کہانی کی کہانی
’’یہ آزادی سے پہلے کے ایک تاجر کی کہانی ہے، جو انگریز افسروں کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایک روز جب وہ گھر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے سارے ولایتی کپڑے نکال کر کانگریسیوں کو دے رہی ہے۔ وہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے۔ اس کی اس کارروائی کا اس کی بیوی پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ اس صدمے سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘
رائے بہادر دیوی چند کی کامیابی وثروت کا راز محض یہ تھا کہ وہ حکام پرست تھے۔ اس کے سوائے ان میں اور کوئی وصف نہ تھا۔ کمشنر، ڈپٹی، جج، سپرنٹنڈنٹ پولیس، انجینئر جو کوئی آتا۔ اس سے چار دن میں واقفیت بنا لیتے اور یہ واقفیت چند دنوں میں ہی بےتکلفی کی حد تک جا پہنچتی۔ وہ ذات کے بنئے تھے۔ گوشت سے انہیں خلقی اور نسلی نفرت تھی۔ لیکن جب کسی صاحب کو دعوت دیتے تو یہ تمیز اڑ جاتی تھی۔ اس دن انہیں گوشت کی رکابی ہاتھ سے پکڑ لینے میں بھی عار نہ ہوتا تھا اور اتنا ہی نہیں۔ ہرن، بٹیر، مرغابیاں انڈے ڈالی کے طور پر صاحب لوگوں کے ہاں آئے دن بھیجے جاتے تھے، اپنے باغ تھے لیکن ان کے پھل کھانے ان کی اپنی قسمت میں نہ لکھے تھے۔ وہ صاحب لوگوں کی ڈالیوں کے لئے وقف تھے، اپنے لئے بازار سے منگواتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی ٹھیکیداری روز افزوں ترقی پر تھی۔ وہ کچھ کام نہ کرتے تھے۔ ٹھیکیداری کے کام کی دیکھ بھال بھی نہ کرتے تھے۔ وہ اسے اپنی شان سے گرا ہوا سمجھتے تھے مگر اس کے باوجود ان کی آمدنی ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ کوٹھی میں رہتے تھے۔ موٹروں پر چڑھتے تھے۔ بڑی شان سے گزران ہوتی تھی۔ بازار سے نکل جاتے تو لوگ جھک جھک کر سلامیں کرتے تھے۔ رائے بہادر یہ دیکھتے تو پھولے نہ سماتے تھے۔ مسکراہٹ ہنسی کی صورت اختیار کر لیتی۔ مگر وہ اسے اندر ہی اندر پی جاتے تھے۔
زمانہ نے پہلو بدلا۔ حالات نے نئی شکل اختیار کی۔ بازاروں میں مہاتما گاندھی کی جے کے نعرے بلند ہونے لگے۔ گھروں میں عورتیں کھدر پہننے لگیں۔ گورنمنٹ نے پکڑ دھکڑ شروع کی، لیکن لوگوں پر اس کا الٹا اثر پڑا۔ جوش اور بھی زیادہ ہو گیا، جس طرح نیم کا درخت چھانٹنے سے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کی سختی کی پالیسی نے لوگوں کے جوش سرگرمی میں اضافہ کر دیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی بازار میں نکلتے۔ تو قومی گیت گاتے ہوئے۔ رائے بہادر دیوی چند دیکھتے، تو جل بھن کر کوئلہ ہو جاتے۔ ان کو اس لہر میں اپنی امارت و ثروت کی تباہی دکھائی دیتی۔ اس کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ لوگ ان کو اب سلامیں نہ کرتے تھے۔ دیکھتے تو نفرت سے منہ پھیر لیتے۔ گویا انہوں نے کوئی گناہ کیا ہو۔
رات کا وقت تھا۔ رضاکار ولائتی کپڑے جمع کر رہے تھے۔ رائے بہادر دیوی چند کا موٹر کوٹھی کے صحن میں پہنچا۔ تو ان کے تعجب کی انتہا نہ تھی۔ کانگریس کمیٹی کے رضاکار ولائتی کپڑے سمیٹ رہے تھے اور ان کا نوکر اندر سے ریشمی اور مخملی کپڑوں کی گٹھڑیاں لا لا کر ان کے حوالے کر رہا تھا۔ رائے بہادر کو دیکھتے ہی رضاکاروں سے زور سے پکار کر کہا، ’’مہاتما گاندھی کی جے‘‘
رائے بہادر کا کلیجہ دہل گیا، جس طرح بچہ گولے کی آواز سے سہم جانا ہے۔ انہوں نے گھبرا کر سٹرک کی طرف دیکھا کہ کہیں کوئی انگریز تو نہیں جا رہا۔ دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ نوکر کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھ کر بولے، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
نوکر نے ادب سے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا، ’’ہجور۔ بی بی جی نے حکم دوا ہے کہ سب دیئی ڈالو۔‘‘
رائے بہادر اندر گئے۔ سوشیلا جوش انہماک سے کپڑے چن چن کر ٹرنکوں سے نکال رہی تھی۔ زریدار ساڑھیاں، فیتے دار دھوتیاں، ریشمی دوپٹے سلمہ ستارے سے جڑے ہوئے کرتے۔ انگریزی فیشن کے بلوس گون، قمیضیں بےترتیبی سے فرش پر بکھری ہوئی تھیں اور کہارن ان کی چن چن کر گٹھڑیاں بنا رہی تھی۔ اس وقت سوشیلا کا چہرہ اس طرح چمک رہا تھا۔ گویا اس کے لڑکے کی شادی ہونے کو ہو۔ رائے بہادر اس پر جان چھڑکتے تھے اور اس کی کسی بات کو بھی ٹالنانہ چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہا سے اس حد تک حوصلہ ہو گیا تھا۔ اس کو کامل یقین تھا کہ رائے بہادر اس میں مطلقاً دخل نہ دیں گے۔ تاہم رائے بہادر کو کمرے میں گھستے دیکھ کر اس کا دل دھڑکنے لگا۔ کہارن نے سر کا کپڑا اور نیچے کھسکا لیا۔
رائے بہادر نے کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا، ’’یہ کیا تماشہ ہو رہا ہے؟‘‘
آواز میں ملائمت تھی۔
سوشیلا کا دل دھڑکنا بند ہو گیا۔ اطمینان سے بولی، ’’میں نے سودیشی کپڑا استعمال کرنے کی پرتگیا کر لی ہے۔ بدیشی مال ہولی کے لئے دے رہی ہوں۔‘‘
رائے بہادر چند منٹ تک خاموش رہے۔ پھر آہستہ سے کہنے لگے، ’’یہ تمہارے سر پر کیا دھن سوار ہوئی ہے؟‘‘
’’اب یہ کپڑے پہننے کو جی نہیں چاہتا۔ سارا ملک ان کے خلاف ہے۔ ہم اکیلے کیا کر سکتے ہیں۔‘‘
’’لوگ تو پاگل ہو رہے ہیں۔‘‘
’’تو ہمیں بھی بھائیوں کے ساتھ شریک ہونا چاہئے۔‘‘
’’لیکن اس قدر نقصان‘‘
’’نقصان کیسا‘‘
’’یہ جو کپڑے چن چن کر نکال رہی ہو۔ ان سب پر روپے خرچ ہوئے ہیں یا مفت آئے تھے۔‘‘
سوشیلا نے دیکھا کہ وہ موقعہ آ گیا ہے جس کا خیال تھا وہ اس کے لئے پہلے سے ہی تیار تھی۔ سنبھل کر بولی، ’’جب میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ کپڑے نہ پہنوں گی۔ تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے نقصان تو جب ہے۔ جب نئے خریدار کو جلاؤں ان کی قیمت تو دی جا چکی ہے۔ بزار ہم سے واپس لے لے گا۔؟‘‘
رائے بہادر لا جواب ہو گئے۔ وہ ان آدمیوں میں سے تھے۔ جن کو لوگ زن مرید کہتے ہیں لیکن وہ بیوی کو کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ یہ بات نہ تھی۔ وہ کبھی کبھی اس سے خفا بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اس سے سوشیلا کے پران خشک ہو جاتے تھے۔ لیکن یہ خفگی بہت عارضی ثابت ہوتی تھی، گھنٹے دو گھنٹے کے بعد ہی صلح صفائی ہو جایا کرتی تھی۔ وہ شرمندہ ہو کر بولے، ’’اچھا آئندہ ولائتی کپڑا نہ خریدو لیکن جو خریدے ہوئے ہیں، ان کو جلانے سے کیا حاصل۔‘‘
’’لڑکی کے بیاہ میں دے دیں گے۔‘‘
’’میں تو یہ بات کبھی نہ ہونے دوں گی۔ اب تو لڑکی کے بیاہ میں بھی کھدر ہی چلےگا۔‘‘
مردوں کا قاعدہ ہے۔ جب لا جواب ہو جاتے ہیں تو نصیحتوں پر اتر آتے ہیں۔ رائے بہادر نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ سنجیدگی سے ناصحانہ انداز میں بولے، ’’میں نے تمہیں آج تک کامل آزادی دے رکھی ہے لیکن میں یہ تمہیں کہے دیتا ہوں کہ تم کو ہر ایک کام سوچ سمجھ کرنا چاہئے۔‘‘
کہارن باہر چلی گئی۔ سوشیلا نے نزدیک آ کر شوہر کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں ایک ٹرنک پر بٹھا کر بولی، ’’آپ مجھے بتلا دیں کہ یہ میری غلطی ہے پھر میں اس طرف بھول کر بھی رخ نہ کروں گی۔‘‘
اتنے میں باہر سے والنٹیروں نے چلاکر کہا، ’’مہاراج جلدی کیجئے، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ رائے بہادر کے کپڑے بھی چاہئیں۔‘‘
دوسری آواز آئی، ’’بندے ماترم‘‘
رائے بہادر پرہیبت طاری ہو گئی، اگر یہ نعرہ کسی انگریز نے سن لیا۔ تو کیا ہوگا۔ اس خیال سے ان کا سر چکرانے لگا۔ گھبرا کر بولے، ’’یہ تم نے دیکھا۔ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں بندے ماترم کا نعرہ لگا رہے ہیں۔‘‘
رائے بہادر نے قدرے ترشی سے کہا ہوں۔‘‘
’’ہوں کیا؟ اب بندے ماترم کہنا بھی جرم ہو گیا۔‘‘
’’ہاں جرم ہو گیا ہے۔ یہ انگریزوں کو چڑانے کے لئے ہے۔‘‘
سوشیلا نے کپڑوں کی گٹھڑیاں باندھ کر کہارن کو آواز دی، ’’یہ لے جاؤ‘‘ اور خاوند سے بولی، ’’اب اگر انگریزوں کو بندے ماترم سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ تو اس کا علاج کیا؟‘‘
اتنے میں باہر سے والینٹروں کی آواز آئی، ’’بندے ماترم‘‘
آگ پر تیل پڑ گیا۔ رائے بہادر نے کہارن کے ہاتھ سے گٹھڑی چھین کر کہا، ’’میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
سوشیلا کا چہرہ اداس ہو گیا۔ سرجھکا کر بولی، ’’میں نے پرتگیا کی تھی۔‘‘
رائے بہادر خاموش رہے۔ جب وہ غصہ میں ہوتے تھے۔ اس وقت خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ اس خاموشی سے سوشیلا بھی لرز جاتی تھی۔ اس نے رک رک کر کہا، ’’میں نے دیوی کے سامنے پرتگیا کی تھی۔‘‘
رائے بہادر خاموش رہے۔ باہر سے شور اٹھا، ’’جلدی کیجئے‘‘
رائے بہادر کی قوتِ برداشت جاتی رہی۔ کھونٹی سے ہنٹر اتار کر بولے، ’’میں ان پاجیوں کو درست کر دوں گا۔‘‘
سوشیلا نے خاوند کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’میں ان کو رخصت کرائے دیتی ہوں۔ آپ یہ نہ کریں۔‘‘
رائے بہادر نے ہاتھ چھڑا کر جواب دیا، ’’یہ میری کوٹھی میں آئے کیوں ہیں۔‘‘
’’اس میں بڑی بدنامی ہوگی‘‘
’’مجھے اس کی چنداں پرواہ نہیں‘‘
رائے بہادر باہر چلے گئے۔ ان کے ہاتھ میں ہنٹر دیکھ کر والینٹروں نے زور سے کہا، ’’بندے ماترم‘‘
سٹرک پر ایک انگریز جا رہا تھا۔ رائے بہادر کا غصہ اور بھی تیز ہو گیا جس طرح شراب میں دھتورے کے بیج مل جانے سے نشہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے دیوانہ وار ہنٹر برسانا شروع کیا۔ والنٹردیر تک مار کھاتے رہے۔ ان کی قوت برداشت دیکھ کر رائے بہادر کا غصہ تعجب میں تبدیل ہو گیا۔ ان کے ہاتھ تھک گئے لیکن والنیٹروں کے چہرے پر ملال نہ تھا۔ اتنے میں برانڈے کی تاریکی سے سسکی بھرنے کی آواز آئی۔ رائے بہادر کا ہاتھ رک گیا۔ والنیٹروں نے چلا کر کہا، ’’بندے ماترم۔‘‘، ’’مہاتما گاندھی کی جے‘‘
ان آوازوں میں بعض ایسی آوازیں بھی شامل تھیں جو رو رہی تھیں۔ سوشیلا کے دل پر کٹاریں چل گئیں۔ وہ اب نہ رہ سکی۔ روتی ہوئی آگے بڑھی اور رائے بہادر کا ہاتھ پکڑ کر بولی، ’’کیا کر رہے ہو کچھ خیال بھی ہے یا نہیں۔‘‘
رائے بہادر نے ہاتھ روک لیا۔
رات کو سوشیلا نے خواب دیکھا کہ وہ دیوی کی مورت کے سامنے کھڑی پوجا کر رہی ہے لیکن گیت تلسی کا گا رہی ہے۔ خواب میں ایسی بے تعلق باتیں اکثر دیکھی جاتی ہیں۔ یکایک دیوی کے ہونٹ کانپتے ہوئے معلوم ہوئے۔ سوشیلا کا دل دھڑکنے لگا۔
دیوی نے کہا، ’’سوشیلا‘‘
سوشیلا گردن جھکا کر بولی، ’’ماتا‘‘
’’پیچھے ہٹ جا تو میری پوجا کی حقدار نہیں‘‘
’’میں نے کیا قصور کیا ہے ماتا؟‘‘
’’تو نے پرتگیا بھنگ کی ہے۔ تیرا بھلا نہ ہوگا‘‘
سوشیلا کو ایسا معلوم ہوا جیسا کسی نے سیسہ گرم کر کے کانوں میں ڈال دیا۔ شام کا واقعہ تازہ ہو گیا۔ عاجزانہ لہجہ میں بولی، ’’ماتا میں کیا کروں وہ نہیں۔‘‘
دیوی کا سنگین چہرہ اور بھی سنگین ہو گیا۔ اس نے کرخت انداز سے کہا، ’’تو نے پرتگیا کیوں کی تھی؟‘‘
سوشیلا رونے لگی۔ اتنے میں چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں، ’’تونے پرتگیا کیوں کی تھی‘‘ دیوی کا پتہ نہ تھا۔ نظارہ تبدیل ہوا۔ آسمان پر بادل کڑک رہے تھے۔ زمین پر پرآشوب ندیاں دوڑ رہی تھیں۔ سوشیلا بمعہ شوہر کے ایک تختے پر بہی چلی جا رہی تھی۔ معاً خوف ناک لہروں کے اندر سے ایک مگر مچھ برآمد ہوا۔ اس کی شکل ایک والنیٹر سے ملتی جلتی تھی۔ سوشیلا نے خاوند کو اشارہ سے متنبہ کیا۔ مگر پتہ نہیں رائے بہادر کو ہنٹر کہاں سے مل گیا۔ انہوں نے مگر مچھ پر پورے زور سے حملہ کیا لیکن مگر مچھ نے ہنٹر کی پرواہ نہ کی اور رائے بہادر کی ٹانگ پکڑکر ان کو سمندر میں گھسیٹ لیا۔ سوشیلا کی جیسے جان نکل گئی۔ وہ ان کو بچانے کے لئے سمندر میں کود پڑی۔ اس کا جسم کانپا۔ اس نے جدوجہد کی اور روز سے چیخ ماری۔ اس چیخ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
رائے بہادر سور رہے تھے۔ چیخ کی آواز سن کر جاگ پڑے اور سوشیلا کے پاس آکر بولے، ’’سوشیلا، کیوں۔۔۔‘‘
سوشیلا کا جسم پسینہ میں شرابور تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، سہمی ہوئی بولی، ’’بڑا خوف ناک خواب دیکھا ہے۔ ابھی تک طبیعت بیقرار ہے۔‘‘
رائے بہادر نے کہا، ’’خوابوں کا زیادہ خیال نہیں کیا کرتے۔‘‘
’’مگر میرا دل سہم گیا ہے‘‘
سوشیلا اداس رہنے لگی۔ وہ بہت کوشش کرتی تھی کہ کسی طرح خواب بھول جائے لیکن کامیابی نہ ہوتی تھی۔ اس کی صحت دن بدن گرتی گئی۔ رائے بہادر یہ دیکھتے تھے اور کڑہتے تھے۔ وہ اس کا دل بہلانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے لیکن سوشیلا پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ وہ اسے باغیچے میں لے جاتے، سیر کراتے، سنیما دکھاتے لیکن سوشیلا کا مرجھایا ہوا کنول نہ کھلتا تھا۔ وہ خود کھدر پہنتی تھی مگر یہ خیال کہ میں نے پرتگیا پوری نہیں کی۔ اس