Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رکی ہوئی گھڑی

صدیق عالم

رکی ہوئی گھڑی

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ ٹائم فریم توڑنے اور انسانی محرکات کو ختم کرنے کی کہانی ہے۔ اس کی ٹرین کی آمدکے مقررہ وقت کو گھنٹوں گذر چکے تھے مگر وہ گاڑی آ رہی تھی نہ ہی اس کا اعلان ہو رہا تھا۔ وہ اکتایا اکتایا سا ایک سائبان سے لٹکتی بند گھڑی کے نیچے بنچ پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک قلی نےاسے بتایا کہ اس کی ٹرین کا تعلق ایک قصہ سے ہے جس کا پتہ صرف سگنل مین کو ہے۔ جب تک وہ یہ قصہ سن نہیں لیتا اس کی ٹرین آ نہیں سکتی۔ قلی ایک دوسرے مسافر کا بھی ذکر کرتا ہے جس نے اس قصے کو سننے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کبھی اپنی منزل تک پہنچا ہی نہیں۔

    گھڑی کی سوئیاں دو بج کر تیرا منٹ اور دو سکنڈ پر دائمی طور پر رک گئی ہیں۔میں بینچ پر بیٹھا شیڈ سے لٹکتے بیضوی ڈائل کو سمجھنے کی کوشش کرہا ہوں جس کے رومن ہندسے دھندلے پڑ گئے ہیں اور اس کے نچلے حصے پر مکڑی نے جالا بن رکھاہے۔ میں سوچ رہا ہوں، یہ گھڑی جانے کب سے رکی پڑی ہے جب کہ میں پینتیس برس کا ہو چکا ہوں! کیا بظاہر ہم دونوں میں کوئی فرق ہے؟ دیکھا جائے تو میں بھی اس گھڑی کی طرح ایک محدود وقت کے لئے رک گیا ہوں کیونکہ میری ٹرین کی آمد کا کوئی اعلان ہو ہی نہیں رہا ہے جب کہ اس کی روانگی کا وقت چار گھنٹہ پہلے جا چکا۔

    میں اپنی دونوں آنکھوں کو بھر مقدور کھول کر چاروں طرف نظریں دوڑاتا ہوں۔

    ایک عام سا دن اور ایک عام سا اسٹیشن جسے ہم ساری زندگی دیکھتے آئے ہیں۔

    میں نے اپنے پیدائشی شہر کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا ہے۔ میں اس شہر سے ناکام جا رہا ہوں۔ مگر اب جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اس نے مجھے پوری طرح رد کر نے کے بعد اچانک اپنے کسی احساسِ جرم کے تحت مجھے پھر سے واپس اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لئے اس نے پہلے قدم کے طور پر میری ٹرین کو غیرمعینہ مدت کے لئے التوا میں ڈال دیا ہے۔

    ایک اسٹیشن شہر کے بیچوں بیچ رہ کر بھی اس سے پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور اپنی جیب میں ون وے ٹکٹ ڈالے میں اس آزادی کا بھرپور مزا لوٹ رہا ہوں۔ تھوڑا سا انتظار، میں خود سے کہتا ہوں اور میں یہاں سے کافی دور جا چکا ہوں گا۔ کوئی مجھے نہیں روک سکتا، نہ ٹرین کے راستے میں روڑے ڈال کر نہ گھڑی بند کر کے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں ایک ہارا ہوا انسان ہوں مگر ابھی میری زندگی کا سفر ختم نہیں ہوا اور ابھی تو میں صرف پینتیس سال کا ہوں، مجھے اس جگہ سے کافی دور جانا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ میری جیب میں جوٹھکانہ موجود ہے وہ میری آخری منزل نہیں، ایک عارضی پڑاؤ ہے، جہاں سے میں کسی بھی دن پھر سے ایک نئی شروعات کر سکتا ہوں۔ آخر، انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور زمین پر روشنی ڈالنے کے لئے سورج صرف ایک جگہ کا انتخاب نہیں کرتا، نہ ہی ساحل پرآنے والی ہر موج آخری ہوتی ہے کہ اسے کھو کر ملاح اپنی ناؤ کے ساتھ سمندر کے کنارے تا عمر اکیلا کھڑا رہ جائے۔

    ایک بوڑھا قلی ہتھیلی پر کھینی گھستا ہوا میرے سامنے سے گذرتا ہے۔ وہ سفید بنیان اور سفید دھوتی پہنے ہوئے ہے اور اس نے اپنی فلالین کی سرخ قمیض بائیں کندھے پر ڈال رکھی ہے۔ یہ گھڑی کب سے بند ہے؟ میری آواز اس کے پیروں میں زنجیر ڈال دیتی ہے۔وہ سر موڑ کر اپنی تھکی ہوئی دانشمند آنکھوں سے میری طرف دیکھتا ہے۔ مجھے ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ایک ان پڑھ قلی ہی تو ہے نہ کہ اسٹیشن کا کوئی عملہ جو ان چیزوں کے لئے جواب دہ ہو۔ معاف کرنا، میں اپنا جملہ مکمل کرتا ہوں، یہ مجھے تم سے پوچھنا نہیں چاہئے تھا۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

    اور وہ کیوں حضور؟ وہ بینچ کے سامنے ٹھہر گیا ہے اور اپنائیت سے میری طرف دیکھ رہا ہے۔ آخر لوگ ایک بند گھڑی کے بارے میں سوال تو اٹھائیں گے ہی نا؟ اور شریمان اس میں ان کا قصور کیا ہے؟ اس گھڑی کے رکنے کا قصہ چار دانگ مشہور ہے مگر اسے سنانے کی اجازت صرف سگنل مین گوچرن رائے کو ہے جو ساری زندگی ٹرینوں کو ہری اور سرخ جھنڈی دکھاتا رہا اور آج ہی ریٹائر ہوا ہے۔

    اور اس کی جگہ کون آیا ہے؟ میں پوچھ بیٹھتا ہوں اور مجھے فوراً اپنی بےوقوفی کا احساس ہوتا ہے۔ آہ، میں سوچتا ہوں، اپنی ان ہی بیوقوفیوں کے سبب میں ہمیشہ غیرضروری باتوں میں الجھ کر رہ جاتا ہوں۔ یہ آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ لیجئے نا، قلی جاتے جاتے کہتا ہے اور یہ قصہ ایسا نہیں کہ آپ اسے یوں ہی جانے دیں کیونکہ میں آپ کو بتا دوں اگر آپ نے ایسا ہونے دیا تو آپ کو ساری عمر اس کا پچھتاوا رہےگا!

