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے۔ ان کے پاس دو کچی رائفلیں تھیں جن کی نالیوں کے دہانے انہوں نے کپڑوں کی ڈاٹوں سے بند کر رکھے تھے تاکہ گرد اندر نہ جانے پائے۔ لاری کے اسٹیرنگ کی نالی والی ایک بندوق بھی تھی۔ ان کے علاوہ وہ کرپانوں، چھپویوں، لاٹھیوں اور صفا جنگوں سے مسلح تھے۔
اس وقت دور سے پیر کا ٹھٹہ مرے ہوئے بھینسے کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔
گاؤں سے ہٹ کر سنت و تار سنگھ جی کی ٹوٹی ہوئی سمادھ کی اونچی دیواریں الگ تھلگ کھڑے ہوئے دیو کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ بوسیدہ دیوار کے قریب سڑے ہوئے پانی کی ایک کھائی تھی جس کی سطح پر سبز رنگ کی کائی جمی رہی تھی اور دیوار کی دراڑوں سے جنگلی بلیں لٹک آئی تھیں اور ان کی پتیاں پانی کی سطح کو چوما کرتی تھیں۔
مولا نے سداگر کو حسب وعدہ موقع پر بھیج دیا تھا۔ سدا گر ریت کے ایک ٹیلے کی اوٹ میں سر اور کانوں کو دھسے میں لپیٹے بیٹھا تھا۔ دیکھنے کے لیے اس نے آنکھوں کے آگے ایک چھوٹا سوراخ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ بھلا ایسی تاریکی میں کیا دکھائی دے سکتا تھا۔ نظر نے تو کچھ کام نہیں کیا۔ البتہ کانوں میں گھوڑوں کے سموں کی ٹپاٹپ اور سانڈھنیوں کے بلبلانے کی آوزیں آئیں تو اس نے چوکنا ہو کر گردن اٹھائی لیکن ڈاکو چشم زدن میں اس کے سر پر تھے۔
اس تاریکی میں چھویوں کی دھیمی دھیمی چمک اور بھی زیادہ خوفناک دکھائی دے رہی تھی۔
آندھی کے شور میں آواز گونجی۔
’’کون؟‘‘
’’سداگر۔‘‘ سداگر ے نے جلدی سے جواب دیا۔ مبادا جواب دینے میں تاخیر ہو اور اس کا سر چھوی کے ایک ہی وار سے کٹ کر الگ جا گرے۔
سداگر کون؟‘‘
اب سداگر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ چلا کر بولا، ’’اوئے میں۔۔۔ میں سداگر ٹھٹے والا۔ کپورا کتھے اے؟‘‘
عین وقت پر کپورے کی گھوڑی مچل کر آگے بڑھی، ’’سداگر۔‘‘
’’ہاؤ کپوریا۔‘‘
’’ائے اپنا ہی منڈا اے۔‘‘ کپورے نے ساتھیوں سے کہا۔ پھر سداگر سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
’’مولا بھی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہ گھر پر ہے۔‘‘
’’باکی سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’سب ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘
اس اثناء میں گرد آلود ہو افراٹے بھرتی رہی۔ گھوڑے اور سانڈھنیاں بے چینی سے رقصاں تھیں۔
نووارد ڈاکوؤں نے چندے آپس میں تبادلہ خیالات کیا اور پھر کپورا سداگر سے بولا۔
’’سداگر، بچو! اب ہمیں رہٹ کی طرف لے چلو۔‘‘
سداگر کچھ کہے بغیر اٹھا اور رہٹ کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ سب اس کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
کپورے نے رہٹ کے قریب پہنچ کر دریافت کیا، ’’سداگر! طویلہ تو کھالی ہے نا۔‘‘
’’ہاؤ بالک کھالی ہے۔‘‘
ایسا نہ ہو کہ کوئی باہر کا آدمی گھسا ہو۔‘‘
’’ارے نہیں۔‘‘
رہٹ پر پہنچ کر وہ گھوڑوں اور سانڈھنیوں سے نیچے اترے۔ جانوروں کو طویلے میں بند کر کے سدا گر کو رکھوالی کے لیے مقرر کیا اور خود سارے سامان سمیت گاؤں کی طرف بڑھے۔
مولا کے مکان کا دروازہ نیم وا تھا۔ اس نے دروازے میں ایٹیں پھنسا کر تختوں کو ایک جگہ جما دیا تھا اور وہ خود لبھو کے ساتھ بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ میلا سنگھ الگ بیٹھا داڑھی کرید رہا تھا۔
انہوں نے دروازے میں سے ڈاکوؤں کے گروہ کو پہچان لیا۔ جب وہ قریب آ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان میں سب کے سب بڑے مضبوط اور ترچھے تلنگے آدمی شامل تھے۔
مولا تہبند جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ’’ساب سلامت!‘‘
’’ساب سلا مت اے جی۔‘‘ دبی دبی ملی جلی آوزیں سنائی دیں۔
مولا بڑھ کر دہلیز تک گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے دروزے کے آگے بھانت بھانت کی صورتیں کھڑی ہیں۔ انہوں نے پگڑیوں کے شملے گھما کر چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ سوائے آنکھوں کے ان کے چہرے کا اور کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بدن سے وہ ننگے تھے۔ ان کے جسم سرسوں کے تیل کی وجہ سے نہ صرف چمک رہے تھے بلکہ تیل کی ہلکی ہلکی بو بھی پھیل رہی تھی۔
مولانے لمبی مونچھوں پر چار انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’آج تاں اللہ دا بڑا پھجل ہے جی۔‘‘
’’ہاؤ۔‘‘
مولاؔ نے کپورے کی ننگی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’آبھا! پانی کا نجی پی لو سنائے۔‘‘
کپورے نے جٹا جھار ناریل کے مانند اپنے سر کو انکار کے طور پر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’نئیں بھؤ! بگت گھٹ اے۔ پانی کا نجی کی بات چھڈ۔‘‘
مولا نے ادھر ادھر دیکھا۔
’’یارو! سواری بنا آ گئے او۔‘‘
’’نئیں گھوڑے ڈاچیاں طبیلے میں چھوڑ آئے ہیں۔‘‘
پربھا! گھوڑے کچھ نجیک رکھو۔ بھاگتے وقت جرورت پڑےگی۔۔۔ اور پھر کپوریا! تمہیں کسی نے بچھان لیا تو آپھت آ جائےگی۔ تو اپنی گھوڑی نجیک رکھنا۔‘‘
کپورے کو مولاؔ کی بات پسند آئی۔ اس نے جھک کر ایک ساتھی کے کان میں کچھ کہا اور وہ ’’ہاؤ۔‘‘ کہہ کر طویلے کی جانب روانہ ہو گیا۔
کپورے نے مولا سے کہا۔
’’مولیا! اب دیر مت کرو۔ بس چلو۔ ایسا موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئےگا۔‘‘
’’بوت ہچھا۔‘‘
مولا نے پھونک مار کر دیا بھا یا تو اس کی لمبی لمبی مونچھیں پھڑکیں۔
اب وہ ایک لمبی قطار کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ لگے لگے بڑھنے لگے۔ گوبر کے ڈھیروں جوہڑ اور اروڑیوں کے قریب سے ہوئے وہ گلی میں گھس گئے۔
آندھی کی وجہ سے بے پناہ شور پیدا ہو رہا تھا۔ ایسے موقع پر کتے بھی تنوروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ایک آدھ نے دبی سی بھوں کی آواز نکالی بھی تو وہ آندھی کے شور میں دب کر رہ گئی۔
ان کی رائفلیں بھری ہوئی تھیں۔ ان سب کے ہتھیار بالکل تیار تھے۔ ہر اہم موڑ پر کپورا ایک آدمی کھڑا کر دیتا۔
مولا کی ابھی تک بگا سنگھ سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ بگا کم گو انسان تھا۔ مولا اس حقیقت سے واقف تھا۔ اس لیے اس نے بھی کوئی بات نہیں کی۔ وہ بگے کے دوش بدوش چلا جا رہا تھا۔ بگا تاڑ کی طرح لمبا تھا۔ اس کی آنکھیں اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھیَ لیکن اس میں وحشی جانور کی سی آنکھوں کی سی چمک اور تجسس تھا ۔ وہی ان سب کا سردار تھا۔
ڈاکو طویل کن کھجورے کی طرح دیواروں سے لگے لگے بڑھ رہے تھے۔
بگے نے مولا سے دریافت کیا۔
’’مکان ہے کہاں؟‘‘
’’گاؤں کے بیچوں بیچ۔‘‘
یہ سن کر بگے کے ابرو پر بل پڑ گیا۔ بگونے دبی آواز میں کہا۔
’’اگر لوگ باگ جاگ پڑے تو اس تاریکی اور آندھی میں گاؤں سے باہر نکلنے کے لیے بہت احتیاط اور ہوشیاری کی ضروت ہے۔‘‘
مولا نے قدرے بے پرواہی سے کہا۔
’’ادئے بھا! تم لوگوں کے سامنے کون ٹکا رہ سکےگا۔ چاہے سو آدمیوں سے مقابلہ کیوں نہ ہو جائے۔‘‘
بگے پر مولا کی اس بڑ کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ گاؤں والوں کا بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ایک گرگ جہاں دیدہ تھا۔ اس وقت سوال مقابلہ کر سکنے یا نہ کر سکنے کا نہیں تھا۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ گروہ کا ہر آدمی بچ کر نکلنا چاہیے ورنہ ایک آدھ بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو سارے گروہ کی آفت آ جائےگی۔ اس قدر آندھی، تاریکی اور شور میں یہ سارا کام بخیر و خوبی انجام پا جانا اس قدر آسان نہیں تھا جتنا کہ مولا کو محسوس ہوتا تھا۔
معاً بگو ایک دم رک گیا اور اس کے پیچھے سب کے سب ڈاکو رک گئے۔
تاریکی میں سامنےسے انہیں ایک تاریک تر سایہ دکھائی دیا۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی آدمی جلد جلد قدم اٹھاتا بڑھا چلا آ رہا ہے۔
وہ سب چشم زدن میں دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے۔
وہ آدمی بدن پر کالی چادر لپیٹے تیزی سے بڑھتا آ رہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ وہ ان کے قریب پہنچ رہا تھا تھا۔
ڈاکو دم سادھے کھڑے تھے۔ اتفاق سے اس دیوار پر ایک چھجا بڑھا ہوا تھا۔ اس لیے وہ مکمل تاریکی میں کھڑے تھے۔
یوں نہج سے قریب کھڑا ہو آدمی بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ تو محض بگو کی متجس آنکھوں نے ہی اجنبی کو آتے دیکھ پایا تھا۔
چند لمحوں بعد وہ اجنبی ان کے قریب سے گزرنے لگا۔ اس غریب کو اس امر کا مطلقاً احساس نہیں تھا کہ وہ ہتھیار بند ڈاکوؤں کی چھولیوں کے سائے تلے سے گزر رہا ہے۔ اگر کہیں اس کے منہ سے چوں کی آواز نکل جاتی تو اس کا سرتن سے جدا ہوتا۔
ڈاکوؤں پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ وہ اس منحنی کے آدمی کے سائے کو اپنے قریب سے گزرتے دیکھ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے وہ ان کی قطاروں سے آگے بڑھ گیا۔ اس کی جانے کے بعد سب نے اطمینان کی سانس لی۔ کیوں کہ وہ اس وقت خون خرابہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اگر کہیں اس کی بہت تیز چیخ نکل جاتی اور اس چیخ کو سن کر گاؤں میں شور مچ جاتا تو انہیں خالی ہاتھ واپس بھاگنا پڑتا۔
گاؤں کے اندر والے چوراہے پر پہنچے تو دیکھا کہ اونچے چبوترے والے بڑے کنویں کی منڈ پر پر پانی نکالنے کی اونچی اونچی چرکھڑیاں سر جھکائے غمناک انداز میں کھڑی ہیں اور ان چرکھڑیوں کے قدموں میں ناہموار پیندوں کے لوہے کے ڈولچے ہوا کے زور سے ہل ہل کر ڈنگا ڈنگ کا شور بلند کر رہے ہیں۔ اور چبوترے کے قریب کھڑے لسوڑیوں کے پیڑ گویا انہیں خشمگیں نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
وہ سب فوراً پیڑوں کے جھنڈ تلے چلے گئے۔ تاکہ آپس میں مشورہ کر لیں۔
کپورے نے چھو چھو کر سب کی تعداد معلوم کی۔ مطمئن ہو کر اس نے کہا۔
