Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بین

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ بارہ برس کے ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہےجو اپنی چچا زاد بہن انگورا جو عمر میں اس سے کئی سال بڑی تھی کو پسند کرتا تھا اور جس کے لیے اس کے اندر جنسی خواہشات کے جراثیم کلبلانے لگے تھے۔ چچا ریلوے میں انجن چلایا کرتے تھے۔ ان دنوں اس کی پوسٹنگ ایک دور استادہ اسٹیشن میں تھی جو پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک دن انگورا نے اسے اس لڑکے کے بارے میں بتایا جس سے وہ ریلوے کے ایک متروک کوارٹر میں ملا کرتی تھی اور اب وہ کچھ ہی دنوں میں اس لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی ہے۔ اس کا چچازاد اس سے کہتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو اس لڑکے کے بارے میں بتا دے، ممکن ہے وہ دونوں کی شادی کے لیے راضی ہو جائیں۔ انگورا نے بتا یا کہ اس کا باپ اس کے لیےکبھی راضی نہ ہوگا کیونکہ اس لڑکے پر کئی خون کے الزام ہیں اور پولس ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتی ہے۔ چچازاد اس لڑکے سے ملنے سے منع کرتا ہے تو انگورا نےجواب دیا کہ وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی ہے جس کے بازو پر اس کی رکھیل کا نام گدا ہوا ہے۔

    (جنگل کے اندر ساگوان کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھی وہ لڑکی ایک سوکھی ٹہنی سے زمین پر لکیر یں کھینچ رہی تھی۔ لکیروں کو بناتے وقت اس کی ٹہنی بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ بچی ہوئی ٹہنی سے دوبارا کام شروع کر دیتی۔ وہ جو لکیریں کھینچ رہی تھیں وہ اتنی بےتکی بھی نہ تھیں۔ بہت جلد انھوں نے ایک بڑی کڑھائی کا روپ دھار لیا جو لبالب پانی سے بھرا ہوا تھا۔ گرچہ کڑھائی کو آگ نہیں دکھائی گئی تھی اس کے پانی سے دھوؤں کے مرغولے باہر آ رہے تھے۔ شاید وہ یہی سوچ رہی تھی کیونکہ اس نے اس کے نیچے کچھ آڑی ترچھی لکڑیاں بنانی شروع کر دیں۔ ان لکڑیوں کو بنانا کوئی محنت کا کام نہ تھا، مگر جب وہ بن گئیں تو وہ دیر تک ان کی طرف دیکھا کی ۔کتنی دیر تک؟ یہی کچھ دس منٹ، یا آدھا گھنٹہ، یا ایک سال، یا ایک صدی۔وقت کی دھند سے باہر آ کراس نے لکڑیوں کو آگ دکھائے بغیرٹہنی کا بچا ہوا حصہ نیچے پھینک دیا اور اپنا سرپیچھے لے جا کر پیڑ کے تنے سے ٹکا دیا۔

    ہوا پھننگوں میں قید ہے۔ اس کی پیٹھ زمین سے نکلی ہوئی عمودی جڑوں پر ٹکی ہونے کے سبب، اس کے بھاری پستان غیر معمولی طور پر ابھر آئے ہیں۔ اس کا گھنے سیاہ بالوں سے ڈھکا سر شانوں سے پشت کی طرف ڈھلک گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے بغیر سر کا ایک جسم پیڑ کے نیچے پڑا ہوا ہو۔

    جانے کتنا وقت گذرا ہوگا۔ جب دور سے آتی ایک دقیانوسی موٹرسائکل کی آوازجنگل کے سناٹے کو توڑ دیتی ہے۔ یہ آواز تھوڑے فاصلے پر آکر غائب ہو گئی ہے۔ جنگل ایک بار پھر سناٹے میں ڈوب گیا ہے۔ زیادہ وقت نہ گذرا ہوگا جب رہ رہ کرپتوں کے چرمرانے کی آواز ابھرنا شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی جنگل کے اندر چل رہا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولتیں۔ مزید کچھ منٹ اور اسے اپنے داہنے کندھے پر ایک مضبوط ہتھیلی کے دباؤ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ ایک لانبے قد کا دبلا پتلا لڑکا اپنا تاریک چشمہ اتار کر اس پر جھکا ہوا ہے۔

    ’’یہ جگہ تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ تمہیں یہاں اکیلے نہیں آنا چاہئے۔‘‘

    ’’میں یہاں اکیلی نہیں ہوں!‘‘ لڑکی اٹھ کر بیٹھ گئی ہے۔ وہ لڑکے کی طرف تاکنے کی بجائے اپنے دونوں گھٹنوں کو بازوؤں کے درمیان رکھ کر سامنے جنگل کے اندر تاک رہی ہے جہاں شاخوں اور ٹہنیوں سے چھن چھن کر گرتی سورج کی روشنی میں پیڑکے تنے تیر رہے ہیں۔ ’’میں اس جنگل میں کبھی اکیلی نہیں ہوتی۔‘‘)

    یہ اسٹیم انجن کا زمانہ تھا جب دنیا پر راکھ اور بھاپ کی حکمرانی تھی۔

    میرے چچا ریلوے میں نوکر تھے اور ہر کچھ سال بعد ان کا تبادلہ کسی دور افتادہ اسٹیشن میں ہو جایا کرتا۔ ان دنوں وہ اپنی ٹرین لے کر اڑیسہ کے پہاڑوں میں کچی دھات کی کانوں کی طرف جایا کرتے تھے۔چونکہ ہمارے پاس جانے کے لئے اور کوئی دوسری جگہ نہ تھی ، موقع ملتے ہی ہم لوگ ان سے ملنے چلے جاتے۔

    ان دنوں وہ جس جگہ کام کر رہے تھے وہاں میرے لئے سب سے زیادہ حیران کن چیز تھی وہ پانی کا بڑا کنواں جس کی دیوار لوہے کی بنی تھی۔ اس کنویں کا پانی پمپ کے ذریعے اسٹیم انجنوں کے اندر ڈالا جاتا۔ میں نے اس زنگ خوردہ کنویں کے اندر پہلی بار جھانک کر دیکھا تو اس کے پانی میں آسمان کا ہالہ رہ رہ کر جھلک رہا تھا۔ بادی النظر میں کنویں کے اندر یہ ہلتا ہوا ہالہ ہی نظر آ رہا تھا۔ مگر کچھ دیرتک غور سے دیکھتے رہنے کے بعد مجھے پانی میں بہت سارے سانپ کلبلاتے نظر آئے۔ ایک لوہے کی سیڑھی بھی دکھائی دی جو پانی کے اندر چلی گئی تھی۔ اس سیڑھی کے پائدان دیوار سے نکلے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر پرانے ہو کر ٹیڑھے میڑھے ہو گئے تھے بلکہ کئی تو ٹوٹ پھوٹ کر دیوار سے نیچے لٹک رہے تھے۔گرمی کی دوپہروں میں، جب زمین کے اوپرکی چیزیں گرم ہوا اور دھوپ میں کمہلائی ہوئی نظر آتیں، کنویں کے اندر سے ایک عجیب طرح کی بدبو آ تی جو ان چیل اور پہاڑی کووں کی بیٹ کی بو بھی ہو سکتی تھی جو کنویں کے اندر اترکر گھنٹوں ان پائدانوں پر بیٹھا کرتے۔ یایہ خود اس زنگ آلود پانی کی سڑاندھ ہو سکتی تھی جس کے اندر سانپ کلبلایا کرتے۔ یہ سوچ کر کہ ان پائدانوں سے پھسل کر کوئی انسان سانپوں کے درمیان جا گرے تو کیا ہوگا، میری ریڑھ کی ہڈی کے اندر ایک جھرجھری دوڑ جاتی۔