    میں اس عجیب صورت حال کے لئے تیار نہیں تھا۔ میں سمجھ رہا تھا اس شہر سے میرا ربط ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ چکا ہے۔ مگر اب اس اسٹیشن کا کیا کیا کیا جائے جس نے ایک عجیب ڈھنگ سے مجھے نظر انداز کر دیا ہے جیسے میری جیب میں پڑے ہوئے ٹکٹ کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ میں ایک بار پھر شیڈ سے لٹکتے ڈائل کی طرف دیکھتا ہوں۔ دو بجکر تیرا منٹ دو سکنڈ! کیا ہوا تھا اس وقت جب اس گھڑی نے کام کرنا بند کیا تھا؟ کیا اس اسٹیشن میں کوئی حادثہ پیش آیا تھا؟ کوئی قتل کی واردات ہوئی تھی؟ کسی بڑے لیڈر کی روانگی ہوئی تھی یا وہ کسی بڑے سفر سے لوٹا تھا؟ کیا نکسلیوں نے کوئی بڑا نر سنگھار کیا تھا؟ یا یہاں پر کسی بڑے فرقہ وارانہ فساد کی شروعات ہوئی تھی؟

    اور یاد رکھئےگا، قلی ایک بار پھر واپس لوٹ آیا تھا۔ اس بار اس نے اپنی قمیض پہن لی تھی۔ جب تک آپ یہ قصہ سن نہیں لیتے آپ کی ٹرین آ نہیں سکتی۔ اس جگہ کا یہی دستور ہے۔ کئی ہفتے گذر جائیں گے، مہینوں بیت جائیں گے، ہو سکتا ہے کئی سال تک آپ کو اسی طرح اپنا سوٹ کیس اٹھائے ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم تک گھومتے رہنا پڑے اور یہ کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مسافر اور بھی تھا جو ٹرین بدلنے کے لئے یہاں اترا تھا۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔ شروع میں اس نے آپ ہی کی طرح اس گھڑی کے سلسلے میں اپنے تجسس کا اظہار تو کیا مگر پھر جانے کیا ہوا کہ اس نے قصہ سننے سے انکار کر دیا۔ آپ کو پتہ ہے اس کا کیا حشر ہوا؟

    ارے میں یہ کیسے جان سکتا ہوں، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ اس شہر نے مجھے کبھی فرصت ہی نہیں دی کہ قصے کہانیوں کے لئے اپنے کان کھولوں۔

    آپ خوامخواہ چڑ رہے ہیں حضور۔ میں بتارہا ہوں نا۔سچ کہا جائے تو اس سلسلے میں صحیح بات کا پتہ کسی کو نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسٹیشن سے نکل کر شہر کے اندر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹا اور کچھ کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسری ٹرین میں سوار ہو گیا تھا مگر وہ ٹرین کبھی اپنی منزل تک پہنچی ہی نہیں۔ کچھ ایسے قصہ گو آپ کو ملیں گے جو اس بات کے حق میں دلیل دیں گے کہ ایک طوائف جو پلیٹ فارم پر اپنا دھندا کیا کرتی تھی اسے بہکا کر ریل کی پٹری کے کنارے اپنی جھونپڑی میں لے گئی جہاں اسے کوڑھ کی بیماری ہوگئی اور آج وہ ٹاٹ کی بنی اس جھونپڑی میں تل تل مر رہا ہے۔ مگر آپ چاہیں تو ایسے بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نکل آئےگی جو اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ آج بھی اپنا سوٹ کیس اٹھائے اس اسٹیشن میں ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر بھٹک رہا ہے، گرچہ مسافروں کی بھیڑ میں اسے پہچان پانا مشکل ہے۔

    جس کا یہ مطلب ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ میں بھی ؟

    کیا میں نے ایسا کچھ کہا؟ قلی جاتے ہوئے کہتا ہے۔ حضور، آپ تولگتا ہے کریلے کھا کر بیٹھے ہوئے ہیں!

    میں بھوچکا سا قلی کی پشت کو دیکھ رہا ہوں جس پر پڑی فلالین کی قمیض کے ریشے متواتر استعمال کے سبب نہ صرف باہر نکل آئے ہیں بلکہ خود کپڑا اس قدر ملائم ہو گیا ہے کہ اس سے اس کی ہنسلی کی ہڈی کے ابھار صاف نظر آ رہے ہیں۔ مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ جب سے سوٹ کیسوں کو پہئے مل گئے ہیں، قلیوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ رہی سہی کسر بیک پیک نے پوری کر دی ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں آ چکے ہیں جب ہر دوسرا آدمی یا تو سوٹ کیس کو اس کے پہیوں پر کھینچتا نظر آتا ہے یا اپنی پیٹھ پر بیک پیک لادے چلا جا رہا ہے۔ شاید ان قلیوں کے پاس کام برائے نام رہ گیا ہو اور یہ ان کا وقت گذارنے کا کوئی نیا طریقہ ہو۔ مگر اس جگہ اکیلا اپنے سوٹ کیس کے ساتھ بیٹھا ہوا میں یہ کیوں سوچ رہا ہوں کہ میری ٹرین کے نہ آنے کا واقعہ کسی خاص اہمیت کا حامل ہے جب کہ انسانی آمد و رفت کے سلسلے میں ایک ٹرین کے نہ آنے کی کہانی کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوتا جب تک وہ ٹرین بھاپ اور دھواں چھوڑتی ہوئی اپنے پیشاب پاخانوں کی بدبو کے ساتھ پوری طرح آ نہ چکی ہو؟

    تو میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر سوچتا ہوں، اب جب کہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہو چکا ہے اور میری اکیلی جان اس معاملے میں اس بری طرح الجھی ہوئی ہے تو میرے پاس اس کے علاوہ راستہ ہی کیا رہ گیا ہے کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے اپنی ٹرین کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کروں؟ آخر اس آدمی کا کام کیا ہے جو ہر وقت اپنے دفتر میں اس طرح مصروف نظر آتا ہے جیسے اس نے تھوڑی سی غفلت کی اور پٹریوں پر دوڑتی ہوئی ساری ٹرینیں آپس میں ٹکرا جائیں گی ،یہاں تک کہ وہ ٹرینیں بھی جو ابھی تک کارخانے سے بن کر نکلی نہ ہوں!

    اسٹیشن ماسٹر کا دفتر، جس کی موٹی دیواروں کو دیکھ کر صاف لگ رہا تھا اس کی تعمیر انگریزوں کے زمانے میں کی گئی ہوگی، پلیٹ فارم سے تین قدم نیچے واقع تھا اور اس کا چھپر کھپریل کا تھا۔ اس کے برامدے کی دیوار سے ایک بلیک بورڈ لٹک رہا تھا جس پر چاک سے ٹرینوں کے نام اور نمبر لکھے ہوئے تھے جن کے آنے کا وقت ہو چکا تھا یا جو مقررہ وقت کے مقابلے دیر سے چل رہی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر ٹرینوں کا وقت گذر چکا تھا مگر وہ مٹائے نہیں گئے تھے اور کئی ٹرینوں کے دیر سے آنے کا وقت چاک سے بار بار تبدیل کیا گیا تھا۔ ڈسٹر کے متواتر استعمال کے سبب بلیک بورڈ پر ایک دھند سی چھائی ہوئی تھی جیسے الفاظ کہرے میں تیر رہے ہوں۔ انھیں اوپر سے نیچے تک کئی بار پڑھنے پر بھی مجھے اپنی ٹرین کا نام اور نمبر کہیں نظر نہ آیا جب کہ یہ تیسری دفعہ ہے کہ میں اس جگہ آیا ہوں۔ کیا میری ٹرین اپنے نمبر اور وقت کے ساتھ چاک کے پوڈر کا حصہ بن چکی تھی؟ مگر اس بار میرا اراداہ بلیک بورڈ کو دیکھ کر واپس لوٹنے کا نہیں تھا۔ سچ کہا جائے تو میری صبر کا بند ٹوٹ چکا تھا۔

    اندر آفس میں تین کلرک الگ الگ میزوں پر بیٹھے رجسٹروں کی خانہ پری میں مصروف تھے۔ ان کے چہروں پر وہ اکتاہٹ دیکھی جا سکتی تھی جو ہمیشہ سرکاری دفتروں میں کام کرنے والوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے اجتماعی طور پر اپنا سر موڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر اجتماعی طور پر اپنے کام میں مصروف ہو گئے جیسے وہ تمام سر ایک ہی دھڑ پر لگے ہوئے ہوں۔ شاید انھیں میرے جیسے پریشان حال مسافروں کو دیکھتے رہنے کی عادت ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس پر ایک دبیز پردا جھول رہا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر ایک ادھیڑ عمر کا سانولے رنگ کا آدمی ہے جو ایک بھاری فریم والی عینک ناک پر چڑھائے ایک نیلے رنگ کی میز پر ان گنت ٹیلی فون کے بیچ ایک رسیور سے کان لگائے بیٹھاہے۔ اس کی پشت اور داہنی طرف کی دیوار چارٹ اور نقشوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔بائیں دیوار پر ایک بڑاسا روشن دان چھت سے لگا ہوا ہے جس کا آدھا کھلا ہوا شیشہ برسوں سے صاف نہیں کیا گیا ہے۔ میری آہٹ پر بات کرتے کرتے وہ رک جاتا ہے اور رسیور کے ماؤتھ پیس کو ہات سے ڈھک کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔

    وہ پلیٹ فارم کی گھڑی کس دن بند ہوئی؟ میں دریافت کرتا ہوں اور مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ میرا لا شعور میرے ساتھ آج کس قسم کا کھیل کھیل رہا ہے؟معاف کیجئے، میں اپنی ٹرین کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ میں پچھلے سات گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں اس کا۔ آپ بتا سکتے ہیں وہ کب آئےگی؟میں اپنی ٹرین کا نمبر اور نام بتاتا ہوں۔وہ تو جابھی چکی، اسٹیشن ماسٹر فون کریڈل پر ڈالتے ہوئے کہتاہے۔ آپ کا مطلب ہے پلیٹ فارم سے؟۔۔۔کب؟۔۔۔میں نے تو اعلان نہیں سنا۔۔۔ مجھے اپنے پیروں کے نیچے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔ آپ نے پلیٹ فارم کی گھڑی پر وقت نہیں دیکھا؟ اسٹیشن ماسٹر میری طرف تحیر سے دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ تو بند پڑی ہے۔ہاں، وہ یقیناًبند ہے، مگر یہ آپ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے ہیں۔ وہ تو اسی وقت سے بند پڑی ہے جب آپ کی گاڑی گذری۔

    اسی وقت میز پر رکھا ایک ٹیلیفون بج اٹھتا ہے اور وہ رسیور اٹھاکر اَپ یا ڈاؤن لائن پر کسی اسٹیشن سے بات کرنے لگتا ہے اور میں یہ اس لئے سمجھ پا رہا ہوں کیونکہ اس کے جملے ان ہی دونوں الفاظ کے گرد گھوم رہے ہیں۔میں سوٹ کیس فرش پر رکھ کر ملاقاتیوں کے لئے مخصوص ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں اور اچانک مجھے شدید تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ میرے دونوں کندھے شل ہو گئے ہیں۔ میرا جسم منوں بھاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی بھی پل کرسی کے اندر دھنس جاؤں گا۔ آہ، میں سوچتا ہوں، اب میرے پاس کرنے کے لئے کیا رہ گیا ہے؟ یہاں تو ہر آدمی قصے کہانیوں کی بات کر رہا ہے۔ آخر وہ قصہ ہے کیا؟

    اسٹیشن ماسٹر کافی دیر تک رسیور میں ڈوبا رہتا ہے۔ رسیور کو کان سے تھوڑے فاصلے پر رکھ کر وہ دیوار پر لگی چارٹ پرپنسل سے کئی جگہ نشانات لگاتا ہے، کئی ٹیلیفون کی گھنٹیاں نظر انداز کرتا ہے، کئی بار ایک ٹیلیفون پر رابطہ کاٹے بغیر دوسرے ٹیلیفون پر گفتگو کا سلسلہ قائم کرتا ہے، کئی ٹیلیفون کے رسیور کو جو ایسا لگ رہا تھا جیسے رہ رہ کر شرارت سے بج رہے ہوں، واپس کریڈل پر پٹخ کر ان کا سلسلہ منقطع کرتا ہے، میز کی درازیں کھینچ کر چھوٹے بڑے رجسٹر نکالتا ہے اور ان کے مخصوص صفحوں کا جائزہ لیتا ہے اور جب کہ وہ اس طرح اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہے جو بظاہر اپنے فرض کے تئیں اس کی ایمانداری کا مظہر تو ہے مگر جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ دراصل یہ اس کا مجھ سے پیچھا چھڑانے کا کوئی آزمودہ حربہ ہے جسے اپنی نوکری کے دوران سالہا سال کے تجربوں سے اس نے حاصل کیا ہوگا۔ تو اس طرح دھیرے دھیرے وقت گذر تا ہے۔ مگر اب مجھے محسوس ہونے لگا ہے جیسے میں سرے سے وہاں موجود ہی نہ تھا۔ شاید میں ایک کیڑا تھا جس پر غلطی سے انسان کی نظر پڑ جائے اور پھر وہ اپنی نظر ہٹالے۔

    ہیلو! آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور میں کھڑے ہو کر اپنا داہنا مکا ریکسن سے ڈھکی ہوئی میز پر اتنے زور سے مارتا ہوں کہ اس پر رکھے ہوئے ٹیلیفون، قلمدان، پانی کی بوتل، گلاس، پیپر کیلنڈر اور پیپڑ ویٹس اچھل پڑتے ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر رسیور کریڈل پرڈال کر اپنی پیٹھ کرسی کی پشت سے ٹکا لیتا ہے اور دونوں ہات کرسی کے ہتھوں پر پھیلاکر کسی سہمے ہوئے انسان کی طرح میری طرف بڑی بڑی رقیق آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اس کا کیا مطلب تھا جناب؟ وہ اپنی بھنبھناتی آواز سے کہتا ہے جیسے اس کے اندر سے کوئی دوسرا انسان بول رہا ہو۔ اس کی بھویں عینک کے اوپر کمان کی طرح تنی ہوئی ہیں۔ مگر جانے اس وقت میری آنکھوں میں کون سا طوفان بھرا پڑا تھا کہ اس کے نفسیاتی دباؤ سے وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے اور اس کی بھویں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔آپ چاہتے کیا ہیں؟ اس کی بھنبھناتی آواز دوبارا ابھرتی ہے، کیامیں پولس کو بلاؤں؟

    بالکل، آپ پولس کو بلا سکتے ہیں، میں اعلانیہ طور پر مبازرت طلب نظرو ں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ مگر جب یہ ٹکٹ میرے ہات میں ہے تو مجھے یہ جاننے کا حق تو ہے کہ میری ٹرین کا کیا ہوا؟میں نے آپ کو بتایا نا، وہ ٹرین جا چکی، اسٹیشن ماسٹر کی آواز اس کے حلق میں لوٹ آئی ہے۔ آپ کسی دوسری ٹرین کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ میں کیوں سوچوں؟ کیا یہ میرا قصور ہے اور اگر وہ گھڑی بند پڑی ہے تو آپ یہاں کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں؟ اس کی مرمت کیوں نہیں کرواتے؟ میرا مطلب ہے کیا اس سے مسافروں کو غلط پیغام نہیں پہنچتا؟وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں سرکاری چیزوں پر لوگوں کا ایمان خدا سے بھی زیادہ پختہ ہواور وہ سرکاری نمائندوں کے سامنے اپنی دمیں ٹانگوں کے بیچ دبائے ڈرے سہمے کھڑے رہنے کے عادی ہو چکے ہوں۔ میرے چپ ہو جانے کے بعد اسٹیشن ماسٹر دیر تک خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہتا ہے جیسے اس کی زبان پر تالا پڑ گیا ہو۔ شاید وہ میرے جیسے لوگوں کا سامنا کرنے کا عادی نہ تھا۔ آخرکار اس کی خٰاموشی سے تنگ آکر میں اپنے سوٹ کیس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں جسے میں نے فرش پر رکھ دیا تھا۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ سے بات کرنا فضول ہے، میں کہتا ہوں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ میں کسی دیوار سے بات کر رہا ہوتا۔ اچانک اسٹیشن ماسٹر کے جسم میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہے اور اس نے اپنا ہات میری طرف مصافحہ کے لئے بڑھادیا ہے۔ آپ کافی پریشان لگ رہے ہیں، وہ اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ میں آپ کی مصیبت سمجھ سکتا ہوں۔ اگر گوچرن رائے ہوتا تو وہ آپ کی مدد کرتا۔ اس معاملے میں وہی آپ کے لئے صحیح آدمی ہے۔ مگر افسوس آج ہی وہ ریٹائر ہوا ہے اور سامان باندھنے اپنا کوارٹر چلا گیا ہے۔ میں اس کے بڑھے ہوئے ہات کی طرف ایک ٹک دیکھتا ہوں اور۔۔۔یہ ہر کوئی کسی گوچرن رائے کا نام کیوں لے رہا ہے؟ اسے نہ قبول کرتے ہوئے کہتا ہوں۔ میں کسی گو چرن رائے کا احسان کیوں لوں؟ اپنی اضطرابی کیفیت میں میں سوٹ کیس کے ہینڈل کو انگلیوں سے تھام کر دونوں طرف دھیمے دھیمے پٹخ رہا تھا۔ میں ایک ٹرین کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں اور آپ ہیں کہ مجھے اپنے سگنل مین کے حوالے کر رہے ہیں وہ بھی جب وہ آپ کا ماتحت نہیں رہا، ریٹائر ہو چکا ہے۔

    مجھے دروازے پر آہٹ سنائی دیتی ہے۔ یہ دو لمبے قد کے وردی پوش جوان ہیں جو پردہ اٹھائے میری طرف تاک رہے ہیں۔ ایک کا چہرا لمبوترا ہے جو کیلوں اور مہاسوں سے ڈھکاا ہوا ہے۔ دوسرے کے پاس کوئی چہرا نہیں ہے۔ دونوں کی ٹوپیوں پر لگے پیتل کے بلے کمرے کی تیز روشنی میں تمما رہے ہیں۔

    نہیں جادب، یہاں سب کچھ ٹھیک ہے، اسٹیشن ماسٹر انھیں ٹالنے کا اشارا کرتا ہے اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر رومال سے چہرا صاف کرنے لگتا ہے۔ایک پل کے لئے وہ خاموش رہتا ہے، پھر دونوں کو اپنی جگہ سے ٹلتے نہ دیکھ کر اپنا صبر کھو بیٹھتا ہے۔ میں نے کہا نا،میں انھیں سنبھال لوں گا۔ یہ ٹرین چھوٹ جانے سے تھوڑے دکھی ہیں۔

    پردہ برابر ہو چکا ہے۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ چپ بیٹھے ہوئے ہیں۔بہت ہی پراسرار طور پر اس وقت سارے ٹیلیفون خاموش ہو گئے ہیں اور کمرے میں ایک ایسی خاموشی چھا گئی ہے کہ کھڑکی سے باہر کھڑے درخت کے پتوں کی سر سراہٹ صاف سنائی پڑ رہی ہے۔ یہ سارا معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا میں کسی بڑی سازش کا حصہ بن چکا ہوں جس کی تہہ تک پہنچنا میرے بس کی بات نہیں؟ میں محسوس کرتا ہوں یہ خاموشی میرے لئے نا قابل برداشت ہو گئی ہے۔ تومیں اٹھ کھڑا ہواتا ہوں اور جھک کر اپنا سوٹ کیس اٹھاتے ہوئے بڑبڑاتا ہوں، عجیب اسٹیشن ہے، یہاں پر ایک گھڑی بند ملتی ہے اور ایک ٹرین آئے بغیر گذر جاتی ہے اور ان سارے گورکھ دھندوں کے بیچ ایک سگنل مین آ جاتا ہے جو ریٹائر ہو چکا ہے اور اس کا ایک عجیب و غریب نام ہے اور ایک عجیب و غریب کہانی ہے جسے وہ برسوں سے لوگوں کو سناتا آ رہا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کہانی کو کوئی نہیں جانتا، نہ اس کا کوئی سر پیر ہے نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ تو میرے لئے کیا بچتاہے سوائے اس کے کہ اس اسٹیشن کے کھمبوں اور دیواروں سے سر ٹکراتا پھروں؟

    میرا مشورہ مانیں تو آپ اپنے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیں، اسٹیشن ماسٹر ایک بار پھر اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ اپنی دونوں ہتھیلیاں مسل رہا ہے جیسے اسے سچ مچ میرے لئے افسوس ہو رہا ہو۔ آپ نئے سرے سے کسی دوسری ٹرین کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے بلکہ میں تو آ پ کو مشورہ دوں گا کہ اپنی منزل ہی بدل لیں۔ جب اتنے سارے واقعات آپ کے خلاف کام کر رہے ہوں تو آپ کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ ہم ایک ایسے دور میں آ چکے ہیں جب ہم نے ناپ تول کر قدم نہ رکھا تو ہم کسی بھی وقت کسی نہ نظر آنے والی کھائی کے اندر گر سکتے ہیں۔

    شکریہ، آپ ایک اسٹیشن ماسٹر کا رول بخوبی نبھا رہے ہیں۔

    میں سوٹ کیس کے ساتھ باہر نکل آیا ہوں۔ باہر کھپریل کے چھپر سے سائے غائب ہو چکے ہیں اور درخت کا تارکول سے رنگا ہوا تنا سورج کی افقی کرنوں میں چمک اٹھا ہے۔ پٹریوں کے دوسری طرف کا پلیٹ فارم اسٹیشن کے داخلے کی عمارت کے سائے میں ڈوب گیا ہے۔ وہاں مسافروں کا اچھا خاصا ہجوم ہے جن کی بےچینی سے لگ رہا ہے کہ کسی گاڑی کی آمد کا اعلان ہو چکا تھا۔ کیا مجھے فٹ برج سے گزر کر اس پلیٹ فارم پر جانا چاہئے۔ کون جانے اس پر آنے والی ٹرین میری ٹرین نکل آئے۔

    کیا بکواس ہے، مجھے اپنی بیوقوفی کااحساس ہوتا ہے۔ وہ پلیٹ فارم تو مخالف سمت جانے والی ٹرینوں کے لئے ہے۔ کیا واقعی زمین اپنے مدارپر اس طرح گھوم گئی ہے کہ مجھے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے مخالف سمت جانے والی ٹرین پکڑنی چاہئے؟

    سورج داخلے کی عمارت کے پیچھے جا چکا ہے۔ مجھے زور کی بھوک لگی ہے۔ شاید پیٹ کے اندر کچھ جائے تو میں ٹھیک سے سوچ سکوں، ان عجیب و غریب حالات کا سامنا کر سکوں جنھوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، ان کا سر پیر نکال سکوں۔ پلیٹ فارم پر قمقمے جل اٹھے ہیں مگر پٹریوں کے کنارے کھڑے درختوں کی پھننگیں اور اسٹیشن کی عمارتوں کے بالائی حصوں کی چوبی آرائشیں اب بھی دھوپ کا فرغل پہنے کھڑی ہیں۔ کینٹن کے اندر روشنی ہو رہی ہے۔ اس کی فائبر کی میزیں خالی پڑی ہیں سوائے ایک کو چھوڑکر جس پر ایک شخص جس کی مرغ فرعون کی طرح لمبی گردن ہے، بیٹھا اپنی چائے کی پیالی کے اندر گھور رہا ہے۔ ابھی جاڑا پوری طرح سے آیانہیں ہے مگر اس نے ابھی سے ایک دھاری دار مفلر اپنی گردن کے نچلے حصے میں لپیٹ رکھا ہے اور پلاسٹک کے سڑے گلے سینڈل کے اندرسے اس کے پیروں کی انگلیاں بڑے ہی بے ڈھنگے انداز سے باہر نکلی ہوئی ہیں۔ اس کی میز پر ایک ریکسن کی تھیلی رکھی ہے جو کسی حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح پھولی ہوئی ہے۔ اس سے لالٹین کا قوس نما ہینڈل جھانک رہا ہے۔ کینٹن کے شوکیس میں المونیم کی ٹریز پر کیک، آلو چاپ اور سمو سے پڑے جانے کب سے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ کولڈ ڈرنک کے کریٹ کا زیادہ حصہ خالی بوتلوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ بوتلوں سے نکلے ہوئے پلاسٹک کے پائپوں پر مکھیاں قطار سے بیٹھی اپنی سنڈیاں رگڑ رہی ہیں۔ کینٹن کا واحد ویٹر میری آنکھوں سے گریز کرتے ہوئے مجھے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ ممکن نہیں ہو پاتا تو وہ طوعاً کراہاً کندھے پر ایک غلیظ تولیہ چپکائے میرے پاس آتا ہے۔ اس نے اپنی کمزور آنکھوں پر ایک بہت ہی دبیز لینس والی سستی عینک چڑھا رکھی ہے جس کے اندر اس کی آنکھیں کسی الو کے دیدوں کی طرح گول نظر آ رہی ہیں۔

    کھانا؟ اس کا وقت تو پوراہوا، وہ طلاع دیتا ہے۔ اب تو بس کیک اور سموسے ہی مل سکتے ہیں یا ایک آدھ آلو چاپ۔ گرم؟ نہیں، چولھے کی راکھ گرائی جا چکی ہے۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا، سورج ڈوبنے کے بعد اس اسٹیشن میں مسافر نظر نہیں آتے، وہ تو ٹینڈر کے قانون کے تحت ہمیں کینٹن کو ایک خاص وقت تک کھلا رکھنا پڑتا ہے۔ ہاں، مجھے پتہ ہے، میں کہتا ہوں۔ اس شہر میں لوگ رات کا سفر پسند نہیں کرتے۔ یہ علاقہ چاروں طرف سے لٹیروں سے گھرا ہوا ہے۔ تو ٹھیک ہے، ایک کیک اور گرم چائے ہی سہی۔ چائے تو گرم مل سکتی ہے نا؟کیوں نہیں۔ ویٹر مسکراتا ہے اور ان لٹیروں کے بارے میں آپ نے ٹھیک کہا۔ ابھی پچھلے ہفتے میں رات کے وقت کام کے بعد گھر لوٹ رہا تھا جب ایک شخص نے مجھ سے دیا سلائی مانگی اور میری پوری تنخواہ چھین لی۔ بعد میں وہ پکڑا بھی گیا۔ وہ سنڈر پٹی میں جہاں کچھ برس پہلے تک اسٹیم انجنوں کی راکھ ڈالی جاتی تھی، بانس کی ایک جھونپڑی میں ایک کمسن لڑکی کے ساتھ رہ رہا تھا جسے وہ کہیں سے بھگا کر لایا تھا اور ہر رات اس کا جنسی استحصال کیا کرتا۔ ایک ہفتہ قبل یہاں چائے پینے کے بہانے اس نے باتوں باتوں میں پتہ چلا لیا تھا کہ مجھے کس دن تنخواہ ملتی ہے۔

    راتیں اس شہر کے لئے نہیں ہوتیں، میں ایک ٹھنڈی سانس لیتا ہوں۔ یہاں سورج نہ ڈوبے تو بہتر ہے۔ ویٹر تائید میں سر ہلاکر میری میز پر چینی مٹی کی ایک دبیز رکابی رکھتا ہے جس پر ایک چاکلیٹ کے رنگ کا کیک پڑا ہے۔ کیک کیک سے زیادہ کیچڑ کا ایک ٹکڑا نظر آ رہا ہے۔ اس نے اس کے برابر چینی مٹی کی ایک دبیز پیالی کھڑی کی ہے جس کی انگلی والا حلقہ اتنا تنگ ہے کہ آپ اس میں اپنی انگلی ڈالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ اس میں کیتلی سے اسٹوو پر گرم کی ہوئی چائے انڈیل کر کاوئنٹر کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ وہ منیجر سے سرگوشی میں کچھ کہتا ہے اور کینٹن کے پیچھے کا دروازہ کھول کر باہر چلا جاتا ہے۔ باہر ایک اوور ہیڈ ٹینک پوری طرح بھر جانے کے سبب اس کا زائد پانی فوارے کی شکل میں نیچے گر رہا ہے جس میں رہ رہ کر ایک کتا گھس کر باہر نکل آتا ہے۔ شاید کتے کو اس کھیل میں مزا آ رہا ہے۔ پانچ منٹ بعد، جب کہ میں کیک اور بار بار کی کھولائی ہوئی بد مزہ چائے زہر مار کر چکا تھا کینٹن کے داخلے پر ویٹر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ریلوے پولس کا وہی کیلوں مہاسوں والا وردی پوش جوان ہے جسے اسٹیشن ماسٹر نے جادب کے نام سے پکارا تھا۔

    اگر آپ نے چائے پی لی ہو تو ہم چل سکتے ہیں، دوستارے والے انسپکٹر نے اپنی بیلٹ سے لگے ہولسٹرسے جھانکتے ریوالور پر ہاتھ رکھ کر نفاست سے کہا ہے۔ آپ کا مطلب مجھ سے ہے؟ میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ظاہر ہے ہم دیوار سے بات تو نہیں کر رہے ہیں، آپ کے سلسلے میں ہمیں چھان بین کا حکم ملا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر نے شکایت کی ہوگی، میں بٹوے سے پیسے نکال کر کاغذ کے پرزے پر نظر ڈالتا ہوں جس پر بل کی رقم کسی پنسل کی کند نوک سے لکھی ہوئی تھی۔ نہیں، ہم پولس والے اپنا فیصلہ خود بھی لیتے ہیں۔ میں اپنا سوٹ کیس اٹھا لوں؟ آپ کیوں تکلیف کریں گے۔ نورل، سوٹ کیس اٹھا لو، جادب اپنے ماتحت کو حکم دیتا ہے جس نے ایک بھاری رائفل اپنے کندھے سے لٹکا رکھی ہے۔ اس کی ٹھوری کافی نیچے لٹکی ہوئی ہے اور اس کے بال کسی گیدڑ کے بالوں کی طرح پیشانی پر کھڑے ہیں۔ ویٹر باقی کے پیسے ا یک ٹرے پر لاتا ہے جنھیں اٹھا کر میں اپنے بٹوے کے اندر رکھ لیتا ہوں۔ ٹپ کے طور پر میں نے دو روپئے کا ایک سکہ چھوڑ دیا ہے جس پر ایک سرسری نظر ڈال کر ویٹر نظر انداز کر دیتا ہے۔ شاید اسے اتنی حقیر رقم ٹرے پر دیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ کینٹن سے باہر جا تے ہوئے میں دیکھتا ہوں مفلر پہنا ہوا آدمی پہلے کی طرح اپنی جگہ چپ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی تجسس نہیں ہے۔شاید اب ہم ایک ایسے دور میں آ چکے ہیں کہ اپنی حفاظت کے لئے اس طرح کا غیرجانبدار چہرا رکھنا لازمی ہو گیا ہے!

    سنسان پلیٹ فارم پر دونوں کے بیچ مختلف تاریک اور نیم تاریک گھروں اور سائبانوں کے سامنے چلتے ہوئے ہم ایک اونچے درجے کے ویٹنگ روم اور پھر ایک زنانہ پیشاب گھر کے سامنے سے گزرتے ہیں جس کے باہر بڑا سا بلب جل رہا ہے۔ ویٹنگ روم کے اندر تیز سفید روشنی ہو رہی ہے مگر چمکتی دیواروں کے بیچ رکھی آرام کرسیوں پر ایک بھی مسافر دکھائی نہیں دیتا۔ ان سے گذر کر ہم دیر تک شام کے دھندلکے میں سنسان پلیٹ فارم پر چلتے رہتے ہیں۔ یہاں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے اور اکے دکے آسیب زدہ درختوں کے نیچے یا تو بھکاری آگ جلا رہے ہیں یا بلیوں کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ آخرکار ہم ایک پرانی تین منزلہ عمارت کے سامنے نکل آتے ہیں جو اس جانب پلیٹ فارم پر آخری عمارت ہے کیونکہ اس کے بعد پٹریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لکڑی کی گھماؤ دار سیڑھی کو الگ کر دیں تو اس عمارت کا زیادہ تر حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ قدمچوں پر احتیاط سے پیر رکھتے ہوئے جہاں ایک آدھ لینڈنگ پر اچانک کوئی غیرمتوقع بلب جل اٹھتا ہے، ہم سب سے اوپر کی منزل پر پہنچتے ہیں جہاں مجھے ایک ہال نما کمرے میں لے جایا جاتا ہے جس کی مستطیل کھڑکیوں کے پلے ایک روشن شہر کی طرف کھلے ہوئے ہیں۔ ہال کے بیچوں بیچ صرف ایک سیاہ رنگ کی کافی بڑی جسامت کی بیضوی میز رکھی ہے جس پر چھت سے تار کے سہارے ایک بلب بہت نیچے تک لٹک رہا ہے۔ اس کی تیز روشنی میں میز کی پالش کی ہوئی سطح آئینے کی طرح چمک اٹھی ہے جب کہ اس کے پائے اندھیرے میں غرق ہیں ۔ پورے ہال میں ایک بھی کرسی نہیں جہاں آدمی اپنے جسم کو آرام دے سکے۔ لیمپ بریکٹ کے کم پاور کے بلب نے چاروں دیواروں پر تتلیوں کے پروں کی طرح روشنیاں پھیلا رکھی ہیں۔

    یہ کسی طرح کا اذیت کا کمرا تو نہیں؟ میں پلٹ کر ان دونوں کی طرف لاپرواہی سے دیکھتا ہوں۔ جانے کیوں، اس کے باوجود کہ ماحول ہیبتناک ہے میں اندر سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ شاید ایسا اس لئے ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں جینا سیکھ گیا ہوں جس کے رات دن آپ کے نہیں ہوتے۔ یوں بھی میرے پاس کھونے کے لئے ایک بیکار سی زندگی کے علاوہ کیا تھا؟ کیا آپ کو لگتا ہے ہم اذیت دینے والے لوگ ہیں؟ جادب جواب دیتا ہے۔ اوہ، پھر تو غلطی ہو گئی۔ دراصل ایسا کمرا میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا، جادب دوبارا کہتا ہے۔ ہو سکتا ہے، اس کمرے کے بہت سارے استعمالوں میں سے ایک یہ بھی ہو، دراصل ہمیں ایک منٹ پہلے بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کرنے والے ہیں، وہ اپنے دونوں ہات میز پر رکھ کر میری آنکھوں میں دیکھ رہا ہے۔ تو آپ کا تعلق اسی شہر سے ہے؟ بالکل، میرے پاس شناختی کارڈ ہیں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کتنے سال گذارے ہیں آپ نے یہاں؟کتنے سال سے کیا مطلب ہے آپ کا؟ میں یہیں پیدا ہوا، بڑا ہوا، یہاں کے قبرستان میں میرے آبا و اجداد دفن ہیں۔ آپ نے پوچھا کتنے سال؟ تو میں آپ کو بتا دوں میں اس شہر کے علاوہ اور کسی شہر کو جانتا بھی نہیں گرچہ اب یہ شہر میرے لئے بھی اتنا مانوس نہیں رہا۔ یہ اب پوری طرح میرے لئے اجنبی بن چکا ہے اور اس پورے عرصے میں جب ٹرین کے انتظار میں آپ ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر بھٹک رہے تھے کسی نے موبائل پر آپ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش تک نہیں کی نہ ہی آپ نے کسی کو فون کرنے کے بارے میں سوچا؟ میں لوگوں کو اطلاع دیے بغیر گھر سے نکل آیا تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں میرے پاس کوئی سیل فون نہیں ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ میں نہیں چاہتا تھا اب میرے لوگ مجھ سے رابطہ قائم کریں۔ کوئی تو وجہ ہوگی اس کی؟ کوئی اپنے گھر سے اچانک اس طرح قطع تعلق نہیں کرتا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میرے جسم میں ایک غلط ہڈی لگی ہوئی ہے جس نے سب کچھ ملیا میٹ کر رکھا ہے اور میں اس شہر سے ہار گیا ہوں۔ بلکہ اب مجھے لگتا ہے یہاں میرے کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔

    جادب ایک پل کے لئے گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے۔ شاید وہ میری عجیب و غریب کہانی کے لئے تیار نہ تھا اور جب کہ کمرے کی خامشی مجھے کسی بھاری پتھر کی طرح لگ رہی ہے جس نے ہم تینوں کو اپنے بوجھ کے نیچے دبا رکھا ہے مجھے گیدڑ نما کانسٹبل کی سرگوشی سنائی دیتی ہے، وہ کس غلط ہڈی کی بات کر رہا ہے، سر؟ جادب اس کی طرف اکتاہٹ کے ساتھ دیکھتا ہے ۔اس کی پیشانی پر گہری سلوٹیں ابھر آئی ہیں۔ وہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ، وہ اپنے ماتحت کو مختصر سا جواب دیتا ہے اور چہرا میری طرف پھیر کر سوٹ کیس میز پر لانے کا حکم دیتا ہے۔

    سوٹ کیس میز پر رکھ دیا گیا ہے جسکا کمبی نیشن لاک میں کھول دیتا ہوں۔ جادب میرے سامانوں کو ایک ایک کر کے میز پر پھیلاتا جا رہا ہے۔ اس کے چہرے کی طرف تاکتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں ایک انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب اس نے اپنے فرض کا چولا بدل لیا ہے اور اپنی فطری درندگی کے اندر لوٹ آیا ہے۔کپڑوں کے نیچے سے کاغذات باہر نکال کر وہ بلب کی تیز روشنی میں آنکھیں سکوڑ کر ان کا جائزہ لے رہا ہے۔صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کی آنکھیں کمزور ہو چکی ہیں جس کا اسے احساس نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ کسی ماہر چشم سے رجو ع کرے۔ کچھ دیر تک میرے سامانوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد شاید اسے مایوسی ہوئی ہے۔ وہ انھیں بےترتیبی سے واپس سوٹ کیس کے اندر ٹھونسنے لگتا ہے جب کہ میں اس پورے معاملے سے الگ تھلگ کھڑکی کے سامنے کھڑا شہر کی روشنیوں کا جائزہ لے رہا ہوں۔ یہ شہر، میں سوچ رہا ہوں، میں کیوں اس کا حصہ نہ بن سکا، اس کے باغات، اس کے میدان اور تالاب، اس کے بازار اور ہوٹل، اس کی درس گاہیں، ایسا کیا ہوا کہ دھیرے دھیرے یہ چیزیں میرے لئے معدوم ہوتی گئیں اور لوگ میری پرچھائیں سے دور ہوتے چلے گئے۔

    میں نہیں جانتا اس شہر نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں اپنے کندھے اچکا کر با آواز بلند کہتا ہوں اور خود اپنی آواز سے چونک پڑتا ہوں۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو میں اس وقت شعوری طور پر کسی سے مخاطب بھی نہیں تھا۔ میں نے اس شہر سے بہت زیادہ کی مانگ تو نہیں کی تھی۔ میں نے تو صرف یہ چاہا تھا کہ میرے حصے کی آکسیجن مجھے ملے۔

    جواب میں مجھے چوبی قدمچوں پر دھم دھم کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں کھڑکی سے مڑ کر دیکھتا ہوں، میں ہال میں تنہا کھڑا ہوں۔ میری سوٹ کیس کا ڈھکن کھلا ہوا ہے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ بے ترتیبی سے ٹھنسے ہوئے سامانوں کے سبب اس نے بند ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ میں سامان باہر نکال کر انھیں دوبارا ترتیب سے سجاتا ہوں اور ماحول کا دہشت کم کرنے کے لئے سوٹ کیس کا ڈھکن زور سے بند کر تا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس آواز سے گھبرا کر کھڑکی سے چپکی ہوئی کوئی چڑیا پر پھیلا کر اڑ گئی ہو۔ مگر یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے۔

    میں ہال سے باہر آ کر لینڈنگ کے سامنے کھڑے ہو کرگھماؤ دار سیڑھی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں جو دھندلی ہوتی ہوئی اپنے چوبی جنگلے کے ساتھ نیچے کی طرف چلی گئی ہے۔ جنگلے کی مرغولے دار پرچھائیں دیوار پر اس طرح گر رہی ہے جیسے وہ نیچے جانے کے لئے مجھ پر کسی طرح کا نفسیاتی دباؤ بنا رہی ہو۔ ہیلو، اس کا کیا مطلب ہے؟ میں جنگلے کا اوپری سرا تھام کر سیڑھی کے کنویں کے اندر اپنی آواز بھیجتا ہوں۔ کیا میں یہاں قید ہو چکا ہوں؟ میری آواز نیچے سے لوٹ آتی ہے۔ نیچے کسی لینڈنگ پر ایک دروازہ کھل کر بند ہو جاتا ہے۔ دور شہر سے پٹاخوں اور بینڈ پارٹی کی ملی جلی آواز یں آ رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں آواز ٹرمپٹ کی ہے۔ جو کچھ میرے ساتھ پیش آ رہا تھا اس کے پیش نظریہ شور مجھے عجیب لگ رہا ہے۔ مگر پھر میں سوچتا ہوں کہ اس کے با وجود کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا اور میری سمجھ سے بالا تر تھا، کسی بھی فرد کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ اتنا اہم نہیں ہوتا کہ ایک شہر کی پوری زندگی پر اثر انداز ہو سکے۔ دوسری طرف اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ میں جب ان عجیب و غریب حالات سے گذر رہا تھا تو میرے پیدائشی شہر کے لوگ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ایک شور اور ہنگامے کے اندر اپنی زندگی کا مفہوم تلاش کر نے میں مصروف تھے کیونکہ جب ہمیں اپنے خالی پن کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، ہم اسے شور سے بھرنا چاہتے ہیں، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ جب ہمیں اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملتے تو ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنے ڈرم پیٹتے ہوئے، لاؤڈ اسپیکر پر چینختے چلاتے ہوئے ایک ایسے غل غپاڑے کی تخلیق کریں جس میں ہر چیز غرق ہو کر رہ جائے۔ میں ان خیالوں میں اتنا غرق تھا کہ لکڑی کا زینہ اترتے ہوئے میں پہلی منزل کی لینڈنگ پر ایک شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچتا ہوں جس نے داہنے ہات میں کولڈ ڈرنک کی تین بوتلیں اور بائیں ہات سے کاغذ کا ایک پیکٹ اٹھا رکھا ہے جس سے آملیٹ کی تیز مہک آ رہی ہے۔اس نے وردی نہیں پہنی ہے مگر وہ کوئی پولس والا ہی ہے۔ اس کے یہاں ہونے کا اور کیا سبب ہو سکتا ہے؟

    احتیاط سے سر، وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نشے کے آخری پائدان پر ہے جب خیرسگالی کا جذبہ انسان کے اندر بلا وجہ موجیں مارنے لگتا ہے۔ سیڑھی کے قدمچے گھسے ہوئے ہیں۔ آپ اپنی ٹانگ تڑا سکتے ہیں۔

    شکریہ، مجھے ذرا جلدی ہے۔ کہیں میری ٹرین نہ نکل گئی ہو۔

    عمارت سے باہر نکل کر میں دیکھتا ہوں، پلیٹ فارم پر تیز ہوا چل رہی ہے، تاروں سے ڈھکا آسمان میرا منتظر ہے اور ایک کتا مجھ پر بھونکنے کی تیاری کر رہا ہے۔

    تیز ہوا سے لڑتے ہوئے میں اندھیرے میں چل رہا ہوں۔ پلیٹ فارم کی روشنیاں کچھ فاصلے پر میرا انتظار کر رہی ہیں۔ میں پلٹ کر عمارت کی طرف دیکھتا ہوں جس سے میں ابھی ابھی باہر آ یا تھا۔ اس کی سب سے اوپر کی منزل کی کھڑکیاں اب بھی روشن ہیں جیسے اندر کسی دوسرے شخص کی جرح چل رہی ہو۔ کتا ایک محفوظ فاصلہ بنائے ہوئے دبی دبی آواز میں بف بف کرتا ہوا میرا تعاقب کر رہا ہے مگر جس تناسب سے میں روشنی کے قریب آتا جا رہا ہوں اسی تناسب سے میرے اور اس کے درمیان کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ وہ میرے پیچھے اندھیرے میں چھوٹ جاتا ہے جہاں سے اس کے بھونکنے کی آواز متواتر آتی رہتی ہے جیسے وہ نہیں بلکہ اندھیرا بھونک رہا ہو۔ میرے پیر شل ہو چکے ہیں۔ اب اس پلیٹ فارم پر ایک آدھ ہی مسافر بچے ہیں۔ میں روشنی کے سمندر میں داخل ہو تا ہوں اور لکڑی کے ایک خالی بینچ کا انتخاب کرکے جو ایک رنگین تھوکدان سے بالکل سٹا ہوا ہے سوٹ کیس کو سر کے نیچے رکھ کر اپنی ٹانگیں پھیلا دیتا ہوں۔ گرچہ میرے پپوٹے نیند سے بوجھل ہو رہے ہیں مجھے دیر تک نیند نہیں آتی اور میں ایک ٹک اپنے جوتے کی نوک پر نظریں ٹکائے آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس وقت طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں چکر لگا رہے ہیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو رہا ہے جن میں بینڈ پارٹی اور شہر کے لوگوں کا شور بھی شامل ہے گرچہ اس وقت پلیٹ فارم پر قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ دیر تک میں اسی طرح بینچ پر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ شایداس کی ایک دوسری وجہ بھی ہو۔ شاید میں خوفزدہ تھا کہ مجھے نیند آ گئی تو میرا سوٹ کیس چرا لیا جائےگا اور شاید یہ اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ اچانک مجھے گہری نیند آ دبوچتی ہے اور جب کہ میں اپنے خواب میں اپنے سوٹ کیس کی تلاش میں جسے چرا لیا گیا تھا حیران و پریشان ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کا چکر لگا رہا تھا، اچانک مجھے کوئی جھنجھوڑ کر جگا دیتا ہے۔آنکھیں کھول کر میں دیکھتا ہوں، صبح ہو چکی ہے اور میرے عین سامنے ایک ٹرین کھڑی ہے جو مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے۔ دور تک ٹرین کے دروازوں کے باہر مسافروں اور انھیں چھوڑنے والوں کا ہجوم ہے، اخبار والے اور خوانچہ والے کھڑکیوں کے سامنے سے آواز لگاتے ہوئے گذر رہے ہیں اور میرے سامنے کسی نے ڈبے کی کھڑکی سے قئے کر دی ہے جس نے ٹرین کی دیوار پر ایک لمبی لکیر کھینچ ڈالی ہے۔

    یہ وہی بوڑھا قلی ہے جو مجھ پر جھکا ہوا ہے۔

    حضور، آپ کی ٹرین آ چکی اور آپ ہیں کہ خراٹے لے رہے ہیں۔ آپ جلدی کریں۔ گارڈ کبھی بھی ہری جھنڈی دکھا سکتا ہے۔ میں نے آپ کے لئے ایک سیٹ لوٹ لی ہے اور کچھ نہیں، آپ صرف چائے پانی کا خرچ دے دیجئےگا۔

    قلی مجھ سے اجازت لئے بغیر میرا سوٹ کیس اٹھا لیتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے کسی روبوٹ کی طرح چل پڑتا ہوں۔ میر ی جوڑوں سے درد کی ٹیسیں ابھر رہی ہیں گرچہ مجھے اس اعتراف میں کوئی شرمندگی نہیں کہ مجھے اپنے سوٹ کیس کے واپس مل جانے پر ایک عجیب مسرت کا احساس ہو رہا ہے اس سے قطع نظر کہ اس کے کھونے کا واقعہ خواب میں پیش آیا تھا۔ ٹرین کافی لمبی ہے اور ہر دو کمپارٹمنٹ کے بیچ سے نجاست اور پیشاب کی تیز سڑاندھ پھیل رہی ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرین رات بھر کا سفر کرتے ہوئے آ رہی ہے۔ میں قلی کے پیچھے پیچھے ڈبے میں داخل ہوتا ہوں اور اس بات کی چھان بین کیے بغیر کہ یہ واقعی میری ٹرین تھی بھی یا نہیں اس کی بتائی ہوئی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہو رہی ہے کہ پہلے مجھے اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا کہ جب میری کوئی منزل نہیں تو میں تو کسی بھی ٹرین کی سواری کر سکتا ہوں! تومیں ٹرین کے اندر اپنی سیٹ پر بیٹھا اطمینان کی سانس لے رہا تھا جب میرے روبرو بیٹھا ہوا کوتاہ قد آدمی میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کے پاس کوئی گردن نہیں ہے اوراس نے صبح کی ٹھنڈک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاکستری رنگ کی لمبی وردی پہن رکھی ہے جس کے کالر اس کے کانوں تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ وہ وردی ہے جسے عام طور پر ریلوے کے عملے جاڑے کے دنوں میں پہنا کرتے ہیں۔

    شاید آپ کو میری تلاش تھی؟ وہ مجھ سے مخاطب ہوتا ہے۔آپ نے میرا نام تو سنا ہوگا۔ میں سگنل مین گو چرن رائے ہوں۔ کیا آپ مجھ سے بند گھڑی کی کہانی سننا چاہیں گے؟

    کیا کہانی لمبی ہے؟

    آپ جتنی لمبی چاہیں میں اسے اتنی لمبی کر سکتا ہوں۔ بلکہ میں تو اسے اتنی لمبی کر سکتا ہوں کہ یہ سفر کٹ جائے اور یہ کہانی ختم نہ ہو۔ آخر کہانیوں کا مقصد ہی کیا ہے اگر وہ وقت کو پیچھے چھوڑنے میں ہماری مدد نہ کریں۔

    پھر تو ہمارا سفر اچھا گذرنے والا ہے، میں ہنس کر اپنی ٹانگیں سامنے کی سیٹ کے نیچے دور تک پھیلا دیتا ہوں اور کھڑکی سے باہر تاکنے لگتا ہوں جہاں کھیتوں کے بیچ سورج نمودار ہو چکا ہے اور درخت تیزی سے پیچھے چھوٹتے جا رہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے