کہانی کی کہانی
’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘
سارا دن یوپی کاٹن ملز کمپنی میں مزدوری کرنے کے بعد جب کلو شام کے سات بجے گھر پہنچا، تو سکھیا بخار میں اسی طرح بے سدھ پڑی تھی جس طرح وہ صبح چھ بجے چھوڑ گیا تھا۔ کلو تھکا ماندہ آیا تھا۔ گھر آکر اور بھی اداس ہو گیا۔ آج پندرہ دن سے یہی ہو رہا تھا۔ کاش سکھیا کو ذرا سا بھی افاقہ ہوتا، تو اس کا مرجھایا ہوا چہرہ شگفتہ ہو جاتا اس کی تکان اتر جاتی۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگتیں لیکن سکھیا آج بھی اپنے پھٹے پرانے کمبلوں میں اس طرح بےہوش پڑی تھی، جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ کلو نے اس کے بدن پر ہاتھ رکھ کر دیکھا، پنڈا الاؤ کی طرح گرم تھا۔ اس نے آہ سرد بھری اور سر جھکا کر زمین پر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی بیوہ بہن ردھیا اپنے سوتے ہوئے لڑکے کو لے کر آئی اور اسے پوال پر لٹا کر بولی، ’’بھیا! آج بھی اسی طرح پڑی رہی ہیں۔ رام جانے کسمت میں کیا لکھا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر ردھیانے ایک پھٹا ہوا میلا سا کمبل اٹھایا اور لڑکے پر ڈال دیا۔
کلو: ’’تم نے دوا تو پلا دی تھی؟‘‘
ردھیا: ’’دوا کہاں ہے؟ وہ تو رات ہی کھتم ہو گئی تھی۔‘‘
کلو: ’’مدا بچن لال کی دکان سے لے آتی، تو تمہارے پاؤں نہ دکھنے لگتے۔ جرا سا تو پھاسلہ ہے۔‘‘
ردھیا اپنے ہاتھ میں پڑے ہوئے چپڑے کے کڑے کی میل کھرچتے ہوئے روکھائی سے بولی، ’’وہ دیتا ہی نہیں۔ کہتا ہے، پہلے ساڑھے گیارہ آنے لاؤ۔ پھر اور ادھار دوں گا۔‘‘
کلو: ’’جرا منت کر دیتی، تو جرور دے دیتا۔ جبان کا برا ہے، من کا برا نہیں۔ اس دن جاکر میں نے اس سے اپنے دکھ، درد کی دو تین باتیں کی تھیں، تو رونے لگ گیا تھا۔ کہتا تھا، پھکر نہ کرو جو جرورت پڑے مجھ سے مانگو۔ پر تم کو کیا؟ اگر کھیال ہو تو بہت کچھ ہو جاتا ہے۔‘‘
ردھیا نے آنکھیں نچا کر جواب دیا، ’’ہم سے تو کھوسامد ہوتی نہیں، تمہاری مہیریا بیمار ہے تم بیسک جا کر پیروں میں گر پڑو۔‘‘
کلو کو یہ بات سن کر آگ سی لگ گئی۔ تڑپ کر بولا، ’’راما کے لئے گڑ لینا ہو، تو لالتا پرساد کی دکان پر جا کر گھنٹوں بیٹھی رہو مگر سکھیا کے لئے دوا لانا ہو تو تمہاری عجت چلی جاتی ہے۔ اتنا بھی کھیال نہیں کہ سارا دن کا رکھنے میں کام کرتا ہے۔ لاؤ جرا کام کر دو! بھائی مجوری کرتا ہے بہن رانی بنی پھرتی ہے۔ پر ٹھیک ہے۔ جو تن لاگے، سو تن جانے بیمار سکھیا ہے۔ تمہیں کیا؟‘‘
اس وقت کلو کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا، جس میں وہ صبح کے وقت ستوا ڈال کر مل کو لے جاتا تھا۔ اس کے گرد ایک بیحد میلا سا کپڑا بندھا تھا۔ کلو اسے کھولنے لگا۔
ردھیا بولی، ’’پرمیسر سے دعا کرو۔ راما بیمار ہو جائے تو تمہارا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔‘‘
کلو ڈبہ کو نے میں رکھنے جا رہا تھا۔ بہن کی بات سن کر وہ وہیں سے لوٹ آیا اور اسی طرح ڈبہ ہاتھ میں لئے بولا، ’’دیکھو رودھیا! سام کے بکت ایسی باتیں نہ کرو۔ ہمیں گسا چڑھ گیا۔ تو جبان سے کچھ نکل جائےگا۔ تم سکھیا کو گیر سمجھتی ہو۔ اس کی بد کھائی کرتی ہو۔ ہم راما کو گیر نہیں سمجھتے۔‘‘
ردھیا: ’’طعنے دینے کو تو بڑے سیر ہو۔‘‘
کلو: ’’اور تمہاری باتیں کونسی مصری کی ڈلیاں ہیں کہ سن کر جی کھس ہو جائے۔ جب دیکھو۔ تلوار کسے رہتی ہو۔ بھابی بیمار پڑی ہے، تمہیں لڑائی سوجھتی ہے۔ جو سنےگا، تمہیں ہی جھوٹا کہےگا۔ صبح کا گیا اب آیا ہوں۔ کچھ کھلانے کا پھکر نہیں۔ لڑنے کو تیار ہو گئی۔‘‘
اب ردھیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے سر جھکا لیا اور سکھیا کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بولی ’’تم سے کہہ دیا ہے، کہ بچن لال کی دکان پر جاتے مجھے سرم لگتی ہے۔ جب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے تو یہی جی چاہتا ہے کہ اس کا کھون پی جاؤں۔ مجھے اور جہاں کہو چلی جاؤں، پر اس کی دکان پر نہ بھیجو ورنہ دیکھ لینا کسی دن عجت چلی جائےگی۔‘‘
یہ کہہ کر ردھیا اپنی کم بختی پر رونے لگی۔ کلو کو زہر چڑھ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آگ کے شرارے نکلنے لگے۔ اس کا جی چاہتا تھا، کبھی بچن لال کا منہ نہ دیکھے۔ کبھی اس سے بات بھی نہ کرے۔ اگر کبھی سامنے سے آ جائے۔ تو منہ پھیر کر چلا جائے۔ اسے بھی معلوم ہوا، ان میں غیرت ہے۔ غریب ہیں بے حیا نہیں ہیں لیکن۔
سکھیا بیمار تھی اور کلو کے پاس پیسے نہ تھے اور گاؤں میں بچن لال کے سوا دوسرا کوئی حکیم نہ تھا۔ کلو کے دل پر جیسے کسی نے کئی من کا پتھر رکھ دیا۔ کیا کرے۔ کیا نہ کرے چاروں طرف نا امیدی تھی۔ امید کہیں بھی نہ تھی۔ آدھے گھنٹہ بعد وہ اسی بچن لال کی دکان پر بیٹھا اس کی منتیں کر رہا تھا، کہ کسی طرح دوا مل جائے۔ غیرت جوش میں آکر لڑنے کو تیار ہو گئی تھی۔ لیکن افلاس کے آہنی ہاتھوں نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اب اس میں بولنے کی بھی قوت نہ تھی۔
سکھیا کو دوا ملی، مگر اس سے کچھ افاقہ نہ ہوا بلکہ بیماری اور بھی خطرناک صورت اختیار کر گئی۔ پہلے پتھر کی طرح چپ چاپ پڑی تھی۔ اب تھوڑی تھوڑی دیر بعد کراہنے لگی۔ کلو اور ردھیا دونوں دیکھتے تھے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے۔ جب سکھیا چپ ہو جاتی۔ یہ غریب بھی لیٹ جاتے۔ جب کراہنے لگتی یہ بھی اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ جھونپڑے میں سوائے بیماری کی افسردگی کے اور کچھ بھی نہ تھا جو رات کے وقت اور بھی بھیانک ہو جاتی ہے اور پھر بیماری کی رات کاٹے نہیں کٹتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے وقت ساکن ہو گیا ہے۔ جیسے رات کبھی ختم ہی نہ ہوگی۔
رات کے دو ڈھائی بجے کا وقت تھا۔ سکھیا کراہ کراہ کر ذرا لیٹ گئی تھی۔ کلو نے کپی کی مدھم دھوئیں دار روشنی میں اس کے سیاہ مگر دلکش چہرے کی طرف حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور لمبی آہ بھر کر ردھیا سے کہا، ’’رام جانے اسے کتنی تکلیپھ ہوتی ہوگی۔ ایسے جلاتی ہے جیسے بکرے کو کسائی کاٹتا ہے۔ کیوں ردھیا! کتنے دن ہو گئے۔ پندرہ سے جیادہ دن ہو گئے ہو ں گے کیوں؟‘‘
ردھیا نے آہستہ سے جواب دیا۔ سولہواں دن ہے بھیا۔
کلو: ’’بڑا جالم بکھار ہے۔ کبھی اترتا ہی نہیں۔‘‘
ردھیا: ’’بھگوان پر بھروسہ رکھو۔ وہ چاہے تو آج ہی اتر جائے۔‘‘
کلو: چہرہ جرا سا نکل آیا ہے۔ مہینوں کی ردگن مالم ہوتی ہے۔‘‘
ردھیا: ’’اس میں کیا سک ہے پر بکھار اتر جائے تو ہپھتے بھر میں تاکت آ جائے۔ پھر اسی طرح دوڑتی پھرے گی۔ پھر اسی طرح سارے کام کرتی بھرے گی اس میں بڑا پر سارتھ ہے بھائی۔ پرمیسر راجی کر دے۔‘‘
کلو: ’’مجھے تو اندیسا ہے کہ اب اس کا بکھار کبھی نہ اترے گا۔ اترنا ہوتا تو اتر جاتا (آہ سرد بھر کر) کتنی کمجوری ہو گئی ہے۔ منہ سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتی۔‘‘
یہ کہتے کہتے کلو کی آواز بھاری ہو گئی۔ ردھیا نے پیار سے پھٹکارکر کہا، ’’جی کیوں چھوٹا کرتے ہو؟ دوا دیتے چلو۔ پرمیسر کرپا کرے گا ٹھیک ہو جائےگی!‘‘
کلو: ’’بچن لال کہتا ہے دودھ پلاتے جاؤ۔ یہ نہیں سوچتا ان گربیوں کے ہاں دودھ کہاں سے آئےگا۔ ستوا مل جائے وہ بھی گنیمت ہے۔‘‘
ردھیا: ’’کہیں سے کرج ہی لے لو بھیا۔ تھوڑا تھوڑا کر کے اتار دیں گے۔ اس کی دسا تو بہت بری ہے دودھ نہ ملا تو مر جائےگی۔
کلو: ’’کچھ سوچتی سمجھتی بھی ہو۔ یا باتیں کرنا ہی جانتی ہو اب اور کون کرج دےگا۔ بال بال تو بندھا ہوا ہے۔ جینا ہوگا جی جائےگی مرنا ہوگا مر جائےگی۔ پر اب کسی سے کرج نہ مانگا جائےگا اور اگر مانگوں بھی تو دیتا کون ہے؟ کہہ دیں گے کوئی ایک دے، دو دن دے، تمہارا ہر روج یہی حال ہے۔‘‘
ردھیا: ’’کرج نہ مانگوگے تو کام کیسے چلےگا (ذرا دیر چپ رہنے کے بعد) تنکھاہ کب ملےگی اب؟‘‘
کلو: ’’کل ہپھتہ ہے، کل ہی ملےگی۔ پر اس سے کیا ہوگا۔ ادھر آئےگی۔ ادھر اڑ جائےگی۔ ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ گیارہ روپیہ چار آنے ملیں گے، بیس سے جیادا کر ج ہے۔ اس پر بھی لوگ کہتے ہیں دودھ پلاؤ۔ گنگا کا رستہ سبھی بتاتے ہیں کوئی سالا ایسانجر نہیں آتا جو گنگا جانے کا کھرچ بھی دیدے۔‘‘
ردھیا: ’’کھرچ تو بھگوان ہی دے اور کون دے سکتا ہے۔
کلو (آہ بھر کر) ’’ردھیا! گریبوں کو بھگوان بھی نہیں دیتا وہ بھی امیروں کو دیتا ہے، جن کی بڑی بڑی تنکھاہیں ہیں۔ ان کو ہر سال ترکی ملتی ہے۔ مگر جو بھوکے مرتے ہیں انہیں کوئی پوچھتا بھی نہیں، بڑوں سے اپسر بھی ڈرتے ہیں، بھگوان بھی ڈرتا ہے۔ ہم سے کوئی بھی نہیں ڈرتا۔‘‘
ردھیا: ’’بھیا! ایسی باتیں نہ کرو۔ پاپ لگتا ہے جیسے کرم کئے ویساپھل پا رہے ہیں۔ اس میں کسی کا کیا دوس ہے۔‘‘
سکھیا زور سے کراہنے لگی دونوں بہن بھائی اس کے سرہانے جا بیٹھے۔
ردھیا: (پچکار کر)’’کیوں بھابی! کیا تکلیپھ ہے۔‘‘
سکھیا: (کراہ کر اور آواز کو لمبا کرکے) اٹھالے بھگوان! اب نہیں سہا جاتا۔ ہائے! ہائے!!‘‘
کلو: ’’سکھیا (پیار سے) سکھیا! ہوش کرو۔ پرماتما کرپا کریں گے۔‘‘
سکھیا: (اسی طرح کراہ کر) ’’اب کیا کرپا کریں گے اٹھا لیں، یہی کرپا ہے۔ آہ اس جندگی سے تو موت بھلی۔ ہائے ہائے۔ ایسا مالم ہوتا ہے پیٹ میں کوئی چھریاں چلا رہا ہے۔ ہائے! بری تکلیپھ ہے (آخری حرف کو لمبا کرکے) ردھیا! بڑی تکلیپھ ہے! ہائے!‘‘
کلو: ’’جبان دانتوں تلے دبا لو۔ ہلا کرنے سے کیا بن جائےگا۔‘‘
سکھیا: (کراہتے ہوئے پہلو بدل کر) ’’چھما کرو بھائی! تمہیں کیا پتہ میری کیا دسا ہے ہائے ہائے۔
ردھیا: ’’تکلیپھ تو نجر آ رہی ہے سامنے! (سکھیا کے منہ پر ہاتھ پھیر کر) پھکر نہ کرو بھابی!اچھی ہو جاؤگی۔ بھگوان کا نام لو۔ بھگوان کے نام سے دکھ کٹ جاتا ہے۔‘‘
سکھیا: (بے چینی کی حالت میں زبان ہونٹوں پر پھیر کر) ’’اچھا! لیتی ہوں ہائےہائے (تھوڑی دیر چپ ہو جاتی ہے پھر بولتی ہے) ردھیا! رات کتنی گئی ہوگی۔ ہائے ہائے ہائے۔ جرا دو گھونٹ پانی تو پلا دو۔ جبان سوکھ کر لکڑی ہو گئی ہے۔ جرا ٹھنڈا پانی دیدو بہن۔ بڑی پیاس لگی ہے۔ ہائے ہائے!‘‘
ردھیا نے کلو کی طرف دیکھا گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں دریافت کیا۔ پانی دوں یا نہ دوں۔ کلو بولا، ’’کیا حرج ہے۔ بچن لال نےکہا تھا۔ پانی بلا سک دو۔‘‘
ردھیا نے اٹھ کر کٹوری میں پانی بھرا اور سکھیا کے پاس آ کر بولی، ’’لو پانی پی لو بھابی! مگر جیادا نہ پینا۔ نکسان کرےگا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے پانی کی کٹوری زمین پر رکھ دی اور ہاتھ کا سہارا دے کر ردھیا کو اٹھایا اور اس کے سر کے گرد پھٹا ہوا کمبل لپیٹ دیا۔
سکھیا نے پانی کی کٹوری کو بچوں کی سی بےتابی سے لیا اور سارا پانی ایک ہی گھونٹ میں ختم کر دیا۔ ردھیا بس بس کرتی ہی رہ گئی لیکن پیاسا مریض پانی کب چھوڑتا ہے۔
سکھیا کراہ کراہ کر نڈھال ہو گئی تھی۔ اسے پانی پی کر جیسے قرار سا مل گیا۔ چپ چاپ آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔ کلو اور ردھیا ساری رات جاگتے رہے تھے۔ ان کو بھی نیند آ گئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد سکھیا پھر کراہنے لگی۔ دونوں آنکھیں ملتے ہوئے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
صبح کے وقت سردی اتنی تھی کہ ہاتھ پاؤں اکڑے جاتے تھے۔ جی چاہتا تھا، بستر سے باہر نہ نکلیں لیکن مزدوروں کی قسمت میں آرام کہاں! کلو اندھیرے منہ اٹھ بیٹھا۔ پہلے اس نے ایک پرانا کپڑا جلا کر چلم سلگائی اور کچھ دیر تمباکو پیا۔ اس کے بعد حوائج ضروری سے فارغ ہوا۔ پھر ایک موٹا کرتا، ایک پرانی ٹوپی اور گھٹنوں تک آدھی میلی دھوتی۔ جسے کئی جگہ پیوند لگا ہوا تھا۔ پہنی اور ایک پانچ چھ سال کی پرانی لوئی اوڑھ لی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ سے تاکہ کہیں سکھیا کی آنکھ نہ کھل جائے۔ ردھیا کو جگایا اور کہا، ’’لو! میں چلتا ہوں کچھ ستوا ہے یا نہیں؟ لے آؤ رات روٹی بھی نہیں کھائی، جرا گڑ بھی دیدینا۔ کھسک ستوا گلے سے نیچے نہیں اترتا۔‘‘
ردھیا نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’’تم گڑ کو روتے ہو یہاں ستوا بھی کھتم ہو گیا۔ چنے کی کچی دال ہے کہو وہ باندھ دوں، بھگو کر کھا لینا۔‘‘
کلو کا غمگین چہرہ اور بھی غمگین ہو گیا۔ مری ہوئی آواز میں بولا، ’’چلو وہی باندھ دو۔‘‘
ردھیا نے ایک پرانے کپڑے میں دال باندھ کر پوٹلی بھائی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا، ’’اب گھر میں اناج کا دانہ بھی نہیں ہے۔ تنکھاہ لاؤ گے تو شام کو کچھ بن جائے گا۔ وہیں بانٹ آئے تو آج چولہا گرم نہ ہوگا۔‘‘
کلو نے دال کی پوٹلی کو ہاتھ میں لے کر نگاہ حسرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ردھیا میں آدمی ہوں، کسائی نہیں ہوں تو اور راما بھوکے رہو اور میں کھا لوں ایسا بےشرم ابھی نہیں ہوا ہوں۔ لو پکڑو، سکھیا کو دوا دیتے رہنا اور کیا کہوں؟
ردھیا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ گردن کو کھجلاتے ہوئےبولی، ’’نہیں بھیا! رات بھی بھوکے رہے ہو۔ آج بھی کچھ نہ کھاؤ گے تو کام کیسے کروگے؟ بھیا! ہمارا گجارہ ہو جائےگا۔ تم دال لے جاؤ۔‘‘
لیکن کلو نے سنی ان سنی کر کے پوٹلی لوٹا دی اور ننگے پاؤں گھر سے باہر نکل آیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ کئی اور مزدوروں کے ساتھ مل کی طرف جا رہا تھا۔ دوسرے مزدور ہنستے تھے، گاتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرتے تھے، کلو بالکل خاموش تھا۔ نہ بولتا تھا، نہ ہنستا تھا۔ چپ چاپ چلا جاتا تھا، جیسے اس کے منہ میں زبان نہ ہو۔ اس کے ساتھ چاہتے تھے وہ بھی ہنسے، بولے، گیت گائے، آج تنخواہ کا دن ہے۔ شام کو سب کی مٹھی گرم ہوگی۔ آج سب کو روپے ملیں گے لیکن کلو کو ان روپوں کی ذرا خوشی نہ تھی۔ وہ روپے لےگا اور دوسروں کو بانٹ دے گا۔ اس کے پاس پیسہ بھی نہ رہےگا۔
مہابیر نے آکر کلو کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا، ’’اداس کیوں ہو بھیا؟ بولتے ہی نہیں کیا بات ہے۔‘‘
گھیسو نے ہمدردی کے انداز سے کہا کیا بولے بھائی! گریب کی مہیریا بیمار ہے، کئی دن سے بکھار آرا ہے۔ اب کیا حال ہے کلو! ابھی اترا یا نہیں؟‘‘
کلو نے آہ سرد بھر کر جواب دیا، ’’بھگوان چاہے گا تو اتر جائےگا۔
مہابیر: ’’علاج کس کا ہے۔ اسی بچن لال کا یا کسی اور کا۔‘‘
کلو: ’’کلو کیا ہے؟ من کی دوڑ ہے۔ ہم مجبور لوگ کیا علاج کریں گے؟ علاج کے لئے روپے چاہئیں اور روپے ہمارے پاس نہیں۔
گھیسو: ’’آج تو تنکھاہ ملےگی۔‘‘
کلو: ’’تنکھاہ سے جیادا کرج دینا ہے۔ اسی بکت آکر گھیر لیں گے۔‘‘
مہابیر: ’’کسی کو ایک پیسہ نہ دینا۔ کہنا میری مہیریا بیمار ہے۔ اگلی تنکھاہ پر دوں گا۔‘‘
کلو: ’’لڑنے کو تیار ہو جائیں گے۔‘‘
گھیسو: ’’ہو جائیں تمہاری بلا سے مہیریا کا علاج تو کر سکو گے۔ پہلے بیماری کا علاج، پیچھے لینا دینا۔ اگر مر گئی روتے پھروگے۔ مدّا یہ بکت ہاتھ نہ آئےگا۔ کلو نے پاس گزرتے ہوئے ایک تانگے کی طرف دیکھا اور گھیسو سے مخاطب ہو کر بولا، ’’بڑا کرج ہے بھیا! مر جاؤں گا۔ تم گیت گاتے تھے میرا جی رونے کو چاہتا تھا۔‘‘
مہابیر نے گھیسو کو پرے ہٹایا اور آپ اس کے پاس آ کر بولا۔’’ایک بات کرو۔ سنہا صاحب کو درکھاس دے دو۔ کچھ نہ کچھ ضرور کرےگا۔‘‘
گھیسو: ’’کھوب سوچا۔ ولایت جا رہا ہے۔ اس بکت جرور کچھ نہ کچھ لے مروگے بھیا۔ درکھاس میں یہ ساپھ ساپھ لکھ دینا کہ پندرہ برسیں یہاں کام کرتے کرتے گجر گئیں۔ اب سر پر کرج چڑھ گیا ہے تو کہاں جاؤں، سرکار مائی باپ ہیں، مدت کریں کیوں عبدل تمہارا کیا کھیال ہے؟
عبدل اب تک چپ چاپ چلا جا رہا تھا۔ اس نے گھیسو کی بات سن کر کہا، ’’عرجی کس سے لکھواؤگے؟‘‘
کلو کو کچھ امید ہو چلی تھی۔ بولا، ’’کادر بابو سے نہ لکھوا لیں۔ بڑا ودیا وان ہے۔ انگریجی پھارسی سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
مہابیر: ’’بس بس بس ٹھیک ہے اسی سے لکھواؤ۔ سارے دبدر میں ایسا آدمی اور کوئی نہیں ہے۔‘‘
گھیسو: مہیریا کی بیماری کا جرور بیان کرنا۔ سنہا صاحب پر اس کا بہت اثر ہوگا۔‘‘
عبدل: ’’یہ بات تو تم نے میرے منہ سے چھین لی میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا۔ کادر بابو کو سمجھا دینا کہ ایسی عرجی لکھے جو دل میں بیٹھ جائے۔‘‘
مہابیر: ’’لو اب پھکر چھوڑ کر ایک گیت سنادو۔ ابھی تو آدھا پھاسلہ بھی کھتم نہیں ہوا۔‘‘
کلو: ’’بھیا آج ماپھ کر دو۔ جرا جی نہیں چاہتا۔‘‘
گھیسو: ’’واہ جی کیسے نہیں مانتا۔ اگر رونے سے تمہاری مہیریا کا بکھار اترتا ہو تو ہم سب رونے کو تیار ہیں۔ مدّا اس سے ہوتا کیا ہے۔’’تم رنج ہو کر آپ بھی بیمار ہو جاؤگے جلد سروع کرو کوئی اچھا سا گیت۔‘‘
کلو نے عبدل اور مہابیر کی طرف التجا آمیز نگاہوں سے دیکھا جیسے پولیس کے پنجہ میں پھنس کر ملزم اپنے یار دوستوں کی طرف دیکھتا ہے کہ شاید کسی کی سفارش کارگر ہو جائے۔ کلو کی بے بس نگاہیں کہتی تھیں۔ کیا یہ وقت گیت گانے کا ہے؟ لیکن عبدل اور مہابیر دونو گھیسو کے ہم خیال نکلے۔ کلو کو مجبوراً گانا پڑا۔ گاتے گاتے اسے اپنا سارا دکھ درد بھول گیا۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے کوئی فکر کوئی تردد نہیں۔ جیسے اسے زندگی کی ساری فارغ البالیاں حاصل ہیں۔ جیسے وہ آزاد پنچھی کے مانند خوش و خرم ہے۔
بارہ بجے کا وقت تھا۔ مزدور دو دو چار چار کی ٹولیاں بنا کر دھوپ میں بیٹھے اپنا ستوا کھاتے تھے۔ جن کے پاس ستوا نہ تھا۔ وہ کچھی دال اور سبز مرچ کھا رہے تھے۔ کلو کے پاس کچھ بھی نہ تھا نہ دال نہ ستوا۔ لیکن اسے اس کی پروا نہ تھی۔ وہ قادر بابو سے درخواست لکھوا رہا تھا اسے امید تھی سنہا صاحب اس کی ضرور سن لیں گے۔ اس خوشی میں اسے کھانا پینا بھی نہیں سوجھتا تھا۔ جب ایک بجے انجن چلا اور وہ اپنی مشین پر آیا تو اس کے چہرے پر امید کی روشنی جھلک رہی تھی۔ آج اس کا دل کام میں نہ لگتا تھا۔ بار بار دروازوں کی طرف دیکھتا تھا کہ چپڑاسی بلانے آیا ہے یا نہیں، آخر تین بجے کے قریب سنہا صاحب نے اسے بلا بھیجا۔ کلو کا کلیجہ دھڑکنے لگا۔ امیداسے اپنے اس قدر قریب کبھی نظر نہ آئی تھی، اس نے جاتے جاتے مہابیر کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھا اور مسکرایا۔ گویا کہا لو دیکھ لو کام بن گیا ہے۔
سنہا صاحب کمرہ کے باہر پہنچ کر کلو نے اپنے مٹی سے لت پت پاؤں صاف کئے۔ کانپتے ہوئے ہاتھ سے دروازہ کا پردہ ہٹایا اور اندر چلا گیا۔
سنہا صاحب کرسی پر بیٹھے بجلی کے لیمپ کی روشنی میں کاغذوں پر دستخط کر رہے تھے اور ان کے سگار کا دھواں چکر کھا کر چھت کی طرف جا رہا تھا۔
کلو نے جھک کر دونوں ہاتھوں سے سلام کیا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
سنہا صاحب نے سلام کا کوئی جواب نہ دیا اور کاغذات پر دستخط کرتے رہے۔ اتنے میں اکاؤ ٹنٹ نے آکر ایک کاغذ صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ یہ سنہا صاحب کی چھ مہینے کی تنخواہ اور سفر خرچ کا حساب تھا جو وہ اپنے ساتھ ولایت لے جانا چاہتے تھے۔ صاحب نے کاغذ پر نگاہ ڈالی اور کہا ’’نو ہزار پانسو تیرہ روپیہ‘‘
اکاؤٹنٹ: ’’جی حضور!‘‘
صاحب: ’’ہماری سیٹ بک ہو گئی؟‘‘
اکاؤٹنٹ: ’’جی حضور ہو گئی۔ تھامس کک کا آج ایک تار بھی آ گیا ہے۔
سنہا صاحب نے سگار کا ایک کش لگایا اور بل پر دستخط کر دیئے۔ اکاؤ ٹنٹ سلام کر کے چلا گیا۔ صاحب نے کرسی کے ساتھ پیٹھ لگا کر سگار کا دھواں چھت کی طرف اڑایا اور انگریزوں کی طرح بولے۔’’ویل کلو کیا بولنے مانگٹا؟‘‘
کلو: ’’حجور میں نے درکھاس دی تھی۔‘‘
صاحب: ’’تمہارا یپلی کیشن ہمارا پاس ہے۔ مگر تم منہ سے بولو۔ کیا مانگٹا؟‘‘
کلو: ’’حجور! میں نے کمپنی کی پندرہ سال کھدمت کی ہے، آج کل بڑی تکلیپھ میں ہوں سرکار! مجھ پر بڑا کرج ہو گیا ہے۔ مرا جاتا ہوں۔کچھ مدت مل جائے تو جی جاؤں۔ ہاں مائی باپ! آپ کی جان کو دعائیں دیتا رہوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر کلو نے دونوں ہاتھوں سے پھر سلام کیا۔
صاحب: (درخواست کو پڑھتے ہوئے) ’’تمہارا نوکری پندرہ سال کا ہے۔ اپنا کمائی کیا کرتا رہا ہے۔ تاڑی پیتا رہا ہے۔ جوا کھیلتا رہا ہے۔ بولو کیا کرتا رہا ہے؟‘‘
کلو: ’’سرکار! میں نے کبھی جوا نہیں کھیلا۔ کبھی تاڑی نہیں پی۔ بہت گریب ہوں سرکار! میری عورت سخت بیمار ہے۔‘‘
صاحب: ’’اوہ! ہمیں اپھسوس ہے، تمہارا عورت بیمار ہے، ڈاکٹر کا دوائی دو۔ ورنہ وہ مر جائے گا۔ سنا تم نے ڈاکٹر کا دوائی دو۔ دیسی حکیم بیوقوف ہوتا ہے۔ وہ کچھ نہیں جانتا۔‘‘
کلو: ’’ہاں سرکار! کچھ مدت مل جائے تو ڈاکٹر کا علاج کروں۔ بڑا گریب ہوں سرکار! آپ کی جان کو دعائیں دیتا رہوں گا۔ پندرہ سال سے حجور کی کھدمت کر رہا ہوں۔‘‘
صاحب: ’’ہم کو افسوس ہے کمپنی کچھ نہیں کر سکتا، اس سال کمپنی کو کئی لاکھ کا نقصان رہا ہے۔ بڑا منیجر صاحب کہتا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتا۔ جاؤ اپنا کام کرو۔ جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر سنہا صاحب نے ایک موٹا سا فائل اٹھایا اور اسے دیکھنے میں محو ہو گئے۔ کلو چپ چاپ باہر نکل آیا۔ اس درخواست پر کیا کیا امیدیں تھیں۔ سب پر پانی پھر گیا۔ اب اس کے سامنے پھر وہی نا امیدی اور اندھیرا تھا۔ اس کے سامنے مکان ہوا میں تیر رہے تھے۔ زمین آسمان چکر کھا رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا دنیا الٹ جائےگی۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل سے اپنا کام کرنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد مل کے سارے مزدوروں میں سنسنی سی پھیل گئی۔ معلوم ہوا کمپنی نے ڈیڑھ سو مزدوروں کو نوٹس دے دیا ہے اور چپڑاسی نوٹس کے لفافے لے کر آ رہا ہے۔ جس جس نے سنا اسی کا رنگ فق ہو گیا۔ ہر ایک ڈرتا تھا کہ کہیں اس کا جواب نہ مل گیا ہو۔ سارے مزدور دل میں منتیں مان رہے تھے۔ پرماتما سے پرارتھنا کر رہے تھے کہ اس فہرست میں ہمارا نام نہ ہو۔ سہم اتنی تھی کہ کوئی آگے بڑھ کر اتنا بھی نہ پوچھتا تھا کہ کس کس کو جواب ملا ہے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ یہ خبر جھوٹی ہو۔ آج بچ جائیں تو شکر کریں۔ کیسے آرام سے بیٹھے تھے۔ یہ پتہ نہ تھا کہ بدنصیبی گھات میں ہے۔ جواب مل گیا تو کیا کریں گے؟ کدھر جائیں گے؟ آج کل بیکاری کے زمانہ میں نوکری کہاں ملے گی؟
معاً ایک چپڑاسی کمرے میں داخل ہوا۔ سب کی آنکھیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ وہی تھا اس کے ہاتھ میں کئی لفافے تھے۔ مگر یہ لفافے نہ تھے غریبوں کی موت کے وارنٹ تھے۔ یہ چپڑاسی نہایت ہنس مکھ تھا، نہ کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ بات بات میں ہنستا تھا۔ آج اس کی شکل جمدوت سے بھی بھیانک تھی جس کے پاس رک کر لفافہ نکالتا۔ وہ کانپ جاتا۔ جس کےپاس سے گزر جاتا، اس کی جان میں جان آ جاتی۔ سمجھتا ااس وقت تو بھگوان نے بچا لیا۔ کلو اور مہابیر دونوں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے۔ چپڑاسی آکر مہابیر کے پاس رک گیا اور اس کے نام کا لفافہ تلاش کرنے لگا۔ مہابیر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے مری ہوئی آواز میں پوچھا، ’’میرے نام کا بھی لفافہ ہے؟‘‘
چپڑاسی نے دلی ہمدردی سے کہا، ’’بھیا! چھری پھر گئی ہےدیڑھ سو آدمی کاٹ کے رکھ دیا، ڈیڑھ سو! بھگوان جانے یہ لوگ کیا کریں گے؟‘‘
مہابیر نے لفافہ لے لیا اور سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا گویا کسی کے مرنے کی خبر سن لی ہو۔ ابھی چند منٹ پیشتر سان گمان بھی نہ تھا۔ کہ یہ ہو جائےگا۔ چہچہاتا ہوا پنچھی یکایک شکاری کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ ادھر کلو کادم گھٹ رہا تھا۔ سوچتا تھا۔دیکھیں مرتا ہوں، یا بجتا ہوں۔ ایسا خوش نصیب تو نہیں کہ قتل عام ہوا اور میں بچا رہوں۔ غریبوں کی قسمت میں ایسی خوش نصیبی کہاں؟ لیکن شاید۔
اسی وقت چپڑاسی نے ایک لفافہ نکال کر کلو کے سامنے بھی رکھ دیا۔ کلو پر بجلی سی گر پڑی۔ اس کے لبوں پر آہ تک نہ تھی۔ نہ آنکھ میں آنسو کا قطرہ تھا لیکن کلیجہ میں ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے دور تک چھری اتار دی ہے۔ معمولی درد ہو تو مریض روتا چلاتا ہے۔ غیر معمولی درد ہو تو مریض روتا چلاتا ہے۔ غیر معمولی درد ہو تو بیہوش ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس میں چلانے کی قوت ہی نہیں رہتی۔ اس وقت وہ صرف بےمعنی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہے اور اس کے دل سے دھواں اٹھتامعلوم ہوتا ہے۔
اس کے بعد تنخواہ تقسیم ہوئی۔ لیکن آج تنخواہ کے وقت وہ چہل پہل نہ تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ سب کے دل بجھے ہوئے تھے۔ جن کو جواب مل گیا تو روتے ہی تھے۔ جو بچ گئے تھے۔ ان کے چہروں پر بھی مردنی چھائی ہوئی تھی۔ کون جانے کل کیا ہوگا؟ تخفیف شروع ہوتی ہے تو ایک دن میں تھوڑی ختم ہو جاتی ہے دوسرے دن کے متعلق بھی بڑے زوروں کی افواہیں تھیں۔
کلو کے تنخواہ لیتے ہی ایک مزدور نے آکر کہا، ’’کیوں بھیا! دیتے ہو ایک روپیہ جو تم نے پچھلے مہینہ لیا تھا۔ آج بڑی جرورت ہے۔ہمیں بھی جواب ہو گیا۔‘‘
کلو نے چپ چاپ ایک روپیہ اس کے حوالے کر دیا۔ منہ سے ایک لفظ تک نہ کہا۔ کسی دوسرے وقت وہ شاید انکار کر دیتا۔ شاید منت خوشامد کرتا لیکن اس وقت کیسے انکار کرے؟ اس میں بولنے کی ہمت ہی نہ تھی۔
باقی روپے اس نے دھوتی کی انٹی میں رکھ لئے اور بے دلی سے مشین پر کھڑا ہو کر کام کرنے لگا۔ ناگاہ ایک دوسرا مزدور آکر سامنے کھڑا ہو گیا۔ کلو نے اسے دیکھا اور انٹی سے سوا روپیہ نکال کر چپ چاپ اس کے حوالے کر دیا اور باقی روپے سامنے مشین پر ہی رکھ دیئے کہ شاید ابھی کوئی اور قرض خواہ آ جائے۔ مریض نا امید ہو کر پرہیز چھوڑ دیتا ہے۔ کلو بھی اس وقت ناامید ہو چکا تھا۔ اسے دو اور مزدوروں کا بھی قرض چکانا تھا۔ لیکن وہ نہ آئے اور چھٹی ہو گئی۔ کلو نے بچے ہوئے روپے پھر انٹی میں رکھ لئے اور سر نیچے ڈال کر آہستہ آہستہ مل سے باہر نکلا اور دن چھٹی ہوتی تھی تو مزدور اچھلتے کودتے ہوئے باہر نکلتے تھے۔ آج سب کے سب چپ تھے۔ جیسے کسی مردے کو جلا کر لوٹ رہے ہوں۔اسی طرح دھیرے دھیرے چلتے تھے۔ اسی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور ٹھنڈی آہیں بھر کر گردن جھکا لیتے تھے۔ اسی طرح ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے تھے۔
معاً کسی نے کلو کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ کلو نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ سامنے موت سے بھی بھیانک پٹھان ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی لئے کھڑا تھا۔ اس نے کلو کو گریبان سے پکڑ لیا اور کہا، ’’برادر! پانچ روپیہ لاؤ۔ ہم آج کچھ نہ سنےگا۔‘‘
کلو حیران ہو کر سوچنے لگا۔ دوں یا نہ دوں؟ پہلے سوچا دیدوں۔ جب سب کچھ ہی چلا گیا ہے۔ تو یہ بھی کیوں رہ جائے جو ہوگا دیکھا جائےگا۔ پھر خیال آیا۔ گھر میں بیوی بیمار ہے اور بہن اور بھانجا بھوکے ہیں جب خالی ہاتھ گھر پہنچوں گا ہو کیا کہیں گے۔ اور پھر وہاں بھی تو بنئے کو، حکیم کو اور ساہوکار کو دینا ہے۔ سب رستہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ایک ایک روپیہ بھی دوں تو ان کا منہ بند ہو جائےگا۔ پھر دو ہفتے تک ادھار لینے کا ٹکانا بن جائےگا۔ ورنہ۔۔۔
کلو کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔
پٹھان نے جواب نہ پا کر کلو کو زور سے جھنجوڑا اور کہا، ’’خربچہ! پانچ روپیہ لاؤ۔ پانچ روپیہ۔ پچھلے مہینے ہم ادھر کھڑا رہا۔ تم دھوکا دے کر دوسرے دروازہ سے نکل گیا۔ اب بولو کلو کیا بولتا۔ اس کے منہ میں زبان ہی نہ تھی۔ اس نے دلوں کو چھید دینے والی نگاہوں سے پٹھان کی طرف دیکھا۔ لیکن پٹھان بے دل کا آدمی تھا اس پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے اسے ایک مرتبہ پھر جھنجوڑا اور کہا، ’’او خر بچہ! سنتا نہیں۔ ہم اپنا سود کا روپیہ مانگتا ہے۔ نکال کے رکھ دے۔ ورنہ خدا کا قسم ہم تجھے قتل کر دے گا۔‘‘
ان کے ارد گرد کئی آدمی جمع ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا، ’’او آغا! کیا بات ہے تو قتل کیوں کر دے گا۔ اس کا کپڑا چھوڑ دے۔‘‘
آغا: ’’نہیں بابو صاحب! یہ بھاگ جائےگا۔‘‘
بابو: ’’نہیں بھاگےگا۔ منہ سے بات کرو۔‘‘
یہ کہہ کر بابو صاحب نے آغا کے ہاتھ سے کلو کا گریبان چھڑا دیا اور کہا، ’’اب بولو، کیا بات ہے؟ تمہارا روپیہ نکلتا ہے، اس کی طرف۔ کتنا روپیہ ہے؟
کل ہانپتا ہوا ایک طرف کھڑا ہو گیا۔
آغا: ’’ہاں بوبو صاحب! دس روپیہ نکلتا ہے۔ دو سال سے نکلتا ہے۔ پہلے سود دیتا تھا اب سود بھی نہیں دیتا۔ دو مہینہ ہو گیا۔ ہم نے پچھلا مہینا کچھ نہیں لیا۔
بابو: ’’تم دس روپے پر کتنا سود ماہوار لیتا ہے۔‘‘
آغا: ’’صرف اڑھائی روپیہ بابو صاحب۔ بیشی نہیں لیتا۔‘‘
بابو: ’’یہ بیشی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ دس روپیہ دے کر تم دو سال میں ساٹھ روپیہ لے چکا ہے اور کیا اس کی جان لوگے چھوڑ دو اسے جانے دو۔‘‘
آغا: ’’نہیں بابو ایسا ظلم نہ کرو۔ ہم مر جائےگا۔ ہم غریب آدمی ہے، ہمارا دو مہینا کا سود ہے۔ وہ دیدے ہم اپنا رقم نہیں مانگتا۔ سود مانگتا ہے۔‘‘
ہجوم میں سے ایک آدمی نے کہا، ’’یہ آغا لوگ مہاجنوں کے بھی گرو نکلے پچیس فیصدی ماہوار سود توبہ۔ توبہ۔‘‘
دوسرا بولا، ’’مگر ان سے لوگ لیتے کیوں ہیں۔ یہ زبردستی تو نہیں دیتے۔ سو مرتبہ مانگتے ہیں۔ تب جا کر ایک مرتبہ دیتے ہیں۔
تیسرا: ’’جی یہ بیوقوف ہیں حساب ہی نہیں کرتے۔‘‘
چوتھا: ’’بیوقوف ہیں تو پھر دیں۔ آغا کبھی نہ چھوڑےگا اس نے سود پہلے طے کر لیا ہے کیوں آغا!‘‘
آغا: (دلیر ہوکر) ’’ہاں صاحب! پہلے کہہ دیا تھا۔ اس سے پوچھ لو۔ او بھیا! کہا تھا یا نہیں۔ ہمارا پاس کاغذ لکھا ہوا ہے۔ اس کا انگوٹھا لگا ہے۔‘‘
ایک آدمی نے کہا، ’’انگوٹھے سے کیا ہوتا ہے مقدمہ عدالت میں جائے۔ تو صاف ڈسمس ہو جائے، عدالت کبھی اتنا سود نہیں دلا سکتی۔ یہ سود نہیں قہر الہٰی ہے۔‘‘
آغا: (جھلاکر) ’’قہر الہٰی کیا ہے۔ ہم کسی کے گھر جاکر نہیں دیتا۔ جسے غرض ہوتا ہے سو بار آ کر ناک رگڑتا ہے۔ تب دیتا ہے۔‘‘
بابو: ’’لیکن آغا! یہ سود بہت زیادہ ہے تم نے اسے دس دیئے اور ساٹھ لے لئے اب اور کیا مانگتے ہو۔ چھوڑ دو غریب کو۔‘‘
آغا: (آنکھیں نکال کر) ’’کیوں چھوڑے۔ نہیں چھوڑےگا اپنا روپیہ لےگا۔ تم خدا ترس ہے تو اپنے پاس سے دیدو۔ یہ غریب ہے تو ہم بھی غریب ہے۔‘‘
بابو: (کلو سے) کیوں بھیا! تمہارے پاس ہیں پانچ روپے دیدو اس وقت۔ کل میرے پاس آنا۔ میں بابو لوگوں سے کہہ کر چندہ کر دوں گا اور تمہارا پنڈ چھڑا دوں گا۔
کلو نے چپ چاپ پانچ روپے نکال کر دیدئے۔ آغا مطمئن ہو کر بولا، ’’اب تم اچھا آدمی ہے۔ ہم اپنا رقم کبھی نہ مانگےگا۔ سود دیتے چلو۔ اچھا سلام۔‘‘
کلو کو ایسا معلوم ہوا گویا اس نے روپے نہیں دیئے، بلکہ اپنے پران نکال کر دیدیئے ہیں۔ مجمع منتشر ہوا تو وہ پھر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ دوسرے مزدور آ گے نکل گئے۔ وہ سب سے پیچھے رہ گیا لیکن اسے اس کی ذرا بھی پروا نہ تھی اس کی جیب میں اب صرف چار روپے تھے۔ سوچتا تھا گھر میں جا کر کیا دوں گا۔ ردھیا جب اپنی جلتی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھے گی تو کیا کروں گا؟ کلو ویرانے میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور اپنی تاریک دنیا کے تاریک خیالات میں غرق ہو گیا۔ صبح بھی اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ مگر امید تو تھی۔ اس وقت امید بھی نہ تھی۔ کلو تنہائی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔‘‘
رات ہو گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا ہڈیوں میں گھسی جاتی تھی، آسمان پر کالے کالے بادل لہرا رہے تھے مگر کلو کو اس کی ذرا پر وا نہ تھی۔ اسے صرف ایک فکر تھا۔ اب کیا ہوگا؟ گاؤں کا آدھا قرض بھی چکا دے تو اس کے پاس کچھ نہ بچےگا۔
معاً ایک سایہ سا آکر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہ گھیسو تھا۔ اس نے اسے اس درخت کے نیچے دیکھا تھا۔ جب اتنی دیر ہو گئی اور وہ گھر نہ پہنچا تو وہ اسے ڈھونڈھنے نکلا۔ کلو بولا، ’’کون ہے؟‘‘
گھیسو نے جواب دیا، ’’میاں تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ چلو گھر چلو۔ نوکری چھوٹ گئی ہے تو کیا ہوا۔ ہمارا پرماتما تو نہیں مر گیا۔ جو پشو پنچھیوں کو دیتا ہے۔ وہ ہمیں بھی دے گا۔ چنتا بےفضول ہے۔ چلو۔‘‘
کلو چپ چاپ اس کے ساتھ ہو لیا، کچھ دور جا کر اس نے پوچھا، ’’سکھیا کا کیا حال ہے؟‘‘
گھیسو نے سوچا۔ بتاؤں یا نہ بتاؤں۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر بولا، ’’وہ تو چار بجے مر گئی۔ لاش رکھی ہے تم نہیں تھے۔ اس لئے نہیں جلائی۔‘‘
کلو نے جواب نہ دیا۔ اندھیرے اور سردی میں چپ چاپ اسی طرح چلتا رہا۔ اس وقت اسے ایسا معلوم ہوا۔ جیسے اس کے سر سے بوجھ اتر گیا ہے۔
اب اسے نوکری چھوٹ جانے کا ذرا بھی رنج نہ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.