    ’’ایسا واقعہ یہاں کبھی پیش نہیں آیا!‘‘ میرے چاچا، جو انجن میں ڈرائیور تھے اور جنھیں ہم ’ریل ابا‘ کہہ کر بلایا کرتے، پہلی بار میرا تجسس دیکھ کر مسکرااٹھے۔ ’’ویسے ایسی ایک کہانی تو بنائی ہی جا سکتی ہے۔ بلکہ تم گھنٹوں جس طرح اس کنویں کے اندر جھانکتے رہتے ہو، تمہیں ایسی کسی کہانی میں یقین تو ضرور ہوگا؟‘‘

    ریل ابا کے بھرے بھرے گالوں پر گھنگریالی داڑھی اگی ہوئی تھی جنھیں وہ خضاب سے سرخ رکھتے تھے۔ ان کے دانت پرانے تانبے کی طرح بے رنگ ہو چکے تھے جیسے ان پر بھی برسوں کی راکھ اور دھول جمی ہوئی ہو۔ شاید یہ بہت زیادہ سگریٹ نوشی کا نتیجہ تھا۔ وہ ہمیشہ سر پر ایک کیپ لگائے رہتے جسے ایک اینگلو انڈین گارڈ نے تحفے میں انھیں دیا تھا۔انجن کے دھووں کے سبب اس کیپ کا اصلی رنگ کب کا مر چکا تھا۔ ریل ابّاکی شراب نوشی کی لت اسی اینگلو انڈین کی دین تھی۔

    یوں ریل ابّا کافی ہٹے کٹے پہلوان نما انسان تھے، مگر میرے لئے ان کے جسم پر ایک اور ہی چیز تھی جو میرے لئے شروع ہی سے تجسس اور دلچسپی کا سامان بنی ہوئی تھی، وہ چیز تھی ان کا داہنا بازو جس پر ان کی رکھیل کا نام ہندوستانی میں گدا ہوا تھا۔

    اس نام کے دیو ناگری شبدوں کے گرد ایک نسوانی آنکھ کا پراسرار ہالہ بنا ہوا تھا جس کی دونوں طرف کی پلکیں کافی لانبی اور پرکشش تھیں۔ میری چاچی کو ان سب چیزوں سے کوئی مطلب نہ تھا۔ وہ اس آنکھ کو ساری زندگی دیکھتی آئی تھیں مگر انھیں پتہ بھی نہ تھا کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوا تھا۔ یا شاید اس دور کی دوسری عورتوں کی طرح انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ ریل ابا کی بڑی لڑکی انگورا نے ایک دن میرے کان میں سرگوشی سے بتایا کہ وہ ایک قبائلی عورت کا نام ہے۔ اسے اس زبان سے واقفیت تھی کیونکہ پچھلی جگہ جہاں ریل ابا کی پوسٹنگ ہوئی تھی وہاں ذریعۂ تعلیم صرف یہی زبان تھی۔بعد میں ریل ابا کا تبادلہ نئی جگہ ہو جانے کے سبب وہ نہ صرف یہ زبان پوری طرح سیکھنے سے محروم رہ گئی تھی بلکہ اس کی تعلیم بھی ہمیشہ کے لئے رک گئی تھی۔

    ’’میں اس عورت کو جانتا ہوں۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے میں اسے دیکھ چکا ہوں۔ ایک کالی کلیٹی چڑیل۔ وہ ہمارے گھر سامان بیچنے آیا کرتی تھی۔ ‘‘

    میں نے سوچا تھا اپنے اس جھوٹ کے سہارے اس کی خوشنودگی حاصل کر لوں گا۔

    ’’اب نہیں آتی؟‘‘

    ’’مجھے ذرا سوچنے دو۔‘‘ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ان عورتوں کو یاد کرنے لگا جنھیں میں نے اپنے بچپن میں کبھی چچا کے ساتھ دیکھا ہوگا۔ مجھے دور دور تک ایسی کوئی عورت دکھائی نہیں دی۔ تھک کر میں نے آنکھیں کھول دیں اور کہا۔ ’’نہیں، اب نہیں آتی۔‘‘

    ’’تو پھر انھوں نے یہ نام کیوں گدا رکھا ہے؟‘‘ انگورا نے کن انکھیوں سے میری طرف تاکتے ہوئے اپنا سوال جاری رکھا۔ وہ مجھ سے عمر میں چار سال بڑی تھی اور یہ حیرت کی بات تھی کہ وہ یہ بات مجھ سے پوچھ رہی تھی جب کہ اسے پتہ ہونا چاہئے تھا کہ ایک بار کوئی نام بدن پر گدوا لیا جائے تو پھر اسے مٹایا نہیں جا سکتا، تم ساری زندگی اس کے ساتھ جینے پر مجبور ہوتے ہو۔ میں اسے یہ بتانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس نے میری آنکھوں کے اندر تاکتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں پتہ ہے ایک مرد اور عورت کے بیچ میں کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’وہ جو بھی ہوتا ہوگا اچھا نہیں ہوتا ہوگا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتیں مردوں سے خوفزدہ رہا کرتیں اور مردوں کے ہاتھوں پٹتے رہنا تو ان کے روز کا مقدر تھا۔ مجھے یاد نہیں ایسا کوئی دن گذرا ہو جب کھیتوں میدانوں میں ہم اس طرح کے تماشے نہ دیکھتے۔

    ’’لیکن جب ابو نے ایک عورت کا نام اپنے بدن پر گدا رکھا ہے تو یقیناً اس میں کوئی تو بات ضرور ہوگی۔‘‘ پھر انگورا نے میرے دونوں بازو سختی سے تھام لئے۔ ’’ایک دن تم بھی اپنے بازو پر کسی کا نام گدوا لوگے۔‘‘

    ’’تمہیں یہ خیال کیوں آیا؟‘‘ میں نے اپنے بازو چھڑانے کی کوشش کی۔

    ’’کیونکہ تم ایک برے لڑکے ہو۔ تم میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں۔‘‘ اس کی انگلیاں اور بھی سخت ہو گئیں اور اس کے ناخن میری جلد کو کاٹنے لگے۔میرے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا کہ اس کے سراپے کا جائزہ لوں اور گرچہ وہ مجھ سے بالکل سٹ کر کھڑی ہونے کے سبب اس کے سراپے کا جائزہ لینا ممکن نہ تھا اس کے جسم کے لمس سے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ نہ صرف وقت سے پہلے ہی جوان ہو چکی تھی بلکہ ضرورت سے زیادہ صحت مند ہونے کے سبب اس کے کپڑے اس کی جوانی سنبھال نہیں پا رہے تھے۔

    ’’تم آخر چاہتی کیا ہو؟‘‘ میں نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا۔ آخر وہ میری بہن تھی اور مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ میں اس طرح اس کی طرف دیکھوں۔

    ’’میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے دیکھا کرو۔‘‘ انگورا بولی۔ اس نے میرے بازو چھوڑ دیے اور اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی جو دوسرے کوارٹروں کے ساتھ ایک مسطح زمین پر کھڑا تھا۔ ان کوارٹروں کی بابا آدم کے زمانے کی چمنیاں اپنی چھتوں پر اگی گھاس پھوس کے درمیان سوالیہ نشان قائم کرتی تھیں ۔یہ چمنیاں بعد میں بننے والے کوارٹروں سے غائب ہو گئی تھیں۔ میں نے ان چمنیوں کی طرف دیکھا جن سے اب بھی کوئلے کے دھویں باہر آیا کرتے اور اپنے بازوؤں کو سہلاتے ہوئے کہا، گھبراؤ مت، ایک دن تمہیں تمہارے سوالوں کا جواب ضرور مل جائیگا۔

    گرچہ ریل ابا کے بازو پر گدی ہوئی یہ پراسرار آنکھ میں ان دنوں سے دیکھتا آ رہا تھاجب سے میں نے اپنا ہوش سنبھالا تھا مگر جانے یہ انگورا کی گفتگو کا اثر تھا یا اس کے جوان جسم کا جسے میں نے چھو لیا تھا، اس بار ہم لوگ ریل ابا کے یہاں سے واپس لوٹے تو میں نے اپنے آبائی شہر میں اس عورت کی تلاش شروع کر دی جس کے ساتھ میں بچپن سے ریل ابا کے معاشقے کی چہ میگوئیاں سنتا آ رہا تھا۔ ظاہر تھا ،میں

    اس بار گھر لوٹا تو ہر اس پہاڑی عورت کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا جو اسٹیشن سے کچھ دور اس ڈھلواں راستے پر دکھائی پڑ جاتی جہاں سنگھاڑوں سے ڈھکے ایک تالاب کے کنارے ہمارا کھپڑیل کا دو منزلہ مکان واقع تھا۔ یہ زیادہ تر دیہات کی دودھ بیچنے والیاں ہوتیں، یا وہ ٹوکری میں چوڑیاں سجا کر نمودار ہوتیں جو پلاسٹک پر لاکھی جما کر بنائی جاتیں۔کچھ اپنی ٹوکریوں میں زندہ سانپوں کے ساتھ چمڑے کے گداموں کی طرف جاتی دکھائی دیتیں جدھر سے آتی بدبودار ہوا کو نتھنوں پر سنبھالنا مشکل کام تھا۔ ایک آدھ تو شہد کے پورے کے پورے چھتے کو سر پر اٹھائے ہوتیں جس میں زندہ مکھیاں کلبلایا کرتیں اور ایک ایسی عورت بھی تھی جو کافی عمر دراز تھی اور جس کے پستان بلاؤز کے نیچے سے نکل کر اس کی ناف تک لٹک آئے تھے۔ وہ اپنی ٹوکری میں اصیل مرغے بھر کر لاتی جو بڑے ہی لڑاکا ثابت ہوتے۔ میرے ایک دور کے رشتے دار، جس کی ایک مودی کی دکان نیل کے ایک متروک کارخانے کے احاطے پر واقع تھی، اس سے مرغے خریدا کرتے۔میرے رشتہ دار مولوی قسم کے آدمی تھے جو ہر وقت پان چبایا کرتے اور آئے دن قیامت کی پیشنگوئیاں کیا کرتے۔ مگر ان کے ساتھ یہ عجیب واقعہ تھا کہ وہ بچپن سے لڑاکا مرغوں کے دیوانے تھے۔ وہ ان مرغوں کو لڑنے کی ترغیب دیا کرتے اور انھیں بیچ کر نہ صرف اچھی خاصی قیمت وصولا کرتے بلکہ خود بھی انھیں لے کر گاؤں دیہات کے میلوں ٹھیلوں میں جایا کرتے۔ ہمارے شہر کے باہر چٹانوں پر جہاں ہفتہ وار ہاٹ میں مرغے لڑائے جاتے

    اور بڈھے شراب پی کر جوا کھیلتے وہاں ان کی موجودگی ایک دائمی چیز تصور کی جاتی۔

    ’’اس عورت کی ایک کہانی ہے۔‘‘ ایک دن اچانک انھوں نے اپنے داہنے ہاتھ کی درمیانی انگلی کے ٹھنٹھ کو تاکتے ہوئے بتایا۔ چار سال قبل ایک لڑاکا مرغے کو سنبھالتے سنبھالتے اس کے پیر سے بندھی منحنی تلوار سے یہ انگلی کٹ کر آدھی رہ گئی تھی۔

    ’’کیسی کہانی؟ِ‘‘

    ’’اس کا شوہر بلا کا شرابی تھا جو ان جنگلی لوگوں میں عام بات ہے۔‘‘ انھوں نے کروشیا سے بنی ٹوپی اٹھا کر اپنا سر کھجاتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ان کے بالوں کا رنگ خاکستری تھا جنھیں دیکھتے ہی پھوس کے سڑے گلے چھپر یاد آ جاتے جن پر گلہریاں اور چوہے دوڑا کرتے۔ ’’اک دن اس نے کھڑے کھڑے اپنی بیوی کو ایک بوتل شراب کے لئے ایک دوسرے آدمی کو بیچ دیا۔‘‘

    ’’ارے نہیں!‘‘ مجھے کہانی سے دلچسپی ہونے لگی۔

    ’’میں جانتا تھا تم یقین نہیں کروگے۔‘‘ میرے رشتے دار نے سر پر ٹوپی واپس رکھتے ہوئے کہا۔ اب وہ کھیت میں بانس پر کھڑے کسی بھچکاگ کی طرح نظر آ رہے تھے۔ ’’مگر ایسا ہی ہوا تھا۔ تو وہ اس دوسرے آدمی کی وفادار ہو گئی جس نے اسے خریدا تھا۔ اب یہ دوسرا آدمی ایک جادو گر تھا۔ وہ جنگل میں گھومنے والی آتماؤں اور بھوت پریت کو بلانے میں ماہر تھا۔ ان میں سے کئی اس کے حکم کے غلام تھے اور کئی اس کے جانی دشمن جن میں سے ایک نے اس کے داہنے کان میں ایسامکّا مارا تھا کہ اب اس کان سے وہ سن نہیں پاتا تھا۔ ایک دن اس نے اس عورت کو ایک بھیڑ دکھایا جس کی سرخ داڑھی تھی اور گول گول سینگ۔ اس نے اس عورت کو بتایا کہ یہ اس کا پہلا شوہر ہے جسے اس نے جنگل میں بلا کر اپنے بس میں کر لیا ہے۔‘‘

    ’’اور اس عورت نے یقین کر لیا۔‘‘

    ’’ہاں۔ اس کے پاس یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔تویوں ہوا کہ وہ دن رات اس بھیڑ کا خیال رکھنے لگی، اس کی خدمت کرنے لگی۔ یہ اس کے جادو گر شوہر کو اچھا نہیں لگا۔ مگر وہ مجبور تھا۔ وہ نہ صرف نکما تھا بلکہ اس عورت سے بہت پیار کرنے لگا تھا۔ اگر اس نے اس بھیڑ کو جان سے مار دیا تو یہ عورت اسے چھوڑ کر جا سکتی تھی۔ تم تو جانتے ہی ہو، یہ آدی باسی عورتیں ہماری عورتوں کی طرح وفادار نہیں ہوتیں کہ مرتے دم تک گھر کی چو کھٹ سے لگی رہیں۔ چونکہ وہ کافی محنتی ہوتی ہیں اور نہ صرف اپنی خود کی کمائی کرتی ہیں بلکہ اپنے نکمے شرابی شوہروں کا جہنم بھی بھرتی ہیں، وہ ہر وقت نکیل توڑ نے کے لئے تیار رہتی ہیں۔ویسے اس کی ایک دوسری وجہ بھی تھی جس کے سبب جادو گر مجبور تھا‘‘

    ’’دوسری وجہ؟ دوسری وجہ کیا ہو سکتی تھی؟‘‘

    ’’گاؤں والے اس بھیڑ کی بڑی قدر کرنے لگے تھے۔ وہ بھیڑ بلا کا نر تھا جس نے دو سال کے اندر اندر اس پہاڑی گاؤں پر میمنوں کی برسات کر دی۔‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا جواب دوں۔ آدی باسی عورتوں کے بارے میں میرا علم صفر کے برابر تھا اور بچپن سے میں بھیڑ بکریوں کو صرف بوچڑوں کے ہاتھوں کٹتے دیکھتا آیا تھا۔ ان کا کوئی دوسرا مصرف میری سمجھ سے باہر تھا۔ آخر کار میں نے سر اس طرح ہلایا کہ اس کا کچھ بھی مطلب نکل سکتا تھا۔ میں اس میں کافی مہارت رکھتا تھا۔

    مگر اس بارشاید میں چوک گیا تھا۔ میرے رشتے دار کی عقابی آنکھوں نے میری چالاکی کو پکڑ لیا۔

    ’’تم میری بات غور سے نہیں سن رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے مجھے جھوٹ پسند نہیں۔‘‘ اس نے میری طرف نا پسندیدہ نظروں سے تاکتے ہوئے کہا۔

    ’’میں سن رہا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں، تمہیں میری بات کا یقین نہیں۔‘‘

    ’’یہ خیال آپ کو کیوں آیا؟‘‘

    ’’یہ میں تمہاری آنکھوں میں پڑھ سکتا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’تم ایک بڑے نوٹنکی باز ہو۔ تم جو سوچتے ہو وہ اپنی آنکھوں سے ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا۔‘‘

    اور اس نے باقی کہانی سنانے سے انکار کر دیا۔ اس دن مجھے پہلی بار پتہ چلا ایک ادھوری کہانی سے زیادہ اذیت ناک چیز اس دنیا میں اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ میں آج بھی اس ادھوری کہانی کی کاٹ لئے گھوم رہا ہوں۔ ساتھ ہی اس واقعے کا یہ نتیجہ نکلا کہ میں اس آدی باسی عورت کا زیادہ غور سے جائزہ لینے لگا۔ گرچہ اس کا چہرا دوسری آدی باسی عورتوں سے کچھ الگ نہ تھا مگر اس کے پورے چہرے پر سب سے نمایاں چیز اس کی ناک تھی جس کے دونوں بڑے سوراخوں میں تانبے کے دو کافی بڑے بلاق ڈلے ہوئے تھے۔ گرچہ اس کی قدرے اندر کی طرف دھنسی ہوئی آنکھوں کے اندر ایسا کوئی اسرار نہ تھا کہ آدمی کو کچھ سوچنے پر مجبور کرے، مگر اس کے دونوں پستانوں کی گھنڈیاں اور ان کے گرد پڑے ہوئے تانبے کے رنگ کے حلقے جو ناف کے دونوں طرف پہرا دیا کرتے، کسی سانپ کے پھن کی یاد دلاتے تھے، بلکہ غور سے دیکھنے پر ان حلقوں کے اندر سانپ کے نوکیلے دانتوں جیسا سفید نشان صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ انھیں دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگتا جیسے کوئی زہریلا سانپ میری پشت پر رینگ رہا ہو۔ جانے کیوں مجھے کبھی اس کا احساس نہیں ہوا کہ میں ان کی طرف تاکتے ہوئے ایک گناہِ عظیم کا مرتکب ہو رہا ہوں۔

    اس عورت کو شاید میری دلچسپی کا پتہ چل گیا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا، وہ ہمارے گھر کے باہر بجلی کے کھمبا کے نیچے رک گئی تھی اور میری طرف عجیب نظروں سے تاک رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس کی نظروں کو سمجھ پاتا، اچانک اس نے اپنا بایاں بازو میری طرف کر دیا جو اس کی بغل تک ننگا تھا۔

    اس پر ایک بھیڑ کی تصویر گدی ہوئی تھی جس کی داڑھی تھی اور گول گول سینگ!

    اس واقعے کے بعد بھی میں نے اس جنگلی عورت کو کئی بار دیکھا۔ میری خواہش ہوئی کہ اس سے اس آدمی کا پتہ پوچھوں جو لوگوں کے جسم پر گودنے کا کام کرتا ہے۔ مگر مجھے لگا، میں یہ اسے کبھی سمجھا نہ پاؤنگا۔

    دھیرے دھیرے میں اسے بھول گیا۔ اس بار میں نے ریل ابا کے گھر جانے کی ٹرین پکڑی تو نہ صرف اکیلا تھا بلکہ میں بہت حد تک بدل چکا تھا۔

    اپنا سوٹ کیس اٹھائے میں ریل ابا کے کوارٹر کے اندر داخل ہوا تو میں نے جھجکتے ہوئے انگورا کی طرف دیکھا جو دوسرے کمرے میں اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ وہ اس دوران کچھ اور موٹی ہو گئی تھی اور میری طرف نہیں تاک رہی تھی۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور مجھے لگا اس کی آنکھوں میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ یقیناً اسی دوران اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا تھا کہ میں اس کے لئے بےمعنی ہو چکا تھا۔ مجھے اس کا بہت دکھ ہوا۔ میں بڑی امیدوں کے ساتھ آیا تھا۔ ان کچھ مہینوں میں میں نے بہت ساری نئی اور ممنوعہ باتیں جان لی تھیں اور اسے حیران کر دینا چاہتا تھا۔ مگر یہاں تو سارے دروازے بند پڑے تھے۔ اس پر صرف انگورا کے اندر کی غیر متوقع تبدیلی میرے لئے ایک مسئلہ نہیں تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ مایوس کن ایک اور واقعہ میرا منتظر تھا۔

    وہ ریلوے کا کنواں جس میں سانپ کلبلاتے تھے، جو اب میرے خوابوں میں بھی آنے لگا تھا، ویران پڑا تھا۔ اس کے پیندے میں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں نے سر اندر لے جا کر اپنی آنکھوں کو حتی المقدور بڑی کر کے دیکھا، اس کے سارے سانپ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔

    ’’یہ کوئی کنواں نہیں ہے بر خوردار، بلکہ لوہے کا ایک بڑا ٹینک ہے جو زمین میں اندر تک گڑا ہوا ہے۔‘‘ گھر لوٹنے پر ریل ابا نے مجھے بتایا۔ وہ ہمیشہ کی طرح نشے میں تھے اور اپنا سامان لکڑی کے ایک بکس کے اندر رکھ رہے تھے جس کا نیلا رنگ کب کا اڑ چکا تھا۔ سورج ڈوبتے ہی وہ اپنی ٹرین لے کر اڑیسہ کے پہاڑوں کی طرف جانے والے تھے۔’’ وہ آخری اسٹیم انجن جو ادھر چلا کرتا تھا، اب ہٹا لیا گیا ہے۔ اسے تم اسٹیشن کے باہر دیکھ سکتے ہو جہاں اسے لوگوں کی نمائش کے لئے ایک چبوترے پر رکھ دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اب اس ٹینک کا کوئی مصرف نہیں رہا۔ اس کنواں میں ویسے بھی پانی بہت کم ہو گیا تھا اور گزشتہ کئی برسوں سے بارش لگاتار کم ہونے کے سبب اب تو وہ تالاب بھی سوکھ چکا ہے جس کا پانی پائپ کے ذریعے اس کے اندر لایا جاتا تھا۔‘‘

