دو عاشقوں میں توازن برقرار رکھنا، جب کے دونوں آئی سی ایس کے افراد ہوں، بڑا مشکل کام ہے۔ مگر رمبھا بڑی خوش اسلوبی سے کام کو سر انجام دیتی تھی۔ اس کے نئے عاشقوں کی کھیپ اس ہل اسٹیشن میں پیدا ہو گئی تھی۔ کیونکہ رمبھا بے حد خوبصورت تھی۔ اس کا پیارا پیارا چہرا کسی آرٹ میگزین کے سرورق کی طرح جاذب نظر تھا۔ اس کی سنہری جلدنائلون کی سطح کی طرح بے داغ اور ملائم تھی۔ اس کا نوجوان جسم نئے ماڈل کی گاڑی کی طرح سپرنگ دار نظر آتا تھا۔
دوسری لڑکیوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ انہیں ان کے ماں باپ نے شاید اوندھے سیدھے ڈھنگ سے پالا ہے۔ لیکن رمبھا کسی مارڈن کارخانے کی ڈھالی ہوئی معلوم ہوتی تھی، اس کے جسم کے خطوط، اس کے ہونٹ، کان، ناک آنکھیں، نٹ بولٹ، اسپرنگ کمانیاں، اپنی جگہ پر اس قدر قائم اور صحیح اور درست معلوم ہوتی تھیں کہ جی چاہتا تھا رمبھا سے اس کے میکر بلکہ مینو فیکچرر کا نام پوچھ کے اسے گیارہ ہزار ایسی لڑکیاں سپلائی کرنے کا فوراً ٹھیکا دے دیا جائے۔
جمنا، رمبھا کی طرح حسین تو نہ تھی۔ لیکن اپنا بوٹا سا قد لئے اس طرح ہولے ہولے چلتی تھی جیسے جھیل کی سطح پر ہلکی ہلکی لہریں ایک دوسرے سے اٹھکھیلیاں کرتی جا رہی ہوں اس کے جسم کے مختلف حصّے آپس میں مل کرایک ایسا حسین تموج پیدا کرتے تھے جو اپنی فطرت میں کسی وائلن کےنغمے سے مشابہ تھا اسٹیشن کی لوور مال روڈ پر جب وہ چہل قدمی کے نکلتی تھی تو لوگ اس کے جسم کے خوابیدہ فتنوں کو دیکھ دیکھ کر مبہوت ہوجاتے تھے۔
زبیدہ کی آواز بڑی دلکش تھی اور کسی ہائی فی ریڈیو کی سیڑیو فونک آواز سے ملتی جلتی تھی۔ اسے دیکھ کر کسی عورت کا نہیں، کسی گرامون کمپنی کے ریکارڈ کا خیال آتا تھا۔ وہ ہر وقت مسکراتی رہتی، کیونکہ اس کی سانولی رنگت پر اس کے سفید دانت بے حد بھلے معلوم ہوتے تھے۔ اور جب وہ کبھی قہقہہ مار کر ہنستی تو ایسا معلوم ہوتا گویا نازک کانچ کے کئی شمپین گلاس ایک ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرا گئے ہوں۔ ایسی عورت کے ساتھ کلب میں بیٹھ کر لوگوں کوبے پئے ہی نشہ ہوجا تا ہے۔
مرنالنی کی آنکھیں بڑی اداس تھیں اور ہونٹ بڑے خوبصورت تھے۔ اس کے نگاہوں کی اداسی ہلکے رنگوں والے غلیچے کی طرح ملائم، مدھم اور خنک تھی۔ انہیں دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ زندگی کے پر پیچ اور خاردار راستوں سے گزرتے ہوئےان سایہ دار پلکوں کے نیچے چند لمحے آرام اور سکون کے بتائے جائیں۔ اسے دیکھ کر اس ریستوران کی یاد آتی تھی جو ڈائنا پیک جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے۔ گھنے دیوداروں تلے، مدھم روشنیوں والے بر آمدے میں خاموشی اور باادب بیرے اور تازہ لیم جوس۔ اس ریستوران میں بیٹھ کرمحّبت کے ماروں نےاکثر مرنالنی کو یاد کیا ہے۔ اور مرنالنی کو دیکھ کر انہیں اکثر اس ریستوران کا خیال آیا ہے۔ بعض عورتیں ایسی ہی خوبصورت ہوتی ہیں۔
روزا گلاب تو نہ تھی، لیکن تتلی کی طرح ضرور تھی۔ ہر وقت تھرکتی رہتی اور منڈلاتی رہتی، لیکن مردوں کے ارد گرد نہیں، بلکہ ڈانس ہال میں۔ راک این رول سے مارڈن ٹوئسٹ تک اسے ہر طرح کا ناچ آتا تھا۔ اس کا صرف ایک عاشق تھا۔ حالانکہ کئی ہو سکتے تھے، مگر وہ دو برس سے صرف ایک ہی عاشق پر صبر کئے بیٹھے تھی۔ کیونکہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اور شادی کے لئے صبر کرنا بے حد ضروری ہے، چاہے وہ اپنا محبوب کیوں نہ ہو، روزانے پیٹر پر قناعت کر لی تھی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ پیٹر نے ابھی تک صبر نہ کیا تھا۔ کیوں کہ پیٹر روز اسے بھی بہتر ڈانسر تھا۔ اور وہ آئی سی ایس کاافسر تھا اور رنڈوا ہو کر بھی ایسا کنوارا دھلا دھلا یا معلوم ہوتا تھا کہ رمبھا ایسی خوبصورت لڑکی بھی اسے لفٹ دینے لگتی تھی۔ گو رمبھا کو روزا کسی طرح اپنے سے بہتر سمجھنے پر تیار نہ تھی۔روزا کا جسم کسی بارہ تیرہ برس کے لڑکے کی طرح دبلا پتلاتھا۔ ایسی ہی اس کی آواز تھی۔ اس کے لہرئیے دار کٹے ہوئے بال کتنے خوبصورت تھے۔ ان بالوں کو کسی آرکسٹرا کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سیاہ جینز میں روزا کی لانبی مخروطی ٹانگیں تھیں۔ اس کا سارا جسم کسی جیٹ ہوائی جہاز کی طرح نازک خطوں کا حامل تھا۔ ’’ہونہہ ! رمبھا کون ہوتی ہے۔ پیٹر کو مجھ سے چھین لینے والی؟‘‘
ایلا، جو کسی زمانے میں مسز کیلا چند تھیں اور اب طلاق حاصل کر چکی تھیں۔ آج بھی اپنے نیپالی حسن سے لوگوں کی آنکھیں خیرہ کئے دیتی تھیں۔ آریائی حسن میں چینی حسن کچھ اس طرح گھل مل گیا تھا کہ ان دونوں کی آمیزش سے جو مجسمہ تیار ہوا اس میں بالکل ایک نئے طرح کی پھبن اور بانکپن تھا۔ ایلا کے کپڑے ساری ہائی سوسائٹی میں مشہور تھے۔ اس کے حسن میں جو کمی تھی، ایلا اسے کپڑوں سے پورا کر لیتی تھی۔ کپڑوں سے اور زیورات سے۔ ایلا کے پاس ایک سے ایک خوبصورت جواہرات کے بڑھیا سیٹ تھے۔ اور آج سے پانچ سال پہلےایلا نے شملا اوردارجلنگ میں ایک سیزن میں دو بیوٹی کمپی ٹیشن جیتے تھے۔ گو کچھ لوگوں کے خیال میں اب وہ پرانے ماڈل کی گاڑی تھی۔ لیکن مسلسل جھاڑ پونچھ، احتیاط اور مالش سے اس کی آب و تاب بد ستور قائم تھی۔
پھر ہل اسٹیشن کمشنر صاحب کی تین لڑکیاں تھیں، جن کے لئے چیف کمشنر صاحب بہادر کو مناسب بروں کی تلاش تھی۔ ان کے نام بالترتیب سدھا،مادھری اور آشا تھے۔ ان تینوں میں آشا کا شمار تو کھلے طور پر بد صورتوں میں کیا جاسکتا تھا۔ البتہ سدھا اور مادھری گو خوبصورت نہ تھیں، لیکن نک سُک درست تھیں۔ مگر چونکہ وہ کمشنر صاحب کی لڑکیاں تھی، اس لئے ان کا شماربھی خوبصورت لڑکیوں میں ہوتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج ہر منسٹر کی تقریر ایک ادبی شاہکار سمجھی جا تی ہے۔
ان کے علاوہ سیتا ملہوترا، برجیس، عبدالرحمن، بلیسر کور، پشپا راز داں، خورشید گوروالا، اور میجر آنند کی لڑکی گوری وغیرہ وغیرہ بھی اس ہل اسٹیشن کے سالانہ بیوٹی کمپی ٹیشن میں شامل تھیں۔ جو ابھی کلب کے لان میں شروع ہونے والا تھا۔ یہ خوبصورتی کا مقابلہ اس ہل اسٹیشن کا گویا سب سےبڑا قومی تیوہار ہوتا ہے۔ اس روز کلب کے لان میں سینکڑوں آدمی جمع ہو جاتے ہیں۔ رنگ برنگی جھنڈیاں، زرق برق ساڑیوں میں ملبوس عورتیں، سنہری بیئر کے سفید کف سے ابلتے ہوئے جام، حصہ لینے والی لڑکیوں کے خوف زدہ کھوکھلے قہقہے، عاشقوں اور مان باپوں کی طفل تسلیاں، آخری منٹ پر بلاؤز بدلنا اور ساڑی کی آخری سلوٹ دور کرنا، آئنے میں دیکھ کر بھوؤں کی کمان کی آخری نوک کو تیز کرنا۔۔۔ باپ رے! یہ بیوٹی کمپی ٹیشن بھی آئی سی ایس کے کمپی ٹیشن سے کسی طرح کم نہیں ہے اور کچھ ہو نہ ہو، اس میں اوّل نمبر پانے والی لڑکی کو بر تو ضرور مل جاتا ہے، اور وہ بھی کسی اونچے درجے کا۔ اس لئے ہر سیزن میں درجنوں لڑکیاں اس میں خوشی خوشی حصہ لیتی ہیں اور ماں باپ خوشی خوشی ان کو اجازت دے دیتے ہیں۔
آج بیو ٹی کمپی ٹیشن کا فائنل تھا۔ فائنل کے ایک جج کنور باندا سنگھ روہیل کھنڈ ڈو یژن کے سابق چیف کمشنر تھے۔ دوسرے جج سرسنارچند تھے۔ جن کے مشاعرے اور کوی سمیلن ہر سال دلّی مین دھوم مچاتے ہیں۔ یہ مان لیا گیا تھا کہ جو آدمی مشاعرے اور کوی سمیلن کامیاب کرا سکتا ہے۔ وہ عورتوں کو پرکھنےکا بھی ماہر ہو سکتا ہے۔ پھر ججوں کی کمیٹی کے ایک ممبر سابق جسٹس دیش پانڈے بھی چن لئے گئے تھے۔ تا کہ انصاف کے پلڑے برابر رہیں۔
ایک ممبرسیّد امتیاز حسین بارایٹ لا تھے۔ جن کے متعلق مشہور تھا کہ ہر روز اپنی بیوی کو پیٹتے ہیں۔ پانچوے جج کماؤ ں کے رئیس اعظم دیوان بلراج شاہ تھے۔ جن کے متعلق یہ مشہور تھا کہ ان کی بیوی ہر روز پیٹتی ہے۔ مقابلہ کی کونسل میں ججوں کے دو نام اور پیش کئے گئے تھے۔ ایک تو ہندی کے مشہور کوی کنج بہاری شرما تھے۔ جنہوں نے برج بھا شا میں عورتوں کے حسن پر بڑی سندر کویتائیں لکھی ہیں۔ دوسرے قمر جویلرز کے پروپر ائٹر قمرالدین قریشی تھے۔ جن سے بہتر جواہرات کے زیور یو، پی میں تو کوئی بناتا نہیں۔ مگر یہ دونوں حضرات رئیس نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں ہار گئے۔ کسی عورت کی ججوں کی کمیٹی میں نہیں لیا گیا۔ کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے، کہ ہر عورت اپنے سے زیادہ حسین کسی کو نہیں سمجھتی۔ اگر کسی عورت کو ججوں کی کمیٹی میں شامل کر لیا جاتا تو وہ مقابلے میں حصہ لینے والی سب ہی لڑکیوں کو رنگ و نسل اور خدوخال کا امتیاز کئے بغیر صفر نمبر دے ڈالتی۔ لہذا شدید بحث و تمحیص کے بعد یہی طے پا یا کہ اس کمیٹی میں کسی عورت کوشامل نہ کیا جائے اور یہی پانچ مرد جج مقابلہ حسن کا فیصلہ کرنے کے لئے چن لئے گئے۔
دن بڑا چمکیلا تھا۔ آسمان پر اجلے اجلے سپید، درخشاں بادل گو یا فیکٹری کا سبز غالیچہ معلوم ہوتا تھا۔ بچے اس قدر دھلے دھلائے اور صاف شفاف نظر آتے تھے گویاپلاسٹک کے بنے ہوئے ہوں۔ وسیع و عریض لان کے کنارے کنارے کیا ریوں میں سویٹ پی ڈیلیا، لارک سپر، پٹیو نیااور کار نیشن کے پھول کچھ اس قائدے اور ترتیب سے کھلے ہوئے تھے۔ گویا کاغذ سے کاٹ کر نہیں ٹہنیوں سے چپکائے گئے ہوں گے، عرض یہ کہ بڑا حسین منظر تھا۔
سب سے پہلے اناؤ نسر نے لان کے درمیان کھڑے ہو کر ایک زور دار گھنٹی بجائی۔ تین بار ایسی گھنٹی کا سن کر لوگ باگ جوق در جوق کلب کے مختلف کمروں سے نکل کر باہر لان میں آنے لگے۔ لان میں ایک کنارے آدھے دائرے کی شکل میں صوفے اور کرسیاں بچھا دی گئی تھیں، سب سےآگے کے صوفے پر پانچ جج بیٹھ گئے۔ ان کےپیچھے کلب کے سر بر آوردہ اصحاب ان کے بعد خاص خاص شرفا ء اور پھر عام شرفا۔ سب سےآخر میں لکڑی کی بینچوں پر ہما رے ایسے رزیل اور کمینے کھڑے ہو گئے اور بات بے بات قہقہہ مار کرہنسنے لگے۔ آخر میں اناؤ نسر کو زور دار گھنٹی بجا کر سب کو چپ کرانا پڑا۔
سابق جسٹس دیش پانڈے نے اٹھکر مقابلے کے فائنل میں آنے والی لڑکیوں کی فہرست پڑھ کر سنائی پھر بینڈ بجنا شروع ہوا۔ اور بینڈ کی گت پر سب لوگوں کی نظریں کلب کی سیڑھیوں پر لگ گئیں جہاں اندر کے میک یپ روم سے حسینائں سیڑھیاں اتر کر کلب کے لان پر ججوں کے سامنے آنے والی تھیں۔ سیڑھیوں سے لے کر ججوں کے سامنے تک ایک لمبا سا سرخ غالیچہ بچھا دیا گیا تھا۔ جس پر چل کر مقابلے میں حصّہ لینے والیاں اپنی اپنی ادائیں کرشمے، عشوے یا نخرے دکھا نےوالی تھیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی دوربینیں نکال لیں۔
سب سے پہلے ایلا سرخ رنگ کی ساڑھی سنبھالتی، مٹکتی، سوسو بل کھاتی سیڑھیوں سے نیچے اتری۔ خوشبوؤں کے بھپکے دور دور تک پھیل گئے۔ ایلا کے چہرے پر عجیب سی فاتحانہ ہنسی سی مسکراہٹ تھی۔ ججوں کے سامنے اس نے اپنا منہ موڑ کر بڑی شوخی اور ناز کے ساتھ سب کو اپنا کٹیلا رخ دیکھایا۔ اور اس کے کانوں میں چمکتے ہوئے یاقوت کے آویزے نگاہوں میں لرز لرز گئے، پھر وہ اپنا گورا گداز ہاتھ آگے بڑھا کر سیب کی ڈالی کی طرح لجا کر کچھ اس ادا سے اپنی ساڑی کے پلّو کو سنبھال کر پلٹی کہ تماشاؤں کے دلوں میں مو ج درموج لہریں ٹوٹتی چلی گئیں۔
زبیدہ ایک مغل شہزادی کے روپ میں نمودار ہوئی۔ گہرے جامنی رنگ کا کامدانی کا غرارہ، اس کے اوپر ہلکے اودے رنگ کے لکھنؤ کی باریک پھول دار قمیض، اس کے اوپر لہریئےدار چنا ہوا دوپٹّہ، اس کے اوپر زبیدہ کی گردن۔۔۔ وہ مشہور صراحی دار گردن، جسے دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ اسے الٹ کر ساری شراب پی لی جائے۔ اس گردن کے گرد اس وقت جڑاؤ زمرد کا گلو بند چمک رہا تھا اور اس کے حسن کو دوبالا کر رہا تھا۔ اس گردن کے اوپر زبیدہ کا سانولا سلونا پیارا سا چہرہ تھا۔ زبیدہ بڑی تمکنت سے چلتے چلتے ججوں کے سامنے آئی۔ گردن اٹھا کر اپنی صراحی کے خم کوواضح کیا اور یکایک ہنس پڑی اور اس کے سپید سپید دانتوں کی لڑی بجلی کی طرح کوند گئی۔
روزا گہرے سبز رنگ کی تنگ جینز کے اوپر لیمن رنگ کا پھنتا ہوا بلاؤزپہن کر جو آئی تو اس کے سینے کا ا بھار، اس کی کمر کا خم، اس کی لانبی مخروطی ٹانگوں کی دلکشی اور رعنائی ہر قدم پر واضح ہوتی گئی۔ بہت سے فوٹو گرافر تصویریں لینے لگے۔ مسکراتی ہوئی روزا نے گردن کو ذرا سا جھکا کر سب تماشائیوں سے خراجِ تحسین وصول کیا اور چلی گئی۔
پھر سدھا مہتا آئی اور اس کے بعد مادھری مہتا۔۔۔ دونوں بس ٹھیک تھیں۔ نہ اچھی نہ بری۔ چونکہ چیف کمیشنر صاحب کی لڑکیا ں تھیں اس لئے آگے بیٹھنے والےسر بر آوردہ لوگوں نےان بچیوں کا دل رکھنے کے لئے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ مگر ان کے بعد آشا مہتہ جو نکلی تو کسی کو تالی بجانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ ایسی صاف کھری بد صورت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ میک اپ بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا وہ بھی مٹکتی ہوئی چلی گئی۔ تماشیئوں نےسکون کا سانس لیا۔
سیتا ملہوتراٹسر کے رنگ کی سنہری بنارسی ساڑی پہنے ہوئے آئی۔ بنارسی ساڑی کے نیچے کا پیٹی کوٹ بہت عمدہ تھا۔ پیٹی کوٹ بھی اگرنائلون کا ہو تا تو ممکن ہے کچھ نمبر بڑھ جاتے۔
مرنالنی نے دیوداسیوں کی طرح بال اوپر باندھ کر شونتی کے پھولوں سےسجائے تھے۔ اس نےکوئی میک اپ نہیں کیا تھا۔ سوائے کاجل کی ایک گہری لکیر کے جس نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں کی اداسی اور اتھا ہ غم کو اور ابھار دیا تھا۔ ججوں کے قریب آکر اس نے کچھ اس انداز سے ان کی طرف دیکھا جیسے وحشی ہرنی شہر میں آکر کھو گئی ہو۔۔۔ یا جمنا دیو داس کے رو رہی ہو۔ پھر وہ چلی گئی۔
اس کے بعد، برجیس، خورشید، گوری وغیرہ ایک ایک کر کے باہر نکلیں اور اپنی اپنی ادائیں دکھا کر رخصت ہوتی گئیں۔ سب سے آخر میں رمبھا نکلی اور اس کے نکلتے ہی بینڈ زورزور سے بجنے لگا اور تماشائیوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔ رمبھا نے چست پنجابی قمیض اور شلوار پہن رکھی تھی، یہ لباس اس کے جسم پر اس قدر چست تھا کہ بالکل تیراکی کا لباس معلوم ہوتا تھا۔ اس لباس میں رمبھا کے جسم کا ایک ایک خم نمایا ں تھا۔ جب وہ چلتی تھی تو اس کے ٹخنوں پر الجھی ہوئی جھانجنوں کے چھوٹے چھوٹے گھنگھر و اک رو پہلی آواز پیدا کرتے جاتے تھے، اسے دیکھ کر تماشائیوں کے گلوں سے بےاختیار واہ واہ کی صدا نکلی۔ چاروں طرف سے تحسین و مر حبا کے ڈونگرے بجنے لگے اب اس میں تو کسی کو کلام ہی نہیں تھا کہ اس سال کی ملکہ حسن رمبھا ہی چنی جائے گی۔
جب سب لڑکیاں چلی گیئں تو جج بھی اٹھ کر کلب کے اندر ایک کمرے میں مشورہ کرنے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد تماشائیوں کا شوق انتہا کو پہنچ گیا۔ لوگ زور زور سے باتیں کرنے لگے، کوئی کسی کو نمبر دیتا تھا، ہر عاشق اپنی محبوبہ کے گرد ہالہ کھینچ رہا تھا۔ ہر ماں اپنی بیٹی کی تعریف میں تر زبان تھی، مگر اکثریت رمبھا کےحق میں تھی۔ البتہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مختلف لڑکیوں کے نام لئے جا رہے تھے۔ کوئی جمنا کا نام لیتا تھا، کوئی زبیدہ کا، کوئی برجیس کا، کوئی سیتا ملہوترا پر مر مٹا تھا۔
پندرہ بیس منٹ کے بعد جج اپنے کمرے سے نمودار ہوئے، سابق جج دیش پانڈے کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک پرزہ تھا، جج دیش پاندے نے فیصلہ سنانے کے لئے اٹھے، سارا مجمع خاموش ہو گیا۔ جسٹس دیش پانڈے نے اپنی عینک ٹھیک کی، کھنکھار کے گلا صاف کیا۔ پھر کاغذ کے پرزے کو اپنی ناک کے قریب لا کراونچی آواز میں کہا، ’’ججوں کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس سال کے بیوٹی کمپی ٹیشن میں اوّل نمبر پر آنے اور ملکۂ حسن کہلانے کی حقدار مس سدھا مہتہ ہیں۔ نمبر دو مس مادھری مہتہ، نمبر تین مس زبیدہ۔‘‘
چیف کمشنر مہتہ کے گھر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ آشا مہتہ نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔ شام کو جب کمیشنر صاحب کلب سے گھر لوٹے تو آتے ہی ان کی بیوی نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ’’ہائے میری بچی دوپہر سےرو رہی ہے۔ ہائے تم نے آشا کا بالکل خیال نہیں کیا۔ ہائے آگ لگے تمہارے چیف کمیشنر ہونے پر۔ کیا فائدہ ہے تمہاری چیف کمیشنری کا، جب میری بچی انعام حاصل نہیں کر سکی۔ ارے سدھا اور مادھری کو تو پھر بھی بر مل جائیں گے لیکن جس بچی کا تمہیں خیال کر نا تھا، اسی کا نہ کیا۔ ارے ہائے! ہائے! ہائے۔‘‘
چیف کمیشنر صاحب نے گرج کر کہا، ’’باؤلی ہوئی ہو۔ تمہاری دو بچیوں کو تو میں نے کسی نہ کسی طرح انعام دلوا ہی دیا۔ اب تمہاری تیسری بچی کو بھی انعام دلواتا تو لوگ کیا کہتے؟ آخر انصاف بھی تو کوئی چیز ہے؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.