’’اس جگہ کم سے کم تین جوان کھڑے رہنے چاہئیں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ ان میں سے ایک نے جو لدھیانہ کے علاقے کا ذرا ہتھ چھٹ جوان تھا، اعتراض کیا۔
کپورے کو اس کا یہ اعتراض پسند نہیں آیا۔ اس نے ابرو پر گہرے بل ڈال کر اس کی جانب دیکھا اور پھر گہری سانس لے کر اس نے اپنے غصے کو دبایا اور اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے لگا۔
اس جگہ سے صرف ایک تنگ گلی آگے کو جاتی ہے جو مکانوں کے اندر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے بھاگ نکلنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔‘‘
’’اوئے آپانوں پتا نہیں اے۔ آپاں نال کون مکابلہ کر سکتا ہے۔‘‘ نوجوان بازو ہوا میں لہرا کر بے پرواہی سے بلند آواز میں کہا۔
’’اب تو کپورے کا جی چاہا کہ اس کی گردن مروڑ کر رکھ دے۔ اس کے یہ تیور دیکھ کر نوجوان بھی بپھرنے لگا۔ نوجوان مضبوط اور جو شیلا ہی سہی۔ لیکن کپورے کے مقابلے میں کھڑا ہونا تو سراسر حماقت تھی اس کی۔
شاید ان کے دو دو ہاتھ ہو بھی جاتے۔ لیکن بگے نے نوجوان کو آنکھ دکھائی تو وہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ پھر بگا کپورے سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘
’’ادھر جو تنگ گلی تم دیکھ رہے ہو، اسی کے اندر ہمیں جانا ہے۔ وہ مکانات جن پر ہماری نظر ہے جھلن کے مانند ہیں۔ ہر آفت سے بچے ہوئے ہیں۔ اول تو وہاں پہنچنے کا کسی ڈاکو کو حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ ہماری یہ پہلی کوشش ہے۔ اگر ہم وہیں کہیں گھر گئے تو عجب مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری خیریت اسی میں ہے کہ ہم یہاں سے سب کے سب صحیح سلامت نکل جائیں۔صرف یہی ایک کھلی جگہ ہے۔ خطرے کے موقع پر ہمارا ایک آدمی فوراً گلی کے اندر آکر ہمیں خبر کر سکتا ہے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اول تو ہمیں مقابلہ کرنا ہی نہ پڑے لیکن ایسا ہو بھی تو یہاں کھلی جگہ میں ہو۔‘‘
بگے نے اثبات میں سر ہلایا۔
کپورے نے پھر کہنا شروع کیا، ’’یہ آندھی ہماری مدد بھی کر سکتی ہے اور ہمارا نکسان بھی کر سکتی ہے۔‘‘ اگر کوئی گڑ بڑ ہو گئی تو اس ہلڑ بازی، آندھی اورا ندھیرے میں ہم اپنے ساتھیوں کی گنتی بھی نہیں کر پائیں گے۔‘‘
بگا کو حرف بہ حرف اس سے اتفاق تھا۔
چنانچہ تین آدمی وہاں پر چھوڑ کر وہ لوگ آگے بڑھے۔
تنگ گلی میں پہنچ کر انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ قبر میں ہوں۔ آندھی اور ہوا کا زور کم تھا۔ البتہ قیامت کا شور کانوں کے پردے پھاڑے ڈالتا تھا۔
دفعتاً بگا ایک دم رک گیا۔ اس کے ساتھ ہی سب کے قدم رک گئے اور وہ اپنی تھوتھنیاں اس کے قریب لے آئے تاکہ اس کی بات سن سکیں۔
بگے نے ساہنسی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’بانس نہیں لائے؟‘‘
’’او، وہ تو بھول گئے۔‘‘
’’واہ اوئے بھؤ۔۔۔ تو کیا اب۔۔۔کے سہارے چڑھوگے چھت پر۔۔۔‘‘
’’بانس کون دور ہے۔ مولا کے گھر ہی سے تو لانا ہے۔ میلو جار تو بھاگ کے جا اور مولو کی ڈیوڑھی کے اندر صحن کے کونے میں ایک لمبا بانس دھرا ہوگا۔۔۔ بس اٹھا کر پھورن با پس آنا۔۔۔‘‘
میلونے تھوتھنی گھمائی اور ناک کی سیدھ میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چل دیا۔
وہ سب آگے بڑھے۔ کچھ دور جا کر گلی بائیں ہاتھ کو گھوم گئی تھی۔ موڑ سے چند قدم آگے داہنے ہاتھ کو ایک ادھورا مکان تھا۔ جس کی بنیادیں بھرنے کے بعد نہ جانے اسے کیوں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب وہاں بڑے بڑے خشک جھاڑ اور منچھٹی (کپاس کی چھڑیاں) کے انبار اگلے مکان کی دیوار کے ساتھ ٹکے ہوئے تھے۔ جب کسی کتیا کو بچے جننے ہوتے تو وہ چیختی کراہتی یہیں آن کر پناہ لیتی۔ ایک کونے میں بھڑ بھوجے کا چولہا تھا جس میں اس وقت ریت بھری تھی۔
وہاں رک کر انہوں نے اس مکان کے پچھواڑے کا جائزہ لیا جس کے اندر انہیں سب سے پہلے داخل ہونا تھا۔
چھت سے پرے بجلی چمک چمک کر آنکھیں دکھا رہی تھی۔ گھنگھور گھٹائیں سیاہ دامن لہراتی بے پناہ دل کی طرح آسمان کی وسعتوں میں پھیلنے لگیں۔ آندھی کے زور میں کمی تو نہ آئی تھی۔ البتہ ہوا میں پہلی سی گرد باقی نہ رہی تھی۔
کپورے کے اشارے پر وہ پھر رک گئے۔ ان کی داڑھیاں پھر ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ اس نے کہا۔
’’سب لوگ یہیں پر رکیں۔ میں بگے کو لے کر مکانوں کو اگلی طرف سے دیکھ لوں جرا۔‘‘
وہ دونوں چند ہی قدم پر پہنچ کر ان سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
ساہنسی نے مکان کی جانب دیکھا اور پھر دل ہی دل میں اندازہ لگانے لگا کہ اس پر بانس کی مدد سے چڑھنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
ؔ
’’بھو! مکان جرا اونچا مالم ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں۔ ہے تو۔‘‘
’’اگر تم بانس کے زور سے پھلانگ کر اس پر نہ چڑھ سکے تو ادھر ادھر سے اوپر جانے کا کوئی راستہ یا سہارا بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ پھر تو آگے والے درواجے سے جانا پڑےگا۔‘‘
ساہنسی چپ چاپ دانتوں تلے مونچھ کا ایک سرا چباتا رہا۔ پھر یوں بولا۔ جیسے اپنے آپ ہی کو مخاطب ہو کر کہہ رہا ہو۔
’’میں آگے بڑھ کر دیوار کے نیچے سے ٹھیک انداج لگا سکتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور دیوار کے قریب پہنچ منچھٹی کے ایک انبار کے عقب میں گم ہو گیا۔ تاریکی کی وجہ سے اندازہ لگانا مشکل سا ہو رہا تھا۔
چند منٹ کے بعد بگا اور کپورا بھی واپس آ گئے۔ بگا بولا۔
’’پہلے تو کپورے کی بہن پر ہاتھ صاف کرنا ہوگا۔ اس کے بعد پڑوس کے چند گھر بھی اچھے ہیں ان پر بھی جلدی سے ہاتھ پھیر دیا جائے۔۔۔ اپنا ساہنسی یار کدھر گیا۔‘‘
’’وہ دیوار کی طرف گیا ہے آتا ہی ہوگا۔ اندھیرے میں اسے بھی کچھ سوجھ نہیں رہا۔‘‘
چند ثانیوں کے بعد ساہنسی آ گیا۔۔۔
اسے دیکھتے ہی بگے نے کہا۔
’’مکان تو اونچا ہے بھؤ۔‘‘
’’ہاں بھا!‘‘ سا ہنسی نے پھر ایک مکان کی جانب نظر ڈالی اور پھر قدرے بے چینی سے ہاتھ ملنے لگا۔ شاید اس کے ہاتھ بانس پکڑنے کے لیے بے قرار ہو رہے تھے۔
’’پھر؟‘‘ بگے نے سوال کیا۔
ساہنسی نے اس کی جانب دیکھے بغیر جواب دیا۔
’’کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
بگے کو اس کے جواب سے اطمینان نہیں ہوا۔ لیکن سردست اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار بھی تو نہ تھا۔
اتنے میں میلو ہاتھ میں لمبا بانس لیے یوں وارد ہوا جیسے بڑے موذی کو جانور کندھے پر لادے لا رہا ہو۔
ساہنسی نے بڑھ کر بانس تھا م لیا۔ پہلے اسے لچکا لچکا کر اس کی مضبوطی کا جائزہ لیا اور راستہ ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھا اور پھر اس نے مکان کی چھت کی جانب نظر دوڑائی۔ مٹیالے آسمان پر کالے بادل گدلے دھبوں کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔
اب ساہنسی نے اپنی کمر کے گرد لمبا رستا لپیٹا اور زمین پر ہاتھ مار کر دو ڈھیلے کمر بند میں ٹھونس لیے اور سر گھما کر دھیمی آواز میں ساتھیوں سے کہا۔
’’اچھا، اب میں کوشش کرتا ہوں۔ چھت پر صحیح و سلامت پہنچ گیا تو یہ دو ڈھیلے تمہاری طرف پھینکوں گا۔‘‘
بعد ازاں اس نے لمبے بانس کو سنبھالا اسے دونوں ہاتھوں میں تولا اور پھر دو چار بار پاؤں کے پنجوں پر ناچ کر تیزی سے بھاگ نکلا۔معاً اس کے قدموں کی آواز بند ہو گئی۔
سب نے اسے پر پھڑپھڑاتے ہوئے بڑے چمگادڑ کی طرح ہوا میں اٹھتے دیکھا۔ قیاس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ چھت پر پہنچ گیا ہے۔
اگر بجلی چمک جاتی تو وہ اسے دیکھ ہی لیتے۔ ورنہ۔۔۔ تڑاخ سے دو ڈھیلے ان کے قریب گرے۔ ایک تو میلو کی ٹانگ پر لگا۔
’’اوئے میا دیا!‘‘ وہ ٹانگ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ لیکن چوٹ بالکل معمولی تھی۔ ڈھیلا کچی مٹی کا تھا۔
اب بگے نے چند آخر ی ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو! اب ہمیں یہ سارا کام جلد سے جلد کھتم کرنا ہے۔ اس گاؤں میں چند اچھے لڑاکا جوان رہتے ہیں جو جان کی باجی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چپ چاپ اور پھرتی سے اپنا الو سیدھا کر کے نو اور دو گیارہ ہو جاتا ہے سمجھے؟‘‘
’’ہاں بھؤ۔‘‘ سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔
کپورے نے میلو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دھیمی آواز میں ہدایت دی کہ وہ سب جوانوں کو لے کے مکان کے دروازے پر پہنچ جائے۔
وہ لوگ ادھر چلے گئے تو کپورا بگے کو ساتھ لیے پچھواڑے والی دیوار کے قریب پہنچا۔ ابھی ان کے قدم رکنے بھی نہ پائے تھے کہ چھت پر سے رسہ لمبے ناگ کی طرح پھنپھناتا اور لہراتا ہوا نیچے گر کر جھولنے لگا۔
باری باری دونوں رسے کی مدد سے چھت پر پہنچ گئے۔
چھت کی منڈیر بہ مشکل چار چھ انگل اونچی ہوگی۔ تیز و تند آندھی کے زور میں انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کے پاؤں اکھڑ جائیں گے اور وہ چشم زدن میں اڑ کر گاؤں کے باہر جاگریں گے۔ اس لیے وہ جھکے جھکے صحن سے آنے والی سیڑھی پر بنی ہوئی مٹی کی جانب بڑھے۔ یہ اور خوشی کی بات تھی کہ مٹی کا دروازہ ابھی کھلا تھا۔ ورنہ انہیں کو د پھاند کر نیچے جانا پڑتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گھر کے لوگ ابھی سوئے نہیں تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ابھی سونے کا کوئی وقت بھی نہیں تھا۔
کپورے کے ہاتھ میں رائفل تھی۔ بگو کے ہاتھ میں چمکتی ہوئی چھوی اور ساہنسی حسب معمول لمبا سا چھرا تھامے تھا۔
انہوں نے ایک بار پھر اپنے اپنے چہروں کو پگڑیوں کے شملوں میں چھپایا۔ صرف آنکھوں اور ابروؤں کو ننگا چھوڑ دیا اور پھر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگے۔
وہ کافی نیچے جا چکے تھے کہ دفعتاً موڑ سے ٹمٹماتی ہوئی روشنی دکھائی دی۔ وہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی شخص ہاتھ میں لال ٹین یا چراغ لیے سیڑھیوں پر چڑھتا چلا آ رہا ہے۔۔۔وہ ٹھٹھک کر رک گئے۔ روشنی پھیلتی جا رہی تھی۔
ابھی وہ کچھ طے بھی نہ کر پائے تھے کہ چراغ کے پیچھے دوزنانہ پاؤں دکھائی دیے اور ان کی آنکھیں ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکی کی آنکھوں سے ملیں جو چراغ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے حلقے میں لیے ہوئے تھی۔ تاکہ وہ بجھ نہ جائے۔
انہیں دیکھتے ہی لڑکی کا رنگ فق پڑ گیا۔ اس نے یہ بڑی زبان باہر نکال کر حلق سے ایک دلدوز چیخ نکالنے کی کوشش کی، لیکن مارے خوف کے اس کی قوت گویائی سلب ہو گئی۔ مٹی کا چراغ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔
بگے نے پھرتی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔ وہ بےہوش ہو گئی۔ انہوں نے اس کے منہ میں اسی کی چندری ٹھونس ٹھانس کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر وہیں کونے میں ڈال دیا۔
صحن میں پہنچے تو دیکھا ایک جانب ڈیوڑھی ہے اور دوسری جانب مکان کا پسار ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ جس دروزے سے نکل کر لڑکی آئی تھی، اس کا کنڈا اس نے باہر سے چڑھا دیا تھا تاکہ ہوا کی تیزی کے باعث دروازہ نہ کھولے۔ اندر روشنی ہو رہی تھی اور اندر گھروالوں کی باتیں کرنے کی آوزیں سنائی دے رہی تھیں۔
بگا اور ساہنسی دروزے کے دونوں جانب اپنے اپنے ہتھیار سنبھال کر کھڑے ہو گئے اور کپورا باقی ساتھیوں کے لیے گلی کا دروازہ کھولنے کو ڈیوڑھی کی جانب بڑھا۔ ڈیوڑھی میں مویشی بندھے تھے۔ ایک بیل تو اسے اتنا پسند آیا کہ بےاختیار جی چاہا کہ اسے بھی وہ اپنے ہمراہ لیتا جائے۔ لیکن اس رات یہ قطعاً ممکن نہیں تھا۔ ڈیوڑھی کا دروازہ کھول کر اس نے گلی میں جھانکا تو کچھ نظر نہ آیا۔ چنانچہ اس نے بیل ہانکنے کے انداز میں ٹٹو ٹٹو کر کے دو تین آوازیں نکالیں تو متعدد سائے اس کی جانب بڑھے۔ جیسے کالی دیواروں نے انہیں جنم دے دیا ہو۔
کپورے نے ایک جوان کو بندوق سمیت گھر کے پچھواڑے منچھٹی کے انباروں کے پاس کھڑے رہنے کے لیے بھیج دیا اور باقی لوگوں کو اندر لے آیا۔
دو گھڑی بعد وہ سب لوگ دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔
بگو نے چھوی بڑھائی اور دروازے کے کنڈے میں اڑس کر ٹہوکا جو دیا تو کنڈا بڑی آواز سے کھل کر گرا اور تڑا تڑ بجنے لگا۔۔۔ دروازے کے دونوں تختے زور زور سے پنکھا جھلنے لگے۔
گھر کے لوگ سمجھے کہ لڑکی ممٹی کا دروازہ بند کر کے لوٹی ہے۔ وہ کچھ دیر تک اس کے اندر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب کوئی صورت دکھائی نہیں دی تو ایک مرد جلدی سے باہر نکل آیا۔ پہلے وہ دروازے کے دونوں جانب کھڑے ہوئے بگو اور ساہنسی کو نہیں دیکھ پایا۔ جب اس نے لڑکی کو صحن میں نہ پاکر گردن گھمائی تو بگو اور ساہنسی کی صورتیں دکھائی دیں۔ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘
اسی اثنا میں باقی آدمی بھی ڈیوڑھی میں گھس آئے اور دروازے میں سے ان کی خبیث صورتیں دکھائی دینے لگیں۔ وہ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ پیچھے سے کپورے نے اس کی گدی پر الٹے ہاتھ کا ایسا دھپ دیا کہ وہ لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑا۔
یہ سب کچھ چند ثانیوں میں ہو گیا۔ وہ سب فوراً مکان کے اندر داخل ہو گئے۔ لالٹین کی روشنی میں ان کے ہتھیار جگمگا اٹھے۔ جان کے خوف سے گھر کے کسی فرد نے شور نہیں مچایا۔ اس کا بھی وہی علاج کیا گیا جو پہلی لڑکی کا کیا گیا تھا۔
کپورا ذرا چھپا چھپا ہی رہا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ لے۔ وہ بگے کو اندر والے کمروں میں لے گیا اور ان کی طرف اشارہ کیا۔ دم کے دم سب کچھ سمیٹ لیا گیا۔ پھر وہ سب صحن میں آ گئے— بگونے ایک نظر
میں ساتھیوں کی تعداد جانچ لی اور پھر وہ دو حصوں میں بٹ کر پڑوس کے مکانوں کی جانب بڑھے۔ جن کے صحن ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔
اتنے میں باہر سے گولی چلنے کی آواز سنائی دی ان کے قدم رک گئے۔ پھر دھڑا دھڑ دو گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے ساتھ آندھی کے شور میں مردوں کے للکارنے کی صدائیں بلند ہوئیں۔
موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے وہ باہر کی جانب بھاگے۔
جس نوخیز نشانہ باز جوان کی کپورے نے بندوق سمیت مکان کے پچھواڑے ڈیوٹی لگائی تھی اس نے ہڑبڑاہٹ میں یہ گولیاں چلا دی تھیں۔ ہوا یہ کہ آندھی کے زور سے منچھٹی اور جھاڑ کے انبار حرکت میں آ گئے اور لڑھکتے ہوئے اس کی جانب بڑھے اور اس نے گھبراہٹ میں نہ جانے کیا سمجھ کر پے در پے تین گولیاں چلا دیں۔
اسی اثنا میں گاؤں کے مختلف حصوں سے خطرے کی صدائیں بلند ہوئیں۔ چوکھڑیوں والے کنویں کی جانب سے ایلی ایلی کی آوازیں آنے لگیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے ساتھی انہیں خطرے سے آگاہ کر رہے۔
اب انہوں نے میلو کو آگے لگایا اور سرپٹ بھاگے۔
چرکھڑیوں والے کنویں تک پہنچے تو وہاں اندھا دھند لاٹھیاں چل رہی تھیں۔ گاؤں کے من چلے بھی جلدی میں جیسا ہتھیار ملا، لے کر مقابلے پر آن ڈٹے تھے۔ لیکن تاریکی اور آندھی نے انہیں کچھ کرنے نہ دیا۔
ادھر بگو کے سدھائے ہوئے ساتھی گاؤں والوں کے کندھوں سے کندھے بھڑاتے ہوئے نہایت صفائی سے ادھر ادھر منتشر ہو کر صحیح سلامت گاؤں سے نکل گئے۔
اتنے میں کپورے کو اپنی کالی گھوڑی دکھائی دی۔ وہ فوراً پھلانگ کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔
اس کا خیال تھا کہ جب وہ اپنی منہ زور گھوڑی کو ایڑ دےگا تو وہ گاؤں کے ہجوم کو کائی کی طرح چیرتی ہوئی نکل جائے گیا۔ لیکن عین اس وقت بجلی چمکی تو گاؤں والوں میں بعض نے اسے پہچان لیا اور آندھی کے بھیا نک شور میں ‘‘کالا تیتر۔ کالا تیتر‘‘ کی وحشیانہ آوازیں گھل مل گئیں۔ ایڑ دیے جانے پر گھوڑی سمٹ کر جو اچھلی تو گاؤں کے منچلے جوان نے اس کی لگام پر جھپٹا مارا۔ اس پر گھوڑی ہنہنا کر پچھلے پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔ اس کی انکھڑیاں پھٹ گئیں۔ کان پھڑ پھڑائے اور ایال لہرائی۔ سوار نے ہونٹ کاٹ کر اپنے لمبے دستے والی کلہاڑی اوپر اٹھائی۔ لیکن گھوڑی کے اگلے پاؤں زمین پر لگنے بھی نہ پائے تھے کہ چھوئی چمکی اور کپورے کے پیٹ کی آنتیں ادھیڑتی ہوئی انہیں پیٹ سے باہر لے آئی۔
وہ بڑے مگرمچھ کی طرح بل کھا کر اوندھے منہ زمین پر گرا۔ پیٹ سے خون کا فوارہ چھوٹا اور لمحہ بھر میں زمین اس کے گاڑھے خون سے سرخ ہو گئی۔۔۔
پھر بارش کی موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.