کہانی کی کہانی
ایسے دو لوگوں کی کہانی جو دن بھر شہر میں کام کرنے کے بعد شام ڈھلے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ راستے میں چلتے ہوئے جیسے جیسے اندھیرا بڑھتا جاتا ہے ان میں سے ایک کو ڈر لگنے لگتا ہے۔ ڈر سے بچنے کے لیے وہ اپنے ساتھی سے بات چیت شروع کرتا ہے اور اس کا ساتھی اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو ڈر سے جڑی ہوتی ہے۔
ابھی سورج ڈوبا نہیں تھا، لیکن اس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ آسمان پر بادل پچھم کی طرف سر جھکائے سنہری کرنوں میں مانجے ہوئے پیتل کی طرح چمک رہے تھے۔ ہوا دن بھر کی تھکی ہوئی رک رک کر چل رہی تھی، چڑیاں بسیرے کے لیے اونگھتے ہوئے درختوں پر جمع ہو رہی تھیں۔ بھگوان دین ایک پاسی اور منگل اسی گاؤں کا ایک کرمی شہر سے گھر واپس جا رہے تھے۔ ان کے سامنے سڑک۔۔۔ سفید تاگے کی طرح جس کا سرا کھو گیا ہو، دور تک پڑی دکھائی دیتی تھی۔ سڑک کےدونوں طر ف جیسا کہ ہندوستان میں ہر جگہ پایا جاتا ہے نالے تھے، نالے کے پار کبھی اوسر، کبھی کھیت اور ذرادور درختوں کی آڑ سےجھانکتے ہوے گاؤں یا جھومتے ہوئے آموں کے کنج۔
رات اندھیری ہونے والی تھی اور ان کا گاؤں ابھی بہت دور تھا، اس لیے دونوں قدم بڑھائے چلے جا رہے تھے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد بھگوان دین ٹھہر گیا اور چاروں طرف دیکھ کر کہنے لگا، ’’اب سانجھ ہو گئی، دن دن تو پہنچ نہ پیبا۔ (پائیں گے) آؤ جرا سستائی لیں۔‘‘ سستانے کی ضرورت پر سب سے بڑی دلیل ان کے پاس یہ تھی کہ پسینےمیں نہائے ہوئے تھے اور ہانپ رہے تھے، منگل بھی کافی تھک گیا تھا۔ لیکن وہ بےکار دیر کرنے پر راضی نہ ہو سکا، ’’سستائی کے کاکری ہو، سہج سہج چلے چلو۔ اندھیری رات ماں کا مالوم کا ہوئی جائے۔‘‘
’’ہوئی کا جئی ہے؟ (ہو کیا جائےگا) کون کھجانا لیے جات ہو جو تم کا چورن کا ڈر ہے۔‘‘ بھگوان دین نے کہا اور سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر جاکر بیٹھ گیا۔ منگل نے پورب سے بڑھتے ہوئے اندھیرے کی طرف دیکھا، پھر آگے کی طرف مگر بھگوان دین کے پاس ایک جگہ ڈھونڈھ لی۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، ’’ہم کہن کہ رات اندھیری ہوئی ہے، سڑک جیسی ہے تم آپےجانت ہو کہوں گڈھا ماں پیر پڑگوا تو رات بھر بیٹھ کے کون ٹانگ سینکی (سینکے گا) ہے۔‘‘
’’گڈھے وڈھے کچھونا ہیں ہیں۔ تم یار اندھیارے میں ڈراوت ہو۔‘‘ بھگوان دین نے مسکراکر کہا اور اپنی بات کا اثر معلوم کرنے کے لیے اس نے منگل کی طرف دیکھا۔ منگل نے تیوری چڑھائی اور زمین کو گھورتے ہوئے جواب دیا، ’’تم جیسے پہلوان کے ساتھ بھلاکون ڈرئی ہے تم تو ایک ہاتھ ماں دس چورن کو لٹائی دیو۔‘‘
’’ای میں گسہ (غصہ ہونے) ہوئے کی کون بات ہے۔ ہم تو ایسی ہنسی ماں کہہ دے رہن۔‘‘ بھگوان دین کے لہجے میں اس قدر افسوس اور پشیمانی تھی کہ منگل کی خفگی جاتی رہی لیکن اس نے اسے چھپانے کی کوشش کی اور کہا، ’’جانت ہن تم پاسی جات کے ہو، لاٹھی باندھت ہو مگر دوسرے آدمی کا کھیال تو رکھا کرو۔‘‘ بھگوان دین نے اس کے جواب میں صرف اپنے ماتھے سے پسینہ پوچھا، ٹھنڈی سانس بھری اور ادھر ادھر دیکھنےلگا۔
جب وہ اٹھ کر پھر چلے تو سورج ڈوب چکا تھا۔ پچھم کی طرف کچھ دھندلی سی روشنی کے سوا راستہ دکھانے کے لیے اور کوئی سامان نہ تھا۔ سڑک جیسی خطرناک اور خراب منگل نے بتائی تھی، نہ تھی۔ مگر شام کے وقت راستہ چلنے والے کو ڈرانے کے لیے اگر وہ دل کا کمزور بھی ہو سڑک کے دونوں طرف کے گڑھے کافی تھے اور چھوٹی چھوٹی پلیاں بھی جن میں خواہ مخواہ خیال ہوتا ہے کہ چور چھپے بیٹھے ہیں۔ رفتہ رفتہ جو ذرا سی روشنی تھی، وہ بھی جاتی رہی۔ سڑک بجائے سفید کے مٹیالے رنگ کی ہو گئی۔ گڑھوں میں اندھیرا کالے پانی کی طرح بھر گیا۔ جھاڑیوں اور درختوں نے ایک کالی کملی سی اوڑھ لی۔ درختوں پر چڑیاں چپ چاپ سو رہی تھیں اور سوا منگل اور بھگوان دین کے قدموں کی آہٹ کے ہر طرف ’’گھنی‘‘ خاموشی تھی۔
منگل کے ہاتھ میں لاٹھی تھی اور اتنا روپیہ بھی نہ تھا کہ اسے چوروں کاڈر ہو۔ لیکن اس کی حرکتوں سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے حواس قائم رکھنے کی خاص کوشش کر رہا ہے۔ اگر کبھی اس کا پیر بےاٹکل پڑتا تو وہ کانکھتا یا گالی دیتا اور کسی طرح اپنی جھنجھلاہٹ اور گھبراہٹ ظاہر کرتا۔ اگر کبھی کوئی چیز ہلتی یا چلتی نظر آتی تو وہ کانپ جاتا اور غور سے اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ بھگوان دین نے اس کی کیفیت کو محسوس کیا اور دلاسے کے لیے کہنےلگا۔
’’ہمری سمجھ ماں تو کبھو نہ آوا کہ لوگ بھلا ڈرات کاہے کاہیں۔ جو کہوں جنگل ہوئے، شیر چیتے ہوئیں، سانپ بچھوہوئیں تو باتو (تو ایک بات بھی ہے) ہے۔ ہیاں تو سب آپے آپ ڈرائے جات ہیں۔‘‘ اور یہ دکھانے کے لیے کہ اس کا اشارہ منگل کی طرف نہیں اس نے ایک بات اور جوڑ دی۔ ’’اب ہمرے اپنے گانوں دیکھو۔ کونؤرات کا گھر سے دس کدم باہر ناہیں جات ہے۔ بھلا یو بات کاہے؟‘‘
لیکن منگل نے تقریر کے آخری حصے کا خیال نہیں کیا اور سمجھ گیا کہ بھگوان دین نے سارا حال معلوم کر لیا ہے اور اب اسے اپنی بہادری دکھانا چاہتا ہے۔ بھگوان دین نے اس کی بدگمانی اور بڑھا دی، ’’ہم سے سب ہجار بار کہن رات کاہواں نہ جاؤ۔ دن کے بارہ بجے شہید مروں پر نہ جاؤ، درکھت پر نہ چڑھو، یو نہ کرو، او نہ کرو۔ ہم ایک نہ مانن۔ جو من ماں آوا سوکیا اور ابھی تک دیکھو جندہ ہن۔‘‘
منگل نے اپنی جھنجھلاہٹ دکھانے کے لیے بجائے خود بھگوان دین پر حملہ کرکے اس کی بات کو غلط ثابت کرنا چاہا اور منہ بناکر کہا،’’ہونہہ! یو تو سب ہے مگر گانوں میں پارسال جون موچی مرگوار ہے اوسے پوچھو، سبھے کہن کہ اے راستے پر تم کا وہی بھوت ملی ہے جوں (جس نے) دوئی برس پہلے ایک اہیر کا پیچھا کہس (کیا تھا) رہے۔ ایک نہ سنن آکھر بھوا (ہوا کیا) کا، دوئی دن بیہوس پڑے رہے تیسرے دن ٹھنڈے ہوئی گئے۔‘‘
منگل کے لہجےسے بھگوان دین سمجھ گیا کہ اس نے اس کی بات بری مانی ہے مگر بجائے جواب دینے کے اس نے سمجھانے کی کوشش کی، ’’اب ای کا کوئی کا کرے، جی کا مرنا ہوت ہے اوکے حواس کب ٹھیک رہت ہن۔‘‘
’’ہم تو یو جانت ہن۔۔۔ آدمی کانہ چور ڈرائے سکت ہن، نہ شیر چیتے، نہ بھوت پریت۔۔۔ آدمی کھودے (خود ہی) آپ کا ڈراوا کرت ہے۔۔۔ ہمرے چاچا سناوت رہن۔۔۔‘‘
اور یہاں پر بھگوان دین نے ایک قصہ سنایا جو اس کے چچا کے بچپن کا ایک واقعہ تھا۔ اسی گاؤں میں جاڑے کے موسم میں ایک مرتبہ رات کے وقت کچھ لوگوں نے آگ جلائی تھی اور اس کے چاروں طرف بیٹھے ہاتھ پیر گرم کر رہے تھے۔ ہر طرف سے انھیں اندھیرا گھیرے ہوئے تھا۔ ایسا اندھیرا جس میں ستاروں کی نازک شرمیلی روشنی زمین سے کہیں اوپر ہی رہ جاتی ہے، جیسے تیر گھنے درخت کی شاخوں میں اٹک جاتا ہے۔ مگر یہ اس اندھیرے کا پیٹ بھرنےکے لیے کافی نہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ ایک کالا ہیبت ناک دیو اس بیچاری آگ کو بھی تک رہا ہے، کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے اس کی طرف لپکتا ہےاور اس کی گردن مروڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور آگ ایک سہمی ہوئی چڑیا کی طرح کبھی جھپٹ کر اس کونےمیں پناہ لیتی ہے کبھی اس میں۔
کچھ دیر تک تو لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے لیکن رفتہ رفتہ ان پر بھی اس کا اثر پڑنے لگا اور آخرکار جب اندھیرا حملہ کرتا اور آگ اس سے بچنے کی کوشش کرتی تو ان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ ایک دوسرے سے اور لس کر بیٹھ جاتے۔ گویا انھیں اپنی جان خطرے میں معلوم ہوتی تھی۔ اس وقت انھیں چاہیے تھا کہ کسی طرح کی گفتگو چھیڑیں اور اپنی توجہ دوسری طرف کر لیں۔ مگر جب کھیتی پر رائے زنی ہو چکی تو سب خاموش ہو گیے اور اندھیرے کے خوف کو دور کرنے کے لیے ان کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔ کوئی ایک گھنٹے تک سب سہمے بیٹھے رہے اور کسی کے منہ سے ایک بات نہ نکلی۔ سونے کاوقت بھی آ گیا لیکن آگ کے پاس سے کوئی نہ اٹھا۔
بھگوان دین کا چچا جو اس زمانے میں ایک لڑکا تھا اور اپنے بےتکے پن کے لیے مشہور تھا، سب کے چہروں کو دیکھ کر بول اٹھا، ’’یہ تو جان پڑت ہے، ایسی رات ہوئے جی ماں (جس میں) بھوت پریت مہوون کی طرح درکھت پر سے ٹپکت ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی سب کے سب چلا اٹھے۔ عورتوں نے برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مرد اسے سمجھانے لگے، لیکن جس خیال کو بھگوان دین کے چچا نے ظاہر کیا تھا وہ سب کے دلوں میں موجود تھا۔ بےاختیار سب ڈراؤنے قصے سننے سنانے لگے اور جتنا ان کاڈر بڑھتا تھا اتنے ہی زیادہ شوق سے سب قصہ سنتے۔ ایک پیاس سی سب کو لگ گئی جو پینے سے اور تیز ہوتی تھی۔ ایک نے پاس کے گاؤں کے ایک پہلوان کا قصہ سنایا۔ وہ ایک بہت بہادر آدمی تھا اور بھوت پریت کی کہانیوں پر ہنسا کرتا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ جب وہ ایک باغ سے اندھیری رات کو گزر اتو کسی نے ایک درخت پر سے کہا، ’’اب کی بچا اچھے پھنسیو (پھنسے)۔‘‘
پہلوان سے لوگوں نے کہا تھا کہ بھوت پریت ناک سے بولتے ہیں اور یہ آواز بھی ویسی ہی تھی مگر پہلوان کو پھر بھی یقین نہ آیا وہ سمجھا کہ کوئی اسے ڈرانا چاہتا ہے اور اس نے للکار کر کہا، ’’آؤنکل آؤ۔ دیکھیں تم کا کرلے ہو۔‘‘ اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا، دوسرے دن ایک اہیر نے اسے باغ کے کنارے پر پڑا پایا۔ اس کاچہرہ نیلا ہو گیا تھا۔ آنکھیں باہر گری پڑتی تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اسی کے پاس ایک ٹوٹی لاٹھی بھی پڑی تھی۔
سننے والوں نے ’’دیارے دیارے‘‘ کی صدابلند کی، پیچھے پھر پھر کے دیکھنے لگے۔ ایک کو چھینک آئی تو سب کانپ گئے اور چلااٹھے، مگر یہ قصہ ختم ہوا ہی تھا کہ ایک بڈھا اپنی بیتی ایک کہانی سنانے لگا اور سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ بڈھے کی عمر کوئی ستر سال کی تھی اور وہ بولتے بولتے اکثر کھانسنے کھنکھارنے کے لیے رک جاتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بیان اتنا اچھا تھا کہ سب سانس روکے سنتے رہے۔
بڈھے نے پہلے تو اپنی جوانی کا حال بتایا۔ وہ بہت تیز دوڑا کرتا تھا اور کئی کئی میل ایک ہی رفتار سے جا سکتا تھا۔ آس پاس کے زمینداروں میں وہ ڈاک گاڑی کے نام سے مشہور تھا اور جب کوئی سندیس بہت جلد بھیجنا ہوتا تو وہ اسے بلایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ایسے ہی کسی کام سے رات کو واپس آ رہا تھا۔ اندھیرے میں راستہ بھول گیا اور ایک کنج میں گھس گیا جہاں ایک بھوت رہا کرتا تھا، وہ ایک درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ ایک بارگی اس کی نگاہ اوپر کی طرف اٹھ گئی اور اس نے دو گول گول زرد اور چمکیلی آنکھیں دیکھیں جو اسے گھور رہی تھیں، وہ چاہے جس کی آنکھیں رہی ہوں اس کو معلوم ہو گیا کہ اس پر کوئی جھپٹنے والا ہے اور وہ الٹا بھاگا، جیسے وہ نیچے بھاگ رہا تھا، ویسے ہی کوئی چیز اچکتی پھاندتی ہوئی اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک کھلے میدان میں پہنچ گیا اور اسی وقت کسی نے ناک سے چلاکر کہا، ’’اب کی سارنکل گیو، ئل (مگر) پھر کبھوں آئیو تو گلا گھونٹ دیبا۔‘‘
بڈھا خاموش ہو گیا، اس کے بعد ہی کسی اور نے اپنی کہانی سنائی اور یوں ہی سلسلہ جاری رہا۔ بھوتوں کے ڈرنے سب کو ایسا بدحواس کر دیا تھا کہ وہ آگ میں لکڑی ڈالنا بھول گئے اور جب اس کاخیال آیا تو کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ جاکر ادھر ادھر سے کچھ لکڑیاں بین لائے۔ ایک دوسرے کو للکارتے اور شرم دلاتے رہے لیکن معلوم ہوا کہ سب مجنوں ہیں۔ وہ سب گویا کسی طاقت کے قبضے میں آ گیے تھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ آگ بجھتی گئی، اس کی گرمی کم ہونے لگی تو ایک دوسرے کو دھکے دے کر حلقے سے باہر نکالنے لگے، کچھ لوگ ان دھمکیوں سے بچنے کے لیے ہمت کرکے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپس میں گھر جانے کے مسئلے پر غور کرنے لگے، کوئی اکیلاجانے پر راضی نہیں تھا اور سب کے سب دور دور نہیں تو الگ الگ ضرور رہتے تھے۔ مگر وہ بحث ہی میں مشغول تھے کہ ایک لڑکی کے ماتھے پر ایک سوکھی پتی آکر لگی جسے ہوا کسی طرف سے اڑا لائی تھی، لڑکی چیخ اٹھی۔ جو لوگ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے وہ سب بھاگ کر واپس آ گیے اور سب کے سب پھر آگ کے گرد کھڑے ہو گیے۔ سردی اور ڈر سے کانپ رہے تھے، ہرنوں کے ایک غول کی طرح جسے شکاریوں نے گھیر لیا ہو۔ کوئی ادھر بھاگنے کی صلاح دیتا تھا کوئی ادھر، لیکن دس قدم پر چل کر سب پھر واپس بھاگ جاتے اور پھر ایک ہی جگہ پر جمع ہو جاتے۔
’’اب بتاؤ‘‘ بھگوان دین نے منگل سے پوچھا، ’’ای سب کون بھوت دیکھن رہن؟ سب آپے آپ تو ڈرات رہن۔‘‘
منگل نے باوجود اپنی خفگی کے سارا قصہ بڑے غور سے سنا تھا اور اس کی بھی آخرکار وہی حالت ہو گئی جو قصے میں ان لوگوں کی تھی۔ درخت اسے کالے بھجنگ بھوت معلوم ہونے لگے، جھاڑیاں عجیب عجیب خوفناک جانور بن گئیں، اگر آنکھیں کھولتا تو یہ ا ندیشہ تھا کہ کچھ دکھائی نہ دے، اگر بند کرتا تو ٹھوکر کھانے کے علاوہ یہ ڈر تھا کہ کہیں اس پر کوئی اچانک حملہ نہ کردے۔ اس کی کمر ٹیڑھی ہو گئی، سر چکر کھانے لگا، پیروں میں کپکپی آ گئی، بھگوان دین کی بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اپنے آپ سے یہ پوچھا کہ یہ ڈر کس کا ہے اور کیوں ہے۔ بھگوان دین نے یہ دیکھ کر کہ منگل باتیں نہیں کرنا چاہتا، اپنا مطلب سمجھانے کی اور زیادہ کوشش نہیں کی اور کسی سوچ میں پڑ گیا۔
کچھ دور وہ اسی طرح چلے تھے کہ منگل ایک مرتبہ سہمی ہوئی آواز میں ’’ہائے رے‘‘ چلایا اور اچک کر بھگوان دین کے پیروں کے پاس گر پڑا۔ اس نے اتفاق سے کہیں آنکھیں پوری کھول لیں اور آگے سڑک کے پاس اسے ایک بڑا چتکبرا جانور پچھلے پیروں پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ وہ ایک جھاڑی ہے اور کچھ نہیں، لیکن اندھیرے میں نہ حواس کہنا مانتے ہیں نہ تخیل۔ جب وہ چل کر ذرا اور پاس پہنچا تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ جانور اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ منگل نے پھر اپنے حواس درست کرنے کی کوشش کی، لیکن دماغ میں جو تصویر بننی شروع ہوئی تھی وہ بنتی رہی، آنکھیں اس کی قریب قریب بند تھیں مگر اس پر بھی اسے کوئی دکھائی دیتا تھا۔ اس نےدیکھا کہ جب وہ جانور کے برابر پہنچا تو جانور نے اچانک ایک چھلانگ ماری، منگل اچک کر اپنے آپ کو بچانا چاہتا تھا مگر وہ صرف لڑکھڑاکر بھگوان دین کے پاؤں پر گر گیا۔
بھگوان دین خود گھبرا گیا۔ اس نے جلدی سے منگل کو اٹھاکر کھڑا کیا، اس کے کپڑے جھاڑے اور پوچھا، ’’یو تم کا بھلا ہوئی کا گوا جو آپے آپ گر پڑیو (پڑے)؟‘‘ منگل نے ادھر ادھر غور سے دیکھا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ دراصل سب خیال ہی خیال تھا تو اسے بہت شرمندگی ہوئی اور اپنے اوپر غصہ بھی آیا، مگر بھگوان دین کے سوال کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’بھئی دیکھو‘‘ بھگوان دین نے کچھ انتظار کرکے کہا، ’’تم پھر ایسا کرے ہو تو ہم تم کا چھوڑکے چلے جیبا (جائیں گے)۔ تم تو ہم ہوں کا ڈرائے دے ہو۔‘‘
’’جاؤ چلے جاؤ، تم کاہم کب روکے ہن۔‘‘ منگل نے سوکھے لہجے میں کہا، ’’ہم کا تمرے بنا گھر نہ پہنچ پیبا (پائیں گے)؟‘‘
بھگوان دین کو منگل کی حرکت بہت ناپسند آئی تھی کیونکہ وہ سمجھ گیا کہ منگل آپ ہی آپ ڈر گیا تھا۔ اس کے بعد جب منگل نے بجائے اس کا احسان ماننے کے اور زبان درازی شروع کی تو وہ خفا ہو گیا اور ارادہ کر لیا کہ منگل کو چھوڑ کر آگے نکل جائےگا، لیکن کچھ قدم آگے چلنے کے بعد اسے رحم آ گیا اور اس نے ارادہ بدل دیا، اب منگل کی باری تھی۔
’’جاؤ جاؤ چلے کا ہے ناہیں جات ہو!‘‘ اس نے دانت پیس کر کہا۔ جب اس نے د یکھا کہ بھگوان دین ٹھہر گیا، ’’تم سار بدنام ہم کا کرت ہو اور ڈراوت کھود ہو۔‘‘
بھگوان دین اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، ’’ہم پچاس بار اے سڑک پر گئے ہیں، ہم کا کبھو کچھ نہ دکھائی دیا، نہ ہم کبھوں ڈرائن۔ آج بھگوان جانے ہم کا کا سوجھا جو تم جیسے نامردن کے ساتھ ہوئی لہن (ہو لیے) کاہن تمری بڑھیا کا کھیال آئی جات ہے نہیں تو گردن مروڑ کے تم کا ای نالی ماں پھینک دیتیں۔ تم جیسے نامردے۔‘‘
منگل پہلے تو بھگوان دین کو غور سے دیکھتا رہا، جب بھگوان دین نے گردن مروڑنے کی دھمکی دی تو اس سے نہ رہا گیا اور بھگوان دین نے اپنا جملہ ختم بھی نہ کیا تھا کہ اس نے گھماکر بھگوان دین کے ایک لاٹھی ماری، لاٹھی کنپٹی پر پڑی اور بھگوان دین چکر کھاکر گرپڑا۔ لیکن منگل نے اپنے وار کا نتیجہ نہیں دیکھا، لاٹھی مارتے ہی اس کےکانوں میں شور سا ہونے لگا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہو گیا اور بغیر سوچے سمجھے وہ اس جگہ سے بھاگا۔ جتنا وہ تیز بھاگتا تھا اور جتنی دور وہ نکلتا جاتا تھا اتنا ہی اس میں اس کا احساس بڑھتا جاتا تھا کہ اس کی حرکت کی خبر مشہور ہو گئی ہے۔ زمین، درخت، ہوا سب جان گیے ہیں اور اس کے لیے کوئی بچنے کا طریقہ نہیں۔ کبھی ایک بارگی اسے گڈھا نظر آتا اور جب وہ اسے پھاند کر دوسری طرف پہنچتا تو معلوم ہوتا کہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کبھی اس کے سامنے درخت کادرخت آکر کھڑا ہو جاتا اور جب وہ سمجھتا کہ بس اب ٹکر لگی اور سر پھٹا تو معلوم ہو جاتا تھا کہ سوائے ہوا کے کچھ نہیں۔ کبھی اسے خیال ہوتا کہ درخت، نالے، نالیاں سب اس کے پیچھے دوڑتے آ رہے ہیں۔۔۔ اور سب مل کر اس کا راستہ روک لیں گے۔ درختوں اور نالے نالیوں کی عداوت نے تو اس کے دل میں اتنی وحشت نہیں پیدا کی، لیکن جب اسے ایک بارگی وہ قصے یاد آتے جو بھگوان دین نے اسے سنائے تھے تو اس کی ہمت جواب دے دیتی مگر کیا ہو سکتا تھا۔
منگل بھاگتا رہا۔ کچھ دیر بعد جب اس کا دم ٹوٹ گیا تو اس نے اپنی رفتار کم کی اور اپنے آپ سے پوچھا کہ آخر جا کہاں رہا ہے۔ اتفاق سے وہ سڑک ہی پر جا رہا تھا اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ گاؤں ہی کی طرف جا رہا ہے لیکن اسی پر اسے یاد آ گیا کہ آگے راستے پر درخت بہت گھنے ہیں اور سڑک کے دونوں طرف اونچے اونچے ٹیلے بھی ہیں۔ منگل نے پکا ارادہ کیا کہ اب وہ بےکار کسی چیز سے نہ ڈرےگا، دل میں جو وہم باقی تھا اسے نکالنے کی کوشش کی،مگر دیکھا تو ہاتھ میں لاٹھی نہیں تھی، واپس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔
پہلے تو آہستہ آہستہ چلتا رہا اور اپنے اوپر قابو رکھا۔ لیکن پھر بھی ذرا سی آہٹ ہوتی تو اس کے کان کھڑے ہو جاتے۔ ایک مرتبہ سڑک کے پاس ایک درخت پر کچھ آواز سی ہوئی تو اس نے اپنی چال تیز کر دی۔ پھر یہ سوچ کر کہ اس رفتار سے چلا تو بہت دیر ہو جائےگی، اس نے دوڑنا شروع کر دیا۔ دوڑتے دوڑتے اسے خیال ہوا کہ سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک جانور کھڑا ہے اور اس نے مڑ کر غور سے دیکھا تو واقعی کتے کے قد کا کوئی جانور کھڑا تھا۔ منگل نے فوراً طے کر لیا کہ یہ بھیڑیے کے سوا کچھ نہیں اور پھر اسی طرح سے بدحواس ہوکر بھاگا۔ اگر اس نے اپنے پیچھے نظر ڈالی ہوتی تو اسے معلوم ہو جاتا کہ جیسے وہ ایک طرف کو بھاگا تھا ویسے ہی لومڑی بھی ایک طرف کو بھاگ گئی تھی، لیکن اس میں اب اتنی جرأت کہاں تھی۔
وہ اس قدر تھک گیا تھا کہ بے ہوش ہوکر گرنے والا تھا، مگر آخری وقت اس کو دور سڑک پر ایک لمبا سا جسم پڑا ہوا دکھائی دیا۔ منگل نے دیکھتے ہی پکارنا شروع کیا،’’بھگوان دین! بھگوان دین!!‘‘
اس کے پکارنے سے پاس کے درختوں پر کچھ چڑیاں جاگ اٹھیں اور پر پھٹپھٹانے لگیں۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.