    ’’اور اس کے سانپ؟‘‘

    ’’یہاں کی جان لیوا گرمی کا تو تمہیں پتہ ہے۔ پیندا سوکھ جانے کے سبب ان لوگوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ جو زندہ بچے انھیں چیل اور پہاڑی کوے اٹھا کر لے گئے۔ تم ایک مہینہ پہلے تک ان میں سے کئی کو پیندے میں کلبلاتے دیکھ سکتے تھے اور ان مارخوروں کو بھی جو کنویں پر منڈلایا کرتے اور موقع ملتے ہی اندر غوطہ لگا کر کسی ادھ مرے سانپ کو پنجوں میں دبا کر نکل آتے۔‘‘

    یہ گویا انگورا کی طرح کا ہی واقعہ تھا۔ صرف میرے پنجے میں وہ آنے سے رہ گئی تھی۔

    انگورا کے سلسلے میں میرا اندازہ غلط ثابت نہ ہوا۔ بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ وہ ایک لڑکے سے ریل کی پٹریو ں سے کچھ دور سال کے ایک جنگل کے باہر ملا کرتی ہے جہاں کھیت کی منڈیروں پر کاش کے پھولوں کے قدِ آدم پودے لہلہایا کرتے۔ وہ لڑکا ملٹری چھاؤنی سے خریدی گئی اپنی سرخ رنگ کی بلٹ موٹر سائکل پر آتا اور دونوں سگنل مین کے ایک کنڈم گھر کے برامدے پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے۔ ایک بار انھوں نے مجھے دیکھ بھی لیا مگر اس طرح نظر انداز کر دیا جیسے میں ان کے لئے کوئی خاص واقعہ نہ تھا۔

    ’’وہ لڑکا تمہیں پسند ہے؟‘‘ دوسرے دن اکیلا پا کر میں نے انگورا سے دریافت کیا۔

    ’’کیا تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ یہ سوال کر سکو؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اب میں اس دنیا کو زیادہ جان گیا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے باپ کی ایک دوسری عورت بھی تھی۔‘‘

    ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ اس نے لا پرواہی سے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’اب وہ میری ماں کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتے۔‘‘

    ’’تم یہ یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟ ریل ابّا تو زیادہ تر اپنے انجن کے ساتھ باہر رہا کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب وہ پہلوانی نہیں کرتے، مگر اب بھی ایک ہٹے کٹے انسان ہیں۔ جب کہ تمہاری ماں بوڑھی ہو چکی ہے۔‘‘

    ’’اپنی چاچی کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے تمہیں شرم نہیں آتی؟ اور تم کیا چاہتے ہو کہ میں اس دوسری عورت کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی صحت خراب کر لوں؟‘‘ اس نے بپھر کر کہا۔

    ’’میں تمہاری جگہ ہوتا تو اس عورت کو ڈھونڈ نکالتا۔‘‘

    ’’پھر اس کا کیا کرتے؟‘‘

    ’’انگورا، تم یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ یہاں کچھ کرنے کرانے کی بات کہاں سے آ گئی؟ یہ تو ایک اولاد کے لئے فطری بات ہے۔‘‘

    ’’شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ویسے اب تم نے پوچھ لیا ہے تو میں بتا دوں میں اس لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی ہوں۔‘‘

    ’’ریل ابا کو بتا کیوں نہیں دیتیں۔ شاید وہ تم دونوں کی شادی کرا دیں۔‘‘

    ’’وہ ایسا کبھی نہیں کرینگے۔‘‘ انگورا نے میری آنکھوں کے اندر تاکتے ہوئے کہا جیسے مجھے اندر سے ٹٹول کر دیکھ رہی ہوکہ میں بھروسے کے لائق ہوں کہ نہیں۔ ’’اس پر کئی خون کے الزام ہیں۔ پولس ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتی ہے۔‘‘

    ’’اور اس کے باوجود تم اس سے ملتی رہتی ہو۔‘‘

    ’’میں ملتی تو ہوں اور یاد رکھو میں ایک ایسے باپ کی بیٹی ہوں جس کے بازو پر اس کی رکھیل کا نام گدا ہوا ہے۔‘‘

    ہمیں انگورا کی ماں برقع میں دکھائی دی۔ وہ اپنی منجھلی بیٹی کے ساتھ ریلوے مارکیٹ سے کچھ سامان خرید کر رکشا پر گھر لوٹ رہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے کاش کے لہراتے پھولوں کے اوپر صرف رکشے کا ہڈ رہ گیا جو زمین نا ہموار ہونے کے سبب بری طرح ڈگمگا رہا تھا۔ ہڈ کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی انگورا نے سراٹھا کر میری طرف دیکھا۔ ’’تمہیں اس کنویں کے لئے دکھ ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اور مجھے اس کا بھی دکھ ہے کہ دھواں اگلتا وہ انجن اب محض ایک نمائش کی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ میرا سارا بچپن اس اسٹیم انجن کو پینٹ کرتے گزرا ہے۔ میں ریل کی پٹریوں پر ہمیشہ دھواں اگلتے اس انجن کو تلاش کرونگا۔‘‘

    ’’اور کوئی دکھ؟‘‘

    ’’مجھے تمہارے لئے دکھ ہے۔میں ابھی سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن تم اس موٹر سائکل پر بیٹھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو جانے والی ہو۔‘‘

    وہ اپنے چمکدار دانتوں سے ہنس پڑی۔ ’’سب ٹھیک کہتے ہیں کہ تم ایک بڑے نوٹنکی باز ہو۔‘‘

    اس کے بعد ہم کئی بار وہاں گئے، مگر آخری باروہاں سے واپس لوٹنے کے بعد جانے کیا ہوا کہ ابا نے ریل ابّاکے پاس جانا بند کر دیا۔ اسکول کی چھٹیوں پر میں جب بھی اس کا ذکر کرتا تو وہ خاموشی سے ٹال جاتے اور اس طرح دو سال کا عرصہ گذر گیا جب ایک دن ہمیں انگورا پر جن کے سوار ہونے کی اطلاع ملی۔ تب تک عاملوں اور فقیروں کے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے سبب اس پر سے سایہ اتر چکا تھا۔ یوں یہ اطلاع ہمیں بہت دیر سے ملی تھی مگر یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ رشتے داری کی خاطر ابا وہاں جانے پر مجبور ہو گئے۔

    میں انگورا کو ایک لمبے عرصے کے بعد دیکھ رہا تھا۔ وہ کافی لمبی ہو گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے اور وہ زیادہ تر وقت بغیر ہلے ڈولے چارپائی پر بیٹھی باہر صحن کی طرف تاکتی رہتی جو کوئلوں کے ڈھیر کے سبب سیاہ ہو رہا تھا۔ یہ کوئلے ٹرین سے کوئلہ چرانے والے مفت گھر پہنچا جاتے۔

    ’’تمہیں جلد سے جلد انگورا کی شادی کر دینی چاہئے۔‘‘ ابا نے ریل ابّا کو مشورہ دیا۔ ’’اور تم اس عورت کا پیچھا چھوڑو۔ میں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں۔ تمہاری لڑکیاں اب بڑی ہو چکی ہیں۔ میں نے سنا ہے اس سے تمہارا ایک لڑکا بھی ہے۔‘‘

    ’’قسم ہے معبود پاک کی جو میں نے پچھلے دس برس سے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو اور اس لڑکے کی پیدائش کا واقعہ تو سراسر افواہ ہے۔‘‘

    ابا کو معلوم تھا وہ جھوٹ کہہ رہے تھے۔ مگر ابا صرف اسی حد تک جانے کے عادی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا میں اچھا بننے کا پہلا حق اسی انسان کو ہے جو برا ہے۔ میں انگورا کے سامنے بیٹھا اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی ماں زمین پر بیٹھی ایک سڑے گلے لحاف کو کھول رہی تھی جس کے روؤں میں گٹھے پڑ گئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح وہ ایک ایسی عورت نظر آرہی تھی جس کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا۔

    ’’تم پر کوئی جن کیسے سوار ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے انگورا سے پوچھا۔ ’’بات کیا ہے؟‘‘

    ’’تم جنات کا مذاق نہ اڑایا کرو۔‘‘ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے اس کی کسی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہو۔’’وہ ہمارے آس پاس ہی گھومتے رہتے ہیں، کبھی کبھی جاندار کی شکل میں کبھی جانور کی شکل میں۔ تم مسلمان ہو کہ نہیں۔ ان کے سلسلے میں اپنا رویہ درست کر لو۔‘‘

    ’’تم انھیں دیکھ سکتی ہو؟‘‘ میں اس کی فصیح گفتگو سے حیران تھا۔ کیا واقعی کسی آسیب نے اس پر سایہ کر رکھا تھا؟ کیا اس نے یہ سب کچھ اسی سے سیکھا تھا؟ انگورا ایک ٹک میری آنکھوں کے اندر دیکھا کی۔

    ’’آخر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘ اس نے تھکی ہوئی آواز کے ساتھ کہا۔ پھر اپنی ماں سے مخاطب ہو کر بولی۔ ’’ماں، تم اسے سمجھاتی کیوں نہیں؟‘‘

    ’’آپ انگورا کو باہر کہیں ٹہلانے کیوں نہیں لے جاتے میاں۔‘‘ چاچی نے سر اٹھائے بغیر کہا۔ وہ روئی کے گٹھوں سے نکل نکل کر تیزی سے بھا گتے کھٹملوں کو سمنٹ کے فرش پر مسلتی جا رہی تھی۔ ’’اس نے تو گھر سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘

    ’’میں کہیں نہیں جانے والی۔‘‘انگورا بولی اور چپ ہو رہی۔ میں انتظار کرتا رہا اور اس کی ماں اپنا کام ختم کر کے جیسے ہی سامان سمیٹ کر دوسرے کمرے کی طرف گئی میں نے سرگوشی میں اس لڑکے کا ذکر کیا جس سے وہ سگنل مین کے کوارٹر میں ملا کرتی تھی۔

    ’’وہ پچھلے نو مہینے سے غائب ہے۔‘‘انگورا نے سر جھکا کر جواب دیا۔ ’’میں نے سنا ہے اس کا خون ہو چکا ہے۔ مگر یہ واقعہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔ تم میرے لئے صحیح خبر لا سکتے ہو؟‘‘

    ’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ واقعات ہمیشہ ایسے ہی اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔‘‘ میں نے کافی خود اعتمادی کے ساتھ فیصلہ سنایا اور کوارٹر کے پیچھے کے دروازے سے باہر نکل آیا۔ یہاں کوارٹروں کے درمیان کوئی راستہ نہ تھا صرف کھلی جگہیں تھیں جہاں جگہ جگہ کوڑوں کا انبار تھا یا کنکریٹ کے ٹوٹے پھوٹے نالے جن کا غلیظ پانی نالے کے خاتموں پر ملک کے نقشوں کی طرح رکا پڑا تھا۔ ان کوڑوں کے ڈھیر اور غلیظ نالوں کو پھلانگتے ہوئے میں ان کے حصار سے باہر نکل آیا اور ایک کچے راستے پر چلنے لگا جو بتدریج نیچے ہوتے ہوئے نشیب میں جاکر ایک لیول کراسنگ سے گذر کردوسری طرف چلا گیا تھا۔ پٹریوں کے کنارے کنارے میرا رخ اس جنگل کی طرف تھا جس کے باہر کھیت کی منڈیروں پر کاش کے سفید پھول لہلہا یا کرتے۔ مگر یہ کاش کے پھولوں کا موسم نہیں تھا۔ کھیت ننگے پڑے تھے۔ آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ راستے میں جو پیڑ آ رہے تھے ان کے پتوں پر زرد و سرخ رنگ چڑھنے لگے تھے۔ہوا کے جھونکوں کے سبب شاخوں سے تیزی سے پتے جھڑ رہے تھے۔ پت جھڑ کی مار جھیلتے ان درختوں سے میں بہت دور نکل آیا تھا اور ایک جگہ جہاں کنکریٹ کے ایک چبوترے کے نیچے پانی بہہ رہا تھا، کھڑا پتھر کے ٹکڑوں کے اوپر بچھی ریل کی پٹریوں کی طرف تاک رہا تھا جس سے تھوڑی دوری پر سگنل مین کا متروک کوارٹر تھا۔ میں نے دیکھا، اس کی کھڑکیاں اور دروازے نکال لئے گئے تھے اور اس کی ڈھلواں چھت کے اندر ایک بڑا سا سوراخ بن گیا تھا جس سے سفید آسمان نظر آ رہا تھا۔ اس کوارٹر کی طرف تاکتے ہوئے جانے کیوں مجھے اس کا یقین ہو گیا کہ انگورا ضرور میرے پیچھے پیچھے اس جگہ آئےگی۔

    اور ایسا ہی ہوا۔ پانچ منٹ سے زیادہ نہ گذرے ہونگے جب مجھے انگورا دکھائی دی۔ وہ مجھ سے بیس ہاتھ کے فاصلے پر رک گئی تھی جیسے نئے سرے سے میرے بارے میں سوچ رہی ہو۔ اس کے پیر ٹخنوں تک گھاس کے اندر چھپے ہوئے تھے۔

    ’’تم اس طرح دور کھڑی میری طرف کیوں تاک رہی ہو؟‘‘میں نے اپنی آواز تھوڑی سی اونچی کرکے اس سے دریافت کیا۔

    وہ برامدے کے پاس آکر کھڑی ہو گئی اور اپنے داہنے پیر کی ہوائی چپل اتار کر پیر کے تلوے کو برامدے کے زینے پر رگڑ نے لگی۔ شاید اس نے کسی غلیظ چیز کے اندر پاؤں ڈال دیا تھا۔

    ’’تم اس جگہ کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیر دریافت کیا۔

    ’’مجھے یہ جگہ پسند ہے۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا۔ ’’یا شاید میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم دونوں کی ملاقات کے خاتمے کے بعد یہ جگہ کیسی لگ رہی ہوگی۔‘‘

    ’’کمینے! میں اچھی طرح جانتی ہوں تمہارے دماغ میں کیا ہے۔تم میرے ساتھ آؤ!‘‘ اس نے ہوائی چپل واپس پہن کر کوارٹر کے عقب میں نصف فرلانگ دور واقع جنگل کی طرف اشارا کیا اور کھیت کی منڈیروں پر احتیاط کے ساتھ قدم رکھتے ہوئے جنگل کی طرف چلی گئی۔ اس نے پلٹ کر ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا تھا یا شاید منڈیریں اتنی پتلی تھیں کہ ان پر چلتے ہوئے مڑ کرپیچھے دیکھنا ممکن نہ تھا۔میں نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔ اس کے سڈول کولھوں کو جمپر پر خطوط بناتے دیکھ کر پہلی بار کسی جوان لڑکی کی قربت کے احساس سے میرے بدن میں چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔

    پیڑ کے تنوں کے درمیان ناہموار زمین پر اگی جھاڑیوں سے بچتے ہوئے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ پیڑوں کے درمیان کا فاصلہ دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا تھا۔جہاں جڑیں زمین سے باہر نکل آئی تھیں وہاں کی زمین پتوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ مجھے بہت زیادہ اندر جانا نہیں پڑا۔ شاخوں سے اترتی دھوپ کے نیزوں کے درمیان میں نے انگورا کو دیکھ لیا۔ وہ ساگوان کے ایک پیڑ کے تنے سے کان لگائے کھڑی تھی۔ یہ پیڑ بہت پرانا نہیں تھا۔ اس کے پتے کافی چکنے اور چمکدار تھے۔ اس کے قریب پہنچ کر میں رک گیا۔ انگورا کو میری موجودگی کا احساس تک نہ تھا۔ آخر کار مجھے پہل کرنی پڑی۔

    ’’تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘

    اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ میرے خدا، میں ان آنکھوں کو زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ وہ انگورا کی آنکھیں یقیناًنہیں تھیں۔ وہ ایک ایسی لڑکی کی آنکھیں تھیں جسے میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔

    ’’تم میری طرح کسی پیڑ سے کان لگا کر سنتے کیوں نہیں؟‘‘ انگورا نے اپنی انگلی سے میری داہنی جانب کے پیڑ کے تنے کی طرف اشارا کیا جس پر دیمک کی مٹی کی لہر دار لکیریں کسی حالیہ بارش کے سبب پگھل کر دھندلی پڑگئی تھیں۔ میں نے مڑ کر انگورا پر نظر ڈالی۔ وہ ایک بار پھر اپنا کان پیڑ کے تنے سے لگائے آنکھیں بند کئے کھڑی تھی۔ میرا پیڑ کافی بوڑھا اور نیم مردہ تھا۔ اس کے کھردرے اور گانٹھ دار تنے پر سرخ و سفید چیونٹیاں چل رہی تھیں۔میں نے اپنی ہتھیلی سے ایک جگہ کو صاف کیا اور اپنا بایاں کان احتیاط کے ساتھ اس جگہ ٹکا دیا۔ مجھے سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے جو پیڑ کی پھننگوں سے بہہ کر نیچے کی طرف آ رہی تھی اور جس میں چڑیوں کی بالکل دھیمی چہچہاہٹ شامل تھی کچھ بھی سنائی نہ دیا۔

    ’’ایسے نہیں بیوقوف۔‘‘ انگورا کی آواز آئی۔ ’’اپنا کان اچھی طرح سے تنا پر دباؤ۔ تمہیں تو کوئی کام صحیح ڈھنگ سے کرنا بھی نہیں آتا۔‘‘

    میں نے اپنا کان پوری طاقت کے ساتھ تنا پر دبا دیا۔ درخت کی مردہ چھال کی چبھن ناقبلِ برداشت تھی، مگر میں خود کو زیادہ بیوقوف بنتے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اور تب وہ عجیب واقعہ ہوا۔ مجھے دھیرے دھیرے کچھ آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پہلے تو بہت ہی مدھم، کبھی کبھار بالکل غائب ہوتی ہوئی اور پھر بتدریج تیز ہوتی ہوئی آوازیں جو تنے کے اندر سے آ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین کے اندر ہزاروں عورتیں بچے چلا چلا کر باتیں کر رہے ہوں، ایک دوسرے کو پکار رہے ہوں۔ میں نے ڈر کر اپنا کان ہٹا لیا۔

    ’’تمہیں آوازیں سنائی دیں؟‘‘ انگورا میرے بالکل سامنے کھڑی تھی۔

    ’’یہ سب کیا ہے انگورا؟ یہ آوازیں کیسی تھیں؟‘‘

    ’’ابھی تم نے پورا سنا کہاں ہے۔‘‘ اور اس نے میرے پیڑ کے تنے سے اپنا دوسرا کان لگا دیا۔ میں نے دوبارا اس کی تقلید کی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اب وہ آوازیں،صاف سنائی دے رہی تھیں۔ میں اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے انگورا کی بند آنکھوں کی طرف تاک رہا تھا۔

    ’’انگورا، کیا یہ واقعی انسانی آوازیں ہیں یا ہمارا وہم ہے؟‘‘

    ’’تم ہی بتاؤ۔ تمہیں تو سایوں پر یقین نہیں ہے نا؟‘‘ انگورا نے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں۔

    ’’نہیں، مجھے پتہ ہے یہ کوئی جنات ونات کا چکر نہیں۔‘‘ میں نے اس پیڑ سے الگ ہٹ کر ایک دوسرے پیڑ کے تنے سے کان لگاتے ہوئے کہا۔ اس پیڑ سے بھی وہی آوازیں آ رہی تھیں اور اب یہ آوازیں بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں گرچہ وہ تھوڑی سی بدل گئی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سینکڑوں ہزاروں عورتیں اور بچے سینہ پیٹ رہے ہوں،بین کر رہے ہوں۔ نوحہ و ماتم کی ان آوازوں کو سننے کے لئے اب کوئی کوشش نہیں کرنی پڑ رہی تھی۔ انھیں میرے کانوں کا راستہ مل گیا تھا۔

    ’’زمین کا ماتم۔۔۔‘‘ انگورا کی آوازآئی ۔’’ان انسانی آوازوں کو تم اور کیا کہوگے جو زمین کے اندر سے آ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ میرا سینہ کانپ رہا تھا۔ انگورا کی موجودگی کے باوجود یا شاید اسی کے سبب جنگل کی تنہائی کا احساس میرے اندر اور گہرا ہو گیا تھا۔ نہ صرف میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے بلکہ مجھے زمین پر پاؤں رکھتے ہول آ رہا تھا۔ ہر قدم پر مجھے ایسالگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی کچھ انسانی ہاتھ زمین کے اندر سے نکل کر میرے پیر تھام لیں گے۔

    ’’اب بتاؤ، تم انھیں کیا کہوگے‘‘ انگورا میرے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ میں اس کی سانسوں کی گرمی اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا۔ میں اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے یکے بعد دیگرے تنوں سے کان لگاتا جا رہا تھا۔

    ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ آخر یہ سب کیا ہے۔‘‘ آخر کار میں ایک جگہ تھم کر انگورا کی طرف تاکنے لگا۔ میرے پیر تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ہر طرف سے یہ دہشتناک آوازیں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔میں وہاں سے فوراً چلا جانا چاہتا تھا۔

    ’’کیا تمہیں نہیں لگتا جس زمین پر تم کھڑے ہو اس کے نیچے سینکڑوں عورتیں بچے ماتم کر رہے ہیں، سینہ پیٹ رہے ہیں۔ یہ بین،یہ سینہ کوبی، تم ان کے بارے میں کیا کہوگے؟یہاں کیا واقعہ پیش آیا ہوگا؟‘‘

    واقعی یہ عجیب تھا۔ زمین کے اندر سے آتیں عورتوں بچوں کی بین کی آوازیں!

    ’’تمہیں یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں‘‘ میں نے کہا کیونکہ اب میں ان آوازوں کو تنوں سے کان لگائے بغیربھی سن رہا تھا ۔’’مجھے ڈر لگ رہا ہے انگورا۔ تم یہاں اکیلے کیسے آیا کرتی ہو۔ چلو یہاں سے۔یہ جگہ ہم انسانوں کے لئے نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا سچ مچ ؟ اور تمہیں کس چیز کا ڈر ہے؟‘‘ انگورا کی ہنسی بہت ہی دہشتناک ہو چلی تھی۔ ’’اور اس زمین سے بھاگ کر کہاں جائیں گے ہم لوگ۔ یہ زمین ہی تو ہمارا مقدر ہے نا؟ شروع سے آج تک اربوں کھربوں لوگ مٹی بن کر اس میں مل چکے ہیں۔ ہم ان سے کہاں تک پیچھا چھڑا سکیں گے۔ ایک دن انھیں کے بیچ تو ہمیں بھی اترنا ہے۔ یہ ماتم کرتے لوگ، کیا یہ کبھی ہماری تمہاری طرح اس زمین پر نہیں چلے ہونگے؟‘‘

    ’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ یہاں سے چلو بھی۔‘‘ اس وقت مجھے اس جنگل سے زیادہ پر اسرار وہ خود نظر آ رہی تھی۔ میرے سامنے کا سارا منظر دھندلا ہو چلا تھا۔ درخت کے پتوں سے کٹ کٹ کر گرتی دھوپ کے سبب ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا جنگل پانی کے اندر تیر رہا ہو۔ جھاڑیوں، گڈھوں اور زمین سے نکلی ہوئی جڑوں کے بیچ اپنے ڈگمگاتے قدموں سے میں جنگل سے باہر کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جگہ جگہ میرے پیر پتوں میں دھنس رہے تھے جن کا احساس مجھے دھنس جانے کے بعد ہو رہا تھا۔ مجھے چلنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ مجھے یقین تھا وہ میرے پیچھے پیچھے آئےگی۔ مگر تھوڑی دور جاکر میں نے محسوس کیا وہ میرے پیچھے نہیں تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ دھند لی روشنی میں تیرتے تنوں کے بیچ پہلے تو وہ نظر نہیں آئی، پھر ایک جگہ دکھائی دے گئی۔ وہ ایک تنے سے لگی کھڑی تھی۔ ایک پیر زمین پر ٹکائے دوسرا پیڑ کے تنے پر رکھ کر وہ پلکیں جھپکائے بغیر میری طرف ایک ٹک تاک رہی تھی۔ ’’ڈرپوک!‘‘ اس نے چلاکر کہا۔ ’’تم تو کسی کام کے نہیں۔‘‘

    وہ تنوں کے پیچھے غائب ہو گئی۔

    میں اس آوازوں والے جنگل سے باہر نکل آیا ہوں اور اب ایک راکھ سے ڈھکے آسمان کے نیچے چل رہا ہوں۔ میں سگنل مین کے کوارٹر کی طرف نہیں جاتا نہ ہی میرا رخ رہائشی کوارٹروں کی طرف ہے جن کی چمنیاں مجھے رہ رہ کر دکھائی دے جاتی ہیں۔ میں پٹریوں کو پھلانگ کر دوسری طرف کی نشیبی زمین پر چڑھنے لگتا ہوں۔ اوپر آکر میں دیکھتا ہوں، اس طرف کی زمین زینے کی شکل میں اونچی ہوتی چلی گئی ہے جن پر گھاس اور جھاڑیوں کا جنگل اگ رہا ہے۔ ایک آدھ جگہ مڑے تڑے تنوں والے پیڑ نیلے آسمان کے نیچے اس طرح کھڑے ہیں جیسے تیز ہواؤں نے انھیں اینٹھ کر چھوڑ دیا ہو۔ ان درختوں پر بس تھوڑے سے ہی پتے بچے ہیں جو ہوا میں بہت ہی خطرناک ڈھنگ سے لرز رہے ہیں، شور مچا رہے ہیں جیسے آخری سانس لے رہے ہوں۔ اس بتدریج اونچی ہوتی ہوئی زمین پر چڑھتے چڑھتے جو کہیں کہیں خطرناک حد تک تنگ ہو گئی تھی، مجھے اسٹیشن کا لوہے کا پل دکھائی دے گیا اور میں اپنی جگہ ٹھہر گیا۔ میں نے پلٹ کر دور چمکتی پٹریوں سے پرے ننگے کھیتوں کے بیچ اس پراسرار جنگل کی طرف دیکھاجہاں میں انگورا کو چھوڑ آیا تھا۔ یہاں سے جنگل کے پیڑ کافی اونچے اور گھنے لگ رہے تھے۔ ان کی پھننگوں میں ذرا سی بھی ہلچل نہیں تھی مگر اتنی دوری کے باوجود وہاں سے رہ رہ کر کسی پہاڑی کوے کی پکار سنائی دے رہی تھی۔ میں ان پہاڑی کووں کو پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ یہ عام کووں کی طرح کبھی مل کر نہیں چلاتے۔

    میں لوہے کے کنویں کی طرف چل پڑتا ہوں۔

    کنواں ہمیشہ کی طرح آج بھی ویران پڑاہے۔ میں اس کی منڈیر کو تھام کر اندر جھانکتا ہوں۔ پانی غائب ہو جانے کے سبب کنواں کافی گہرا اور تاریک نظر آ رہا ہے۔ پیندے کی طرف تاکتے تاکتے مجھے وہاں تھوڑا بہت پانی کا نشان دکھائی دینے لگتا ہے جو شاید کسی حالیہ بارش کا نتیجہ ہو۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ یہ واقعی پانی تھا یا اندر تیرگی نے پانی کی شکل اختیار کر لی تھی کہ مجھے اس سیاہ روشنائی جیسی چیز میں ایک سلوٹ سی جاگتی نظر آئی۔ کوئی چیز وہاں کلبلا رہی تھی۔ ہاں، میں نے اندھیرے سے مانوس ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا، ایک بہت ہی چھوٹے حجم کا سانپ پیندے کے پایاب پانی میں بے چینی سے رینگ رہا تھا۔ میں سر بہت اندر تک ڈالے ہوئے پانی کی بار بار معدوم ہوتی سطح پر اس تاریک لکیر کو بنتے اور مٹتے دیکھ رہا تھا جب مجھے کانوں کو چیر جانے والی ایک سیٹی سنائی دی۔

    میں نے چہرا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔

    ایک چیل اپنے لحیم شحیم پر پھیلائے کافی نیچے اتر آئی تھی اور اس کنویں کو مرکز بنا کر آسمان میں تیزی سے چکر لگا رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے