Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بڈھا کھوسٹ

سعادت حسن منٹو

بڈھا کھوسٹ

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک بوڑھے کرنل کے عشق کی کامرانیوں کی داستان ہے۔ کرنل عثمانی ایک بوڑھا آدمی تھا جسے سلیم جیسا جوان آدمی بڈھا کھوسٹ اور غیر ضروری شے سمجھتا تھا لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کرنل عثمانی اس کی محبوبہ آئرن کا بوسہ لے رہے ہیں تو سلیم کو لگا کہ وہ خود کرنل عثمانی سے زیادہ بڈھا کھوسٹ ہے۔

    یہ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعدکی بات ہے جب میرا عزیز ترین دوست لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیم شیخ (اب) ایران، عراق اور دوسرے محاذوں سے ہوتا ہوا بمبئی پہنچا۔ اس کو اچھی طرح معلوم تھا میرا فلیٹ کہاں ہے۔ ہم میں گاہے گاہے خط و کتابت بھی ہوتی رہتی تھی لیکن اس سے کچھ مزا نہیں آتا تھا اس لیے کہ ہر خط سنسر ہوتا ہے۔ ادھر سے جائے یا ادھر سے آئے، عجیب مصیبت تھی۔

    مگر اب ان مصیبتوں کا ذکر کیا کرنا، اس کی بمبئی کے بی بی اینڈ سی آئی اے کے ٹرپیسنس پر پوسٹنگ ہوئی۔ اس وقت وہ صرف لیفٹیننٹ تھا۔ ہم دونوں وسیع و عریض ریلوے اسٹیشن کے بوفے میں بیٹھ گئے اور دوپہر کے بارہ ایک بجے تک ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر پیتے رہے۔ اس نے اس دوران میں مجھے کئی کہانیاں سنائیں جن میں سے ایک خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

    اس نے ایران، عراق اور خدا معلوم کن کن ملکوں کے اپنے معاشقے سنائے، میں سنتا رہا، پیشہ ور عاشق تو کالج کے زمانے سے تھا۔ اس کی داستانیں اگر میں سناؤں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ بہر حال آپ کو اتنا بتانا ضروری ہے کہ اسے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا گر معلوم تھا۔

    گورڈن کالج راولپنڈی میں وہ راجہ اندر تھا۔ اس کے دربار میں وہاں کی تمام پریاں مجرا عرض کرتی تھیں۔خوبصورت تھا۔۔۔ کافی خوبصورت مگر اس کا حسن مردانہ حسن تھا۔ پتلی نوکیلی ناک جو یقیناً اپنا کام کر جاتی ہوگی۔ چھوٹی چھوٹی گہرے بھوسلے رنگ کی آنکھیں جو اس کے چہرے پر سج گئی تھیں، بڑی ہوتیں تو شاید اس کے چہرے کی ساری کشش ماری جاتی۔

    وہ کھلنڈرا تھا ۔جس طرح لارڈ بائرن صرف کچھ عرصے کے لیے کسی سے دلچسپی لیتا تھا اور اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا، جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی آئی ہی نہیں۔ اسی طرح کا سلوک وہ اپنے جال میں پھنسی ہوئی لڑکیوں سے کرتا، مجھے اس کا یہ رویہ پسند نہیں تھا کہ یہ میری نظر میں بہت ظالمانہ ہے۔ مگر وہ بے پروا تھا، کہا کرتا، ’’اُلو کے پٹھے۔۔۔ غالبؔ پڑھو وہ کیا کہتا ہے۔ اسے متن یاد کبھی نہیں رہتا تھا مگر اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں ادا کر دیا کرتا۔وہ کہتا ہے، وہی شاخِ طوبیٰ اور جنت میں وہی ایک حور۔۔۔ واللہ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ شہد کی مکھی بنو ،کلی کلی کا رس چوسو۔۔۔ مکھی کسی مصری کی نہ بنو جووہیں چپک کر رہ جائے۔‘‘پھر اس نے اقبال کے ایک شعر کا حوالہ اپنا بیئر کا گلاس خالی کرتے ہوئے دیا، ’’کیا کہا ہے اقبال نے ،

    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

    ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا

    ثابت ہوا کہ تم نہ صرف ناداں ہو بلکہ درجہ اول بناسپتی گھی کی طرح درجہ اول چغد بھی ہو۔۔۔ اب ہٹاؤ اس بکواس کو۔‘‘

    میں نے یہ بکواس اس طرح ہٹائی جس طرح بیرے نے میری بیئر کی خالی بوتل۔

    پیشتر اس کے کہ میں اصل کہانی کی طرف آؤں۔ میں آپ کو شیخ سلیم سے متعلق ایک بہت دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ ہم گورڈن کالج میں بی اے فائنل میں پڑھتے تھے کہ کرسمس کی چھٹیوں میں رکمنی کی شادی کی اڑتی اڑتی افواہ ہمیں ملی۔ یہ رکمنی ہماری ہی کسی کلاس میں پڑھتی تھی اور کچھ عرصہ پہلے بری طرح شیخ سلیم پر فریفتہ تھی۔شکل صورت اس کی واجبی تھی مگر میرا دوست شہد کی مکھی تھا۔ چنانچہ دو مہینے ان کا معاشقہ چلتا رہا، اس کے بعد وہ اس سے بالکل اجنبی ہوگیا۔ جب اس کو بتایا گیا کہ رکمنی جو تمہاری محبوبہ تھی اور جس کی خاطر تم نے اتنے جھگڑے اپنی کلاس کے طالب علموں سے کیے،’’وہ اگر دوسری جگہ بیاہی جائے تو ڈوب مرو۔۔۔ لیکن تم تیرنا جانتے ہو۔۔۔ ڈوبنے کا کام ہم اپنے ذمے لیتے ہیں۔‘‘

    شیخ سلیم کو اس قسم کی باتیں عموماً کھا جاتی تھیں۔ اس نے اپنی مہین مہین مونچھوں کو تاؤ دینے کی کوشش کی اور کہا، ’’اچھا، تم دیکھ لینا کیا ہوگا۔‘‘

    اس کی پارٹی کے ایک قوی ہیکل لڑکے نے پوچھا، ’’کیا ہوگا؟‘‘

    شیخ سلیم نے اس کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا،’’ ہوگا تمہاری ماں کا سر۔۔۔جب شادی کا دن آئے گا، دیکھ لینا۔۔۔ چلو آؤ میرے ساتھ مجھے تم سے چند باتیں کرنی ہیں۔‘‘

    شادی کا دن آگیا۔ بارات جب دولہن والوں کے گھر کے پاس پہنچی تو کوئی شخص سر پر سہرا باندھے بڑے اچھے گھوڑے پر سوار اندر داخل ہوگیا۔ دولہا موٹر میں تھاجس پر پھولوں کا جال بنا ہوا تھا۔

    گھوڑا سوار سہرے سے لدا پھندا شامیانے کے پاس تھا۔ گھوڑاخود دولہا بنا ہوا تھا۔ دولہن کا باپ اور اس کے رشتہ دار آگے بڑھے۔ گھوڑے کا مالک بھاگا بھاگا آگیا تھا۔ اس سہرے سے لدے ہوئے آدمی کو اس جگہ بٹھا دیا گیا، جہاں دولہن کو بھی ساتھ بیٹھنا تھا۔ بیچ میں ہون کنڈ تھا جس میں چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کے ٹکڑے جل رہے تھے۔ انھوں نے ننگے بدن اٹھ کر دلہن کو آشیرواد دیا اور دولہن سے کہا،’’سردار جی دولہن کو جلد بلائیے مہورت ہوگیا ہے ۔‘‘

    فوراً رکمنی پہنچ گئی اور کچھ عرصے کے لیے دولہا کے ساتھ بٹھا دی گئی۔ پنڈت جی نے کچھ پڑھا جس کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا۔۔۔ لیکن ایک دم شادی کے اس جلسے میں ایک ہڑبونگ سی مچ گئی جب کار سے ایک دولہا نکل کر سامنے آگیا اور بلند آواز میں تمام حاضرین کو مخاطب کیا،’’میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔۔۔ میں دعویٰ دائر کروں گا۔‘‘

    وہ دولہا جو ہاتھ پکڑ کر دولہن کو اُٹھا رہا تھا بڑی خوفناک آواز میں چلایا ،’’ابےجا بے، دعوی دائر کرنے کے کچھ لگتے ۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اپنے پھولوں کا گھونگھٹ اٹھا دیا اور ان ہزار کے قریب آدمیوں سے جو شامیانے کے نیچے تھے کچھ کہنا چاہا۔۔۔ مگر قہقہوں کا ایک سمندر موجیں مارنے لگا۔۔۔ دوسری پارٹی کے آدمی بھی ان قہقہوں میں شریک ہوئے کیونکہ جب یہ پھولوں کا پردہ علیحدہ ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ شیخ سلیم ہے۔

    رکمنی بڑی خفیف ہوئی، مگر شیخ سلیم نے بڑی جرأت سے کام لے کر اس سے بلند آواز میں پوچھا،’’ تم اس چغد کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    رکمنی خاموش رہی۔

    ’’اچھا جاؤجہنم میں۔۔۔ لیکن ایک دن نہیں پورے تین مہینے تم ہمیں پوجتی رہی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صحیح دولہا کی طرف بڑھا جس کے منہ سے غصے کے مارے جھاگ نکل رہے تھے آگے بڑھ کر اس نے اپنے سارے ہار اس کے گلے میں ڈال دیے۔۔۔ سب براتی بت بنے بیٹھے تھے۔

    ہنستا، قہقہے لگاتا وہ اپنے گھوڑے پر بڑی صفائی سے سوار ہوا اور ایڑلگا کر کوٹھی سے باہر نکل گیا۔ گھوڑے سے اتر کر (ہم دور نکل گئے تھے، اس لیے کہ میں اس کے پیچھے گھوڑے کی سی تیز رفتاری سے بھاگا تھا ) اس نے میرا کاندھا بڑے زور سے ہلایا ’’کیوں بیٹے! میں نے تم سے کیا کہا تھا اب دیکھ لیا؟‘‘

    ہوا تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر مجھے ڈر تھا کہیں شیخ سلیم گرفتار نہ ہو جائے ۔میں نے اس سے کہا، ’’جو تم نے کیا وہ اور کوئی نہیں کرسکتا، لیکن بھائی میرے کہیں ہنسی میں پھنسی نہ ہو جائے ۔فرض کرو اگر رکمنی کے باپ نے تمھیں گرفتار کرا دیا؟‘‘

    وہ اکڑ کر بولا،’’اس کے باپ کا باپ بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ کون اپنی بیٹی کو عدالت چڑھائے گا ۔۔۔میں تو اسی وقت گرفتار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ لے جائے مجھے تھانے۔۔۔ اس سالی کی ساری پول کھول دوں گا۔۔۔ میرے پاس اس کے درجنوں خطوط پڑے ہیں۔‘‘سارے شہر میں یہی افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ رکمنی کا باپ شیخ سلیم کو ضرور اس کی گستاخی کی سزا دلوائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے مگر کچھ نہ ہوا۔ جب کئی دن گزر گئے تو میرے پاس گاتا ہوا آیا۔

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا

    اب میں اصل کہانی کی طرف پلٹتا ہوں، جو اس واقعے سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ خود اس نے مجھے سنائی جس کی صداقت پر مجھے سو فیصد یقین ہے۔۔۔ اس لیے کہ شیخ سلیم جھوٹا کبھی نہیں تھا۔

    اس نے مجھے بتایا،’’میں ایران میں تھا۔ وہاں کی لڑکیاں عام یورپین لڑکیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ وہی لباس، وہی وضع قطع، البتہ ناک نقشے کے لحاظ سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔ جتنی خرافات وہاں ہوتی ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتی ہے۔ میں نے وہاں کئی شکار کیں۔ وہاں میرے ایک بڑے افسر کرنل عثمانی تھے۔ حالانکہ ان کا عہدہ جیسا کہ ظاہر ہے مجھ سے بہت بڑا تھا۔ لیکن وہ میرے بڑے مہربان تھے۔ میس میں جب بھی مجھے دیکھتے، زور سے پکارتے۔۔۔ ادھر آؤ شیخ، میرے پاس بیٹھو، اور وہ میرے لیے ایک کرسی منگواتے۔ وسکی کا دور چلتا تو ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیتے، کرنل عثمان کو مجھ سے چھیڑ خانی کرنے میں خاص مزا آتا۔ جب وہ کوئی فقرہ مجھ پر چست کرتے تو بہت خوش ہوتے۔کافی معمر آدمی تھے۔ اس کے علاوہ بڑا افسر، میں خاموش رہتا۔۔۔ ان کو ان پولستانی نرسوں سے بڑی دلچسپی تھی جو وہاں ایمبولنس کور میں کام کرتی تھیں۔۔۔ یہ پولستانی لڑکیاں بلا کی تنومند ہوتی ہیں۔۔۔ یہ موٹی موٹی سفید پنڈلیاں،بڑی مضبوط چھاتیاں ،بڑی بڑی اور صحت مند۔کولہے چوڑے اور گوشت سے بھرے ہوئے جن میں سختی ہو۔ لوہے ایسی سختی۔۔۔ میری کئی دوست تھیں،پر جب میں آئرن سے ملا تو سب کو بھول گیا۔ سارے ایران کو بھول گیا۔ بڑی صفتیں تھیں۔ نقش سب چھوٹے چھوٹے تھے۔ اگر تم اس کی چھاتیوں اور پنڈلیوں کو پیشِ نظر رکھتے تو یہی سمجھتے کہ اس کے ہاتھ ڈبل روٹی کے مانند ہوں گے۔ اس کی انگلیاں اتنی موٹی ہوں گی جیسے کسی درخت کی ٹہنی۔۔۔ مگر نہیں دوست، اس کے ہاتھ بڑے نرم و نازک تھے اور اس کی انگلیاں تم یہ سمجھ لو کہ چغتائی کی بنائی تصویروں کی طرح مخروطی لانبی نہیں، مگر پتلی پتلی تھیں۔ میں تو اس پر فریفتہ ہوگیا۔ چند روز کی ملاقاتوں ہی میں اس کے میرے تعلقات بے تکلفی کی حد تک بڑھ گئے۔

    یہاں تک پہنچ کر شیخ رک گیا ۔ایک نیا پیگ گلاس میں ڈالا اور سوڈا ملا کر غٹا غٹ پی گیا،’’ نہ یاد کراؤ یہ قصہ ‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’لیفٹیننٹ صاحب، آپ نے خود ہی تو شروع کیا تھا۔‘‘

    اس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر میری طرف دیکھا اور ایک پیگ اپنے گلاس میں۔۔۔ تین چار پیگ جو بوتل میں باقی بچ گئے تھے انتقاماً میرے گلاس میں ڈالے اور خود سوکھی جسے انگریزی میں نِیٹ کہتے ہیں پی گیا اور کھانس کھانس کر اپنا برا حال کر لیا ،’’لعنت ہو تم پر !‘‘

    ’’یعنی یہ کیا موقعہ تھا مجھ پر لعنت بھیجنے کا۔‘‘

    اس کی کھانسی اب بند ہوگئی تھی اور وہ رومال سے اپنا منہ پونچھ رہا تھا کہ نہ پوچھو میری جان۔۔۔ دوسرے روز رات کو کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔۔۔ انہوں نے بڑے طنز سے کہا کہو صاحبزادے مجھے بڈھا سمجھتے ہو۔۔۔ وہ تم نے ضرب المثل نہیں سنی ۔۔۔نیا ایک دن پرانا سو دن۔۔۔ میں نے ان سے عرض کی کرنل صاحب آپ کا میرا کیا مقابلہ۔۔۔ مگر میں نےدل ہی دل میں سوچا کہ یہ کمبخت اس حقیقت سے اب تک غافل ہے کہ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور عشق فرما رہا ہے۔

    ’’میں تو خدا کی قسم جب اس عمر کو پہنچوں گا تو خودکشی کر لوں گا۔۔۔اس منہ کے ساتھ جس میں آدھے دانت مصنوعی ہیں میری آئرن پر نگاہیں لگائے بیٹھا ہے۔ کرنل ہوگا تو اپنے گھر میں، اس نے کبھی پھر اس کی بات کی تو ایک ایسا گھونسہ جماؤں گا اس کی سوکھی گردن پر کہ منکا باہر آ جائے گا۔ دیر تک اس بڈھے کھوسٹ سے آئرن۔۔۔ نہایت ہی پیاری آئرن کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور وہ طنز کرنے سے باز نہ آیا۔ وسکی کا چوتھا دور چل رہا تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں پر بڑی فرمانبردار قسم کی مسکراہٹ پیدا کی اور اس سے کہا،’’کرنل صاحب جو آپ کو بڈھا کہے وہ خود بڈھا ہے آپ تو ماشاء اللہ دھان پان ہیں۔‘‘

    یہ محفل ختم ہوئی تو میں بہت خوش ہوا۔ آئرن نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ دوسرے روز فلاں ہوٹل میں شام کو سات بجے ملے گی۔ اس میں فوجیوں کو اجازت تھی۔

    اتوار تھا اس لیے میں وردی کے بجائے نہایت اعلیٰ سوٹ پہن کر وہاں پہنچا۔سات بجنے میں ابھی نو منٹ باقی تھے۔ میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو میرے پاؤں وہیں کے وہیں جم گئے۔۔۔ کرنل عثمانی صاحب آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے غافل آئرن کا بڑا لمبا بوسہ لے رہے تھے۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس کرنل سے کہیں زیادہ بڈھا کھوسٹ بن گیا ہوں۔

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    Jameel Gulrays

    Jameel Gulrays

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے