غلامی
کہانی کی کہانی
یہ ایک ریٹائرڈ آدمی کی زندگی کی کہانی ہے۔ پولہو رام اسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر گھر آتا ہے تو اول اول تو اس کی خوب آو بھگت ہوتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے بھجن، گھر کے کاموں میں دخل اندازی کی وجہ سے لڑکے، بہو اور بیوی تک بیزار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن جب وہ پنشن لینے جاتا ہے تو اسے نوٹس بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاک خانہ کو ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت ہے جس کی تنخواہ پچیس روپے ہے۔ پولہو رام یہ ملازمت کر لیتا ہے لیکن کام کے دوران جب اس پر دمہ کا دورہ پڑتا تو لوگ رحم کھاتے ہوئے کہتے, ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کوپنشن دے دیتا؟
آخر تیتیس سال کی طویل ملازمت کے بعد پنشن پاکر پولھو رام گھر پہنچا۔ گھر کے سب چھوٹے بڑے اس کے منتظر تھے اور اس کی بیوی سرسوں کا تیل لیے کھڑی تھی۔کب پولھو رام آئے اور وہ دہلیز پھاندنے سے پہلے چوکھٹ پر تیل گرا دے اور پھر نوبت، اپنے بڑے بیٹے کو اشارہ کرے کہ وہ پھولوں کا ہار اپنے بوڑھے باپ کے گلے میں ڈال دے۔ چنانچہ سرسوں کا تیل گرانے کے بعد ہاروں سے لدے پھندے، پولھو رام کے گلے میں نوبت نے بھی ایک ہار پہنا دیا۔
چوکھٹ پر قدم رکھتے ہوئے پولھو رام سوچ رہا تھا، یہ پھول کتنی دور دور سے آئے ہوں گے اور پھلیرے نے ان سب کو ایک تاگے میں پرو دیا ہو گا اور ان پھولوں کی قسمت میں بدا ہو گا کہ وہ میرے گلے کی زینت ہوں۔ میری عزت افزائی کے لیے یکجا ہوں۔ اور دفتر میں کتنے بابو اکٹھے ہو رہے تھے۔ کوئی میانوالی کا مہتہ تھا ،کو ئی بھمبر کا بٹ۔ گویا دور دور سے آئے ہوئے پھول تھے اور مقدر کے پھلیرے نے انھیں یکجا کر دیا تھا۔ میری زینت کے لیے، میری عزت افزائی کے لیے۔
پولھو رام کا ریٹائر ہونا بھی ایک ڈراما تھا۔ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد جب وہ گھر آنے کے لیے سڑک پر ہو لیا تو اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ سبکدوش ہو چکا ہے اور اس سرمئی سیاہ سڑک پر، جس پر سینکڑوں مرتبہ دفتر کو آیا ہے، اب مہینے میں ایک بار آیا کرے گا۔ پنشن پانے کے لیے۔ فٹ پاتھ پر پاؤں رکھتے ہوئے اس نے پس پشت دفتر کی خوبصورت، گوتھک قوسوں کی طرف دیکھا۔ اسٹیپل میں بڑا کلاک بگڑا ہوا تھا۔ ’’چھی‘‘! پولھو رام نے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’سالا روز ازل ہی سے بگڑا ہوا ہے۔ کبھی ٹھیک نہیں ہوا۔ جب میں نیا نیا ڈاک کے اس محکمہ میں ملازم ہوا، تب بھی ایک گھڑی ساز گھنٹے کی سوئی کو منٹوں کی سوئی سے نجات دلانے کے لیے کلاک تک پہنچنے والی سیڑھی پر رینگ رہا تھا۔‘‘
سیتو نے سوچ میں مستغرق شوہر کے شانے کو چھوتے ہوئے کہا، ’’چھوٹی بہو آئی ہے اور بدھائی دیتی ہے۔‘‘
پولھو رام مسکرایا اور جذبات کی ایک لطیف رَو میں بہہ گیا ’’چھوٹی بہو بدھائی دیتی ہے۔ چھوٹی بہو ہئی بڑی اچھی، دونوں بڑی بہوؤں سے اچھی ہے۔ اس کی رگوں میں شرفا کا خون دوڑتا ہے۔ بڑے بیٹوں کی شادی کے وقت میں اتنا متمول ہی کہاں تھا کہ کول خاندان سے رشتہ کی توقع رکھتا۔‘‘
اور جب سیتو نے پولھو رام کو ہار اتار دینے کے لیے کہا تو پولھو رام گلہری کی سی آواز پیدا کرتے ہوئے ہنسا اور بولا، ’’ہاں، نوبت کی ماں۔۔۔ یہ بھی میری طرح اپنی نوکری سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ہی ہی۔۔۔ گویا انھیں بھی اب پنشن مل جانی چاہیے۔ ہی ہی۔۔۔‘‘
دیے جلنے پر لال چوک کے بہت سے آدمی مبارک باد کے لیے آئے۔ پولھو رام کے ہاں ایک کنواں تھا جس کا آدھا حصہ لال چوک میں کھلتا تھا۔ مسلمانوں اور دلت جاتیوں کے سوا، لوگ اس میں سے باہر ہی سے پانی لے جاتے تھے۔ جب لال چوک کے آدمی آئے تو پولھو رام کنوئیں کے اندرونی منڈیر کے پاس ایک خالی جگہ کو دھوتے ہوئے اس میں ٹھاکروں کو استھاپن کر رہا تھا۔ اب جب کہ وہ نوکری سے فارغ ہو چکا ہے، وہ صبح و شام ٹھاکروں کے سامنے کھڑتالیں بجایا کرے گا اور برہمانند کے بھجن گائے گا۔ تیتیس برس کی طویل ملازمت میں پوجا پاٹ کی فرصت ہی کہاں تھی؟
پھر اس نے لال چوک کے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کسی بڑے سے بڑے صاحب کی دھونس نہیں سہتا تھا۔ ہارڈیکر صاحب سے تو اس کی لڑائی ہی ہو پڑی۔ اکاؤنٹ کا چھوٹا سا معاملہ تھا۔ ان دنوں وہ سلیکشن گریڈ کا پوسٹ ماسٹر تھا اور اس گریڈ کے پوسٹ ماسٹر کی بڑی طاقت ہوتی ہے۔
’’میں نے ہارڈیکر صاحب سے کہا۔‘‘ پولھو رام بڑی تمکنت سے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’کیا آپ اس معاملہ میں دخل دے کر میری طاقتوں کو رد کرسکتے ہیں؟ پہلے تو وہ نہ مانا اور معاملہ پوسٹ ماسٹر جنرل تک جا پہنچا۔ جیت مجھی کو ہونی تھی۔ اس کے بعد وہی صاحب میرے دفتر کے معائنہ کو آیا۔ سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس مخاصمت کی بنا پر صاحب بہت کچھ میرے خلاف لکھے گا جس سے میری پنشن میں فرق پڑ جائے گا اور کیا عجب جو مجھے ڈی گریڈ یا اَن فٹ ہی کر دے۔ لیکن اس نے میری غیر معمولی تعریف کی ۔ جناب یہ انگریز لوگ بہت فراخ دل ہوتے ہیں۔ یہ بہادروں کی قدر کرنا جانتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ پرانے کینہ جھگڑوں کو بھول جاتے ہیں۔ میں نے بچپن میں جغرافیہ یا شاید تاریخ میں پڑھا تھا کہ انگریزی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔ اگرچہ میں اس کا مطلب نہیں جانتا، تاہم میری دعا بھی یہی ہے کہ انگریزی راج میں سورج کبھی غروب نہ ہو ۔ اور دیکھیے ، بخلاف اس کے کہ اگر کہیں دیسی افسر ہوتا تو نہایت کمینگی سے پیش آتا۔ میری زندگی تباہ کر دیتا۔ ایشور کرے ان دیسی لوگوں کا سورج کبھی طلوع نہ ہو!‘‘
شام کو جب پولھو رام کھانا کھا نے کے لیے بیٹھا تو اس کے بیٹے، اس کی بہوویں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ خدا جانے کس نے یہ ذکر چھیڑ دیا۔ غالبا چھوٹی بہو ہی نے چھیڑا ہو گا۔ وہی کول خاندان کی لڑکی تھی۔ اپنی ننھی بچی کو اون کا کوٹ پہناتے ہوئے بولی۔ ’’اور تو اور، میں حیران ہوتی تھی، پتاجی کیسے کڑاکے کی سردی میں سویرے ہی نہا لیتے تھے۔ سال کے تین سو پینسٹھ میں سے ایک بھی تو ناغہ نہ ہوا۔‘‘
پولھو رام انگلیاں چاٹتے ہوئے بولا۔’’میں اپنی نوکری کا بہت پابند تھا بیٹا! اور اس تیتیس سال کے لمبے عرصے میں کوئی ہی ایسا موقع ہو گا جب کہ میں نہایا نہ ہوں اور صبح ہی نہا کر دفتر نہ چلا گیا ہوں۔ میرے سب افسر مجھ سے بہت خوش تھے۔‘‘
دمینتی بہو بھی کوئی بات کرنا چاہتی تھی۔ بولی ’’ہم جوانوں سے تو پتاجی اچھے ہیں۔ دیکھو تو ہم اب بھی کیسے کھا پھوٹ کرپڑی رہتی ہیں۔ آٹھ بجے سے پہلے کروٹ نہیں بدلتیں اور آپ ہیں کہ اولے پڑے پر بھی نہا لیا اور جھٹ سے کام پر بھی چلے گئے۔‘‘
پولھورام دمینتی کو اس کے دیر سے اٹھنے کی عادت پر بہت لعن طعن کیا کرتے تھے، لیکن اس وقت وہ نہاتے ہوئے کوے کی طرح پھول گئے۔ بولے ’’بیٹا! تمھیں کاہے کی پڑی ہے۔ ہمارے جیتے جی خوب ہنسو، کھیلو، سوؤ۔۔۔ جیسے تمھارے ماں باپ میکے میں تھے، ویسے یہاں بھی ہیں۔‘‘
بڑی بہو کی آنکھیں نم ناک ہو گئیں۔ پولھو رام نے پردے کی وجہ سے نہیں دیکھا، لیکن سیتو نے بہو کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں دیکھ لیں۔ کہاں تو وہ بڑی بہو سے لڑتی ہی رہتی تھی، کہاں اس نے برتن مانجھنے چھوڑ کر اپنے راکھ سے آلودہ ہاتھ جھاڑے اور ہاتھوں کو بہو کی کمر میں ڈالتے ہوئے بولی ’’اور تو کیا جھوٹ کہتے ہیں؟ تم کیا جانو ہم تمھیں کتنا پیار کرتے ہیں۔ بس جرا تمھاری جَبان قابو میں ہو جائے نا۔۔۔ نہ جانے اس وقت کیا ہو جاتا ہے تمھیں؟‘‘
دمینتی بڑی شردھا سے بولی ’’میں تو بنتی کرتی ہوں ایشور سے کہ آپ کا سایہ سات جنم تک ہمارے سر پر قائم رہے۔ آپ مارتے ہیں۔ پیار بھی تو کرتے ہیں۔ جو پیار کرے وہ مارے، جھڑکے لاکھ بار ۔۔۔ ‘‘جانے چھوٹی بہو کو رشک آیا۔ بولی، ’’پتا جی نے مجھے پریاگ لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
اب تک پولھو رام بابو، دمینتی کے جذبات کو جان چکے تھے۔ ان کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں، کہنے لگے ’’چھوٹی بہو کو ضرور پریاگ لے جاؤں گا۔ ہاں، نوبت کی ماں! میں نے اس سے وعدہ کیا ہے اور بڑی کو بھی لے چلوں گا اور منجھلی کو بھی۔ پھر کیا تم پیچھے رہ جاؤ گی نوبت کی ماں؟ کھلے موسم میں سبھی کو لے چلوں گا۔‘‘
اور پولھو رام کے لب و لہجے سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ سچ مچ سب کو پریاگ ہی تو لے جائے گا۔ وہ بڑے گھر کی لڑکی اس بات کی حقیقت سے واقف تھی۔ جب وہ نئی نئی بیاہی آئی تھی تب بھی تو پتا جی نے کنگن کا وعدہ کیا تھا اور اب کہاں گیا وہ وعدہ؟
اگلے دن پولھو رام بابو کی آنکھ پانچ بجے کھل گئی۔ اس نے سوچا وہ اتنی جلدی جاگ کر آخر کیا کرے گا؟ اس نے ایک ہاتھ سے رنگپوری چھینٹ کا پردہ اٹھایا اور دریچے کے شیشوں میں لال چوک کی طرف جھانکا۔ کمیٹی کی بتیوں کو بجھانے کے لیے کمیٹی کا ملازم سیڑھی کندھے پر رکھے، آہستہ آہستہ پاٹھ شالا کی طرف جا رہا تھا۔ بتیوں کی بے بضاعت روشنی میں پرے، ایک بھینسا گاڑی اپنی تمام ہندستانی سست رفتاری سے رینگ رہی تھی۔ ان گاڑیوں کے لیے نیومیٹک ٹائر بہم پہنچانے کی قرارداد دو برس سے کمیٹی میں پیش ہو رہی تھی، اس کے باوجود کمیٹی اور بھینسا گاڑی دونوں کی خواہش تھی کہ وہ دن ہونے سے پہلے پہلے شہر پناہ سے باہر ہو جائے۔ پولھو رام نے اپنا سر لحاف میں لپیٹ لیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن نیند نہ آئی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور معمول کی طرح بولا۔ ’’سیتے، اٹھو نا، مجھے چائے بنا دو۔‘‘
سیتو روزمرہ کی طرح چائے بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ لیکن جیسے ہی اس کے پاؤں ٹھنڈی کھڑاؤں میں داخل ہوئے، اسے کچھ یاد آ گیا۔ بولی۔ ’’کدھر جا رہے ہیں آپ؟۔۔۔ کوئی دفتر تو نہیں جانا ہے پڑے رہیے چپکے سے۔‘‘ پولھو رام بابو بولا ۔’’کدھر جا رہا ہوں میں؟۔ ہاہا؟ اری پگلی! سیرکرنے بھی نہ جاؤں؟‘‘
لیکن سیتو نے تو شاید سوچا تھا کہ ان کے پنشن پانے پر وہ بھی صبح کی چائےکے جھنجھٹ سے چھوٹ جائے گی اور اپنی بہوؤں کی طرح بڑے مزے سے اپنے خاوند کے پہلو میں پڑی رہی گی۔ لیکن اس کا یہ خیال غلط نکلا ۔ پنشن تو صرف مردوں کو ملتی ہے۔ کبھی عورت کو بھی پنشن ملی ہے؟ گھر میں تو روز نوکری ہوتی ہے اور روز پنشن ۔ اسے اٹھنے میں بہت دقت پیش نہ آئی۔ پولھو رام نے اسی وقت کپڑے اتارے اور معمول کی طرح جلدی جلدی پانی کے کچھ ڈول نکال کر جسم پر انڈیل لیے۔
چائے پینے کے بعد پولھو رام نے اتنے اونچے سروں میں برہمانند کے بھجن گائے کہ سارا گھر جاگ اٹھا۔ بہوویں بڑبڑانے لگیں اور بچے رونے لگے۔ پاٹھ کے بعد پولھورام سیر کے لیے نکلا۔ ایک دو گھنٹہ تک تو وہ ریواز گارڈن کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ لیکن ریواز گارڈن سے بڑا ڈاک خانہ۔۔۔ اس کا پرانا دفتر دور نہیں تھا۔ پولھو رام کے قدم اسی طرف اٹھ گئے۔ اس کی حالت اسی سانپ کی مانند تھی جو بہت عرصے کینچلی میں زندہ درگور رہ کر جب اپنی کینچلی کو اتار پھینکتا ہے تو بہت دور بھاگ جاتا ہے۔ لیکن پھر ایک بار اسے دیکھنے کے لیے ضرور واپس آتا ہے اور سوچتا ہے اس کمبخت نے مجھے سست بنا رکھا تھا؟ میری بینائی کمزور کر دی تھی ، میں اچھی طرح سے چل بھی نہ سکتا تھا۔ اس کینچلی نے۔۔۔ اس جھلی نے۔۔۔ اس چمکتی ہوئی حقیر جھلی نے۔۔۔
ڈاک خانے کے سامنے پہنچ کر پولھو رام کچھ دیر تک کھڑا رہا۔ اس کے سامنے گاڑیاں سرخ وردی پہنے قطار در قطار کھڑی تھیں اور ان پر نیا پالش کیا ہوا ’’جی۔ آر۔ آئی‘‘ چمک رہا تھا۔ چٹھیوں کے کمرے میں سارٹنگ پوسٹ مین ایک مشین کی سی سرعت سے چٹھیاں دڑبوں میں پھینک رہے تھے۔ پولھو رام نے کہا۔ انہی چٹھیوں نے تو مجھے بھگوان بھلا دیا تھا۔ یہیں مجھے دمہ کی شکایت شروع ہوئی تھی۔ آج میں ایک پرندے کی طرح آزاد و بے نیاز ہوں۔ اسی دفتر میں مَیں صبح تاروں کی چھاؤں میں آتا اور رات تاروں کی چھاؤں میں واپس جاتا تھا۔ درمیان میں دو اڑھائی گھنٹے کی چھٹی ہوتی۔ لیکن وہ بھی ایسی کہ نہ تو دفتر رہ سکوں اور نہ گھر جا سکوں۔ اگر گھر جاتا تو شام کی حاضری سے دیر ہو جاتی اور اگر دفتر ہی رہتا تو بھوکوں مرتا۔ اسی لیے تو میں نے روٹی بھی دفتر ہی لے جانے کا معمول بنا لیا تھا۔ اور شام کے وقت جب کسی بابو کے حساب میں فرق پڑتا تو رات کے دس گیارہ بج جاتے اور پولھو رام ان سب باتوں سے مانوس ہو چکا تھا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کام ختم کرنے کے بعد بھی وہ دفتر کی میز پر ٹانگیں دھرے بیٹھا رہتا۔ اس کا خیال تھا کہ دیر تک کام کرنے والے سے صاحب لوگ بہت خوش رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پرندے سارا دن شہر اور اس کے مضافات میں دانہ دنکا چگنے کے بعد عقل حیوانی سے گھر کی جانب بے تحاشا کھچے جاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن پولھو رام نے اپنے تمام قدرتی احساسات کو غیر قدرتی ضرورتوں کے تابع کر دیا تھا اور اس میں گھر جانے کی قدرتی حس مر چکی تھی۔ جب دفتر کے باقی بابو چلے جاتے اور خاکروب بتیاں بجھانے کے لیے ہال کے دوسرے سرے سے آتا ہوا دکھائی دیتا تو پولھو رام کو محسوس ہوتا کہ وہاں اس کے پڑ رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اب اسے گھر جانے کے سوا چارہ ہی نہیں۔ اس وقت وہ اپنی لوہے کی چھڑی جس پر سے تمام پالش اڑ چکا تھا، تلاش کرتا اور گھر کی سمت چل دیتا اور دفتر سے گھر جانے کی بجائے اسے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر سے دفتر جا رہا ہے۔
میل موٹروں کا اصطبل بہت پرانا ہو چکا تھا اور لمبی لمبی درزیں اصطبل سے ریکارڈ روم تک چلی گئی تھیں۔ پولھو رام نے سوچا، ابھی کل ہی تو اس نے مرمت کے سلسلہ میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر کو چوتھا رمیائنڈر دیا تھا۔ شاید اس کا جواب آ چکا ہو۔ اس کے دل میں اس کیس کا جواب جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہ ایک دو قدم چل کر رک گیا۔ اسے کیا؟۔۔۔ اس کے لیے تو خواہ ایک زلزلہ آ جائے اور سارے کا سارا ریکارڈ روم نیچے آ رہے اور سب ضروری اور غیر ضروری ریکارڈ خراب ہو جائے۔ وہ تو اب اس کینچلی کو اتار چکا تھا۔
پولھو رام نے سوچا، کام کرنے والے کی قدر اس کے بعد ہوتی ہے۔ میں بارہ گھنٹے کی لگاتار نوکری دیتا تھا۔ اب محکمہ کو مجھ ایسا وفا شعار آدمی کہاں ملے گا؟ جب بھی کبھی صاحب آواز دیتا فورا میرا جواب آتا ۔ ’’جی حضور‘‘! اور صاحب مجھ سے کتنا خوش تھا۔ کہتا تھا، پولھو رام کتنا پابند آدمی ہے۔ سب ہندستانیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پابند، ہم نے بہت رات گئے اسے کام کرتے دیکھا ہے۔ اس سے دفتر کی ایفیشنسی (Efficiency) بڑھتا ہے۔ ہم اس کی ایکسلریٹڈ پروموشن کی سپارش کرے گا۔
پولھو رام نے سوچا اب کام کرتے ہوں گے اور اپنی جان کو روتے ہوں گے۔ معا پولھورام کو خیال آیا کہ جس شخص کو اس نے چارج دیا ہے، وہ تو نرا گاؤدی ہے۔ سیکریٹریٹ آفس کے دو کیس ہیں جنھیں میرے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اسے میری ضرورت کس شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہو گی۔ ہولے ہولے پولھو رام اس کمرے کی طرف ہو لیا، جہاں وہ ہر روز بیٹھا کرتا تھا۔
دور کھڑکی میں پولھو رام کو اپنے قائم مقام کا سر نظر آنے لگا۔ وہ کاغذوں پر جھکا ہوا کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کے بعد وہ فورا ہی اٹھا اور کسی ضرورت سے برآمدے کی طرف چلا آیا۔ پولھو رام نے بھاگ جانا چاہا۔ لیکن وہ بھاگ نہ سکا۔
اچانک اس کے قائم مقام کی نظر پولھو رام پر پڑی اور اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو، ہلو پولھو رام جی، کیا حال ہے آپ کا؟‘‘
’’اچھا ہے‘‘ پولھو رام نے جواب دیا۔’’کیسے تشریف لائے آپ؟‘‘
’’یونہی۔۔۔ خط ڈالنے چلا آیا تھا۔‘‘
اس کے بعد وہ بابو ہنسا اور قریب ہی کے ایک کمرے میں گم ہو گیا۔ اس نے فائلوں کے متعلق پولھو رام سے کچھ پوچھا ہی نہیں۔ پولھو رام سخت حیران تھا۔ ’’مجھے کیا؟ میرے لیے اب فائلیں خواہ برس بھر بنا جواب دیئے پڑی رہیں، بچہ جی کو چارج شیٹ لگے گا۔ ترقی رک جائے گی، پھر مزہ آئے گا۔‘‘
پولھو رام کے پاؤں جو کہ سیر کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ اب گھر کی طرف اٹھنے لگے۔ لیکن اسے پھر خیال آیا ، کیا عجب جو بابو کو ان کاغذوں کے متعلق جو کہ میں نے نچلی دراز میں ’خفیہ‘ کا نشان دے کر رکھے تھے، کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ نیکی کر اور کنوئیں میں ڈال۔ اس نے اگر نہیں پوچھا تو میں ہی بتلا دوں۔ آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ وہ میری جان کو دعائیں دے گا اور پولھو رام اپنے قائم مقام کی طنز آمیز مسکراہٹ کو بھول ہی گیا۔
جب ہمت جمع کر کے پولھو رام نے اپنے قائم مقام کو کاغذوں کے متعلق تاکید کی تو اسے پتہ چلا کہ اس نے تمام کاغذ دراز میں سے نکال لیے تھے اور ان کا مناسب جواب بھی دے چکا تھا۔ پولھو رام نے سوچا غلط سلط جواب دے دیا ہو گا اور پھر پولھو رام اپنے قائم مقام کے ہونے والے حشر پر آنسو بہاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔
گھر پہنچتے ہی پولھو رام نے پھر اونچی آواز سے گانا شروع کر دیا اور ہر روز یہی ہوتا رہا۔ بچے پہلے تو ڈر کر اپنی ماؤں کی گودیوں میں چھپ جاتے، پھر اس قسم کی پوجا سے مانوس ہو گئے اور دادا کے ساتھ ہم نوا ہو کر محلہ کو سر پر اٹھانے لگے۔ بہوؤں کو بڑی دقت پیش آتی تھی۔ پہلے وہ گھر میں آزادانہ گھوما کرتی تھیں، لیکن اب انھیں ایک لمبا سا گھونگٹ نکالے اندر باہر جانا پڑتا تھا۔
اور پولھو رام جاتا بھی کہاں؟ گھر کے سوا اس کا ٹھکانا بھی تو کہیں نہ تھا۔ اس کی شہر میں واقفیت تو تھی لیکن ایسی تو کسی کے ساتھ نہ تھی کہ اس کے پاس سارا دن ہی گزار دے۔ کبھی کبھی وہ گھراؤ رام پان فروش کی دکان پر جا بیٹھتا اور محلہ کی بد چلن عورتوں کی باتیں کیا کرتا اور کبھی کھانڈ کی دکان پر کھانڈ کا روز مرہ بدلنے والا بھاؤ پوچھنے چلا جاتا۔ پولھو رام کھانڈ کے نرخ میں اتار چڑھاؤ سے قومی، بلکہ بین الاقوامی حالات کا اندازہ کر لیتا تھا۔ اس کے سوا اور اسے کوئی شغل نہ تھا۔ اس نے چٹھیوں اور منی آرڈروں کے سوا اور سیکھا بھی کیا تھا۔ اس روز مرہ کے شغل پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا اور اگر کہیں اسے اخبار کا پرچہ مل جاتا تو زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی گھنٹے گزر جاتے۔ اس کے بعد گھر جانے کے سوا چارہ ہی نہ تھا اور گھر پہنچتے ہی وہ اپنی دیرینہ عادت کے مطابق ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتا۔ یہ سلائی کی مشین بلا ضرورت بھلا یہاں کیوں پڑی ہے؟ اور یہ تیل کی کپی، اور ابھی تک کسی نے کھانا بھی نہیں پکایا۔ خدا جانے اس گھر میں چار عورتیں کرتی کیا رہتی ہیں اور ان بچوں کا رونا مجھ سے تو دیکھا نہیں جاتا۔۔۔ غرض کہ پولھو رام اتنا چڑچڑا ثابت ہو رہا تھا کہ بہوؤیں تو ایک طرف خود سیتو بھی اسے محسوس کرنے لگی تھی۔
ایک دن پولھو رام دن بھر لڑتا جھگڑتا رہا اور سب کا خیال تھا کہ آج گالی گلوچ ، مار پیٹ ہو کر رہے گی۔ لیکن شام کے قریب نوبت رائے پولھو رام کا بڑا لڑکا آیا تو پولھو رام نے پوچھا۔’’وہ پچیس روپے کا منی آرڈر کروا دیا تم نے؟‘‘
’’کروا دیا پتاجی۔‘‘ نوبت بولا۔
’’کیا فیس دی؟‘‘
’’چھ آنے۔‘‘
’’ہیں!‘‘ پولھو رام نے ایک دفعہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا اور پھر بے تحاشہ ہنسنے لگا۔ ’’ارے نوبت! کتنا بھولا ہے تو، یہ بھی نہیں جانتا۔ پچیس روپے کو چونی کمیشن لگے۔ یہ تو بازار کا ایک گنوار بھی جانے ہے اور تو جو پولھو رام ریٹائرڈ اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کا لڑکا ہے، تجھے اتنا بھی نا مالوم کہ پچیس پر چونی فیس دی جائے۔۔۔ ہاہا۔۔۔ واہ رے واہ۔۔۔ ہاہا۔۔۔‘‘
اور پولھو رام کبھی خفا ہوتا اور کبھی ہنسنے لگتا۔ چھوٹی بہو بھی ہنسی میں شریک ہو گئی۔ بولی۔ ’’میرا جیٹھ تو سچ مچ بھولا مہیش ہے۔ دونی مفت میں زیادہ دے آیا اور اب وہی بھرے دونی۔ ہاں بہن! ہم یہ دونی سانجھے کھاتے میں نہ لکھنے دیں گے۔ دونی کا نمک ہی آ جاتا ہے۔ سارا مہینہ چل جاتا ہے دونی کا نمک۔‘‘
چھوٹی بہو بڑے گھر کی لڑکی تھی نا۔ وہی پولھو رام کے ساتھ ہر بات پر متفق ہوتی تھی۔ دونوں امیر اور فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ پولھو رام نے کہا ’’۔۔۔ ہاہا۔۔۔ پچیس پر چھ آنے فیس دے آیا۔۔۔ ای ہی کھی کھی ۔۔۔ اور نوبت بھی ساتھ مل کر ایک کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگا۔
پلٹتے ہوئے پولھو رام نے پوچھا۔ ’’کون تھا بابو؟‘‘
نوبت رائے نے بڑے لمبے چوڑے طریقے سے بابو کی شکل بیان کی۔۔۔ وہ موٹا تھا۔۔۔ لیکن موٹے تو سب ہی بابو ہوتے ہیں اس کے نتھنے پھولے ہوئے تھے۔ پولھو رام بولا۔ ’’نتھنے تو کئی بابوؤں کے پھولے ہوئے ہیں۔‘‘ اس کی آنکھیں بے تحاشہ تمباکو پینے سے بہت میلی ہو چکی ہیں۔ لیکن آنکھیں تو درجنوں بابوؤں کی میلی ہیں اور آج کل تو ہر ایک بابو بے تحاشہ تمباکو پیتا ہے۔ آخر لنگی سے سمجھ میں آیا کہ بابو روپ کشن نے ہی دونی زیادہ لے لی ہو گی۔ رسید پر بھی تو اسی کے دستخط دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہے ہی پاجی، بڑا کمینہ آدمی ہے، عیاش ہے، فاسق ہے۔ ایک عورت بن بیاہی ڈال رکھی ہے۔ وہ ایسی باتیں نہ کرے تو گزر کیسے ہو اور آخر تان یہاں ٹوٹی۔ ’’ارے! تو اتنے بڑے پوسٹ ماسٹر کا لڑکا ہو کر دونی زیادہ دے آیا ۔‘‘
نوبت اور اس کی بیوی دمینتی شرم سے گردن جھکائے رسوئی میں دبکے رہے ۔ نوبت اپنے گھٹنوں میں سر دیے کچھ سوچتا رہا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ رو دے۔ لیکن وہ اپنی چھوٹی بھاوجوں کے سامنے نہیں روئے گا۔ جب وہ سونے کے لیے جائے گا تو اپنی بیوی کی گود میں سر رکھ بے تحاشا روئےگا اور خوب ہی دل کا بخار نکالے گا۔ اس وقت تو وہ چولھے کے پاس بیٹھا ہوا ایندھن کے چھوٹے چھوٹے تنکے اٹھا اٹھا کر جوالا میں پھینکتا رہا۔
شام کے قریب دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی۔ پولھو رام نے سر باہر نکال کر دیکھا۔ اس کا قائم مقام تھا۔ پولھو رام کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ وہ اسے کچھ کہے بغیر ہی الٹے پاؤں اندر بھاگ آیا۔ سموسے لانے اور چائے بنانے کا حکم دے کر خود بیٹھک میں چلا گیا اور بڑی عزت و تکریم کے ساتھ اپنے قائم مقام کو اندر بٹھایا۔ اس شخص کو کسی کیس میں پولھو رام سے مشورہ لینا تھا۔ پولھو رام نے فورا الماری سے پرانی والیوم 6 نکالی اور اس خاص موضوع پر تمام رول اس کے سامنے رکھ دیے اور پھر وعدہ کیا کہ وہ تمام رات بیٹھ کر ان نکتوں کے مطابق ڈرافٹ تیار کرے گا۔ پھر اس نے بابو روپ کشن کی شکایت کی اور اس کا قائم مقام رخصت ہوا۔
اندر آتے ہی پولھو رام بولا۔’’ وہ سب کہتے ہیں میرے بغیر دفتر چوپٹ ہو رہا ہے۔ یہ بابو بھی میری طرح اڑھائی سو تنخواہ پاتا تھا۔۔۔ ہے، اور مجھ سے مشورے کے لیے اتنی دور سے چلا آیا ہے۔ ایک دن کوئی آدمی ملتان سے میری شہرت سن کر آیا تھا۔ صاحب کہتا تھا مجھے پولھو رام پر ناز ہے اور یہ ہے میرا بیٹا جس نے میرے نام کو لاج لگا دی۔‘‘
اور ریٹائر ہونے کے اس چھ ماہ کے عرصے میں آج شاید پہلا دن تھا، جب کہ پولھو رام مسرور نظر آتا تھا۔ آخر اس کا قائم مقام اتنی دور سے مشورہ لینے کی غرض سے آیا تھا۔ پولھو رام سارا دن گاتا رہا۔ کچے تاگے سے کھچی آئے گی سرکار مری۔ اور اسے خوش دیکھ کر چھوٹی بہو نے اپنے بچے کو پتاجی کی گود میں دھکیل دیا۔
پتاجی بولے۔ ’’چھوٹی بہو کتنی اچھی ہے۔ دیکھو اسے سارے گھر کے لیے دونی کے نمک کا خیال آیا اور تو کنتو، تو بڑی خراب ہے۔ تجھے اپنی بیٹی کے سوا اور کچھ سوجھتا بھی نہیں، اور شانو۔۔۔ شانو ہے بھی تو بہت پیاری۔ بس اسے دیکھتا جائے آدمی۔ دیکھو کیسے آنکھیں موند لیتی ہے۔۔۔ ہات۔۔۔ چھی۔۔۔ اور میں اسے لادوں گا ایک ملائم سی گڑیا اور سیتو! کل میں نے سیف میں دو دھیلے بھی رکھے تھے لانا ذرا وہ۔ ایک منے کو دوں گا اور ایک منی کو۔‘‘ اور چھوٹی بہو مسرت کے احساس سے بولی۔ ’’پتاجی! آپ نے مجھ سے رس گلوں کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
پولھو رام بولے ’’میں جانتا ہوں تو بہت شوقین ہے رس گلوں کی۔ میں ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین روپئے کے رس گلے لاؤں گا اور بڑی بہو کے لیے مالا لاؤں گا اور منجھلی کوئی دوسری ہے، وہ بھی تو اپنی ہی بیٹی ہے نا۔ ایسے ہی جیسے دمینتی میری بیٹی ہے۔‘‘
دمینتی بڑی بہو اپنے شوہر کی دونی کو بھی بھول گئی اور دل میں سوچنے لگی۔ پتاجی بھی ایسے برے کیا ہیں۔ مارتے ہیں تو پیار بھی تو کرتے ہیں، اور نوبت رائے اپنی بیوی کے اس انحراف پر دل ہی دل میں اسے کوسنے لگا۔ پولھورام نے سب سے رس گلوں کا وعدہ کر لیا اور چھوٹی بہو سب کچھ سمجھتی تھی اور کہتی تھی۔ بس رس گلے ہی تو آ جائیں گے۔ کنگن بھی آ گئے، پریاگ بھی ہو آئے۔ نوبت کی ماں سمیت۔۔۔ اور فقط رس گلوں کی کسر ہے۔
پولھورام نے تمام رات جاگ کر ڈرافٹ تیار کیا اور صبح جب وہ دفتر میں پر غرور انداز سے داخل ہوا تو اس کے قائم مقام کے سوا اور کسی نے اس کی پروا نہ کی۔ صاحب بھی تینوں مرتبہ اس کے سلام کا جواب دیے بغیر گزر گیا۔ پھگو خاکروب نے بھی اسے قابل اعتنا نہ سمجھا۔ پولھو رام نے بابو روپ کشن سے دونی مانگی، مگر وہ صاف مکر گیا۔
پولھو رام نے سوچا شاید نوبت نے وہ دونی دمینتی کو کچھ لا دینے کے لیے اڑا لی ہو گی۔ ضرورت تھی تو گدھا صاف مانگ لیتا۔ یہ اچک لینے والی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ خیر، گھر چل کر اس سے پوچھا جائے گا۔ گھر پہنچا تو نوبت موجود نہ تھا۔ پولھو رام اونچے اونچے برہمانند کے بھجن پڑھنے کے بعد گھر کی عورتوں پر برسنے لگا اور ان سب کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ خود بھی تو پولھو رام اس زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ یکم کی صبح کو جب وہ پنشن لینے گیا تو حسب دستور نوٹس بورڈ پڑھنے لگا۔ ڈاک خانے کو شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں ایک اکسٹرا ڈپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے پچیس روپے مع کرایہ مکان اور اسٹیشنری ملتے تھے۔
اس وقت اپنے قائم مقام کی مدد کام آئی اور پولھو رام نے وہ پچیس روپے کی نوکری کر لی۔ اب وہ صبح آٹھ بجے ہی نکل جاتا تھا اور رات کو دیر سے گھر آتا۔ کام کی کثرت سے اس کا دمہ جو کہ معمولی حالت میں تھا، خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ بسا اوقات منی آرڈر بک کرتے ہوئے اسے دورہ پڑتا تو پیسے، بیمے، رسیدیں سب میز پر بکھر جاتیں۔ اس کا منھ سرخ ہو جاتا۔ آنکھیں پتھرا جاتیں اور منھ میں سے کف کے چھینٹے اڑ کر کھڑکی میں سے داخل ہونے والی روشنی کی کرن میں ایک ہیبت ناک قوس قزح کا رنگ بھرتے، منھ ، ناک اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا اور اسی حالت میں پولھو رام کھڑکی کے قریب فرش پر لوٹنے لگتا۔ پبلک کے آدمی کونٹر پر بکھرے ہوئے پیسوں کو اس کے لیے سمیٹتے اور بڑے رحم کی نگاہوں سے اس بوڑھے کی طرف دیکھتے اور کہتے۔ ’’ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کو پنشن دے دیتا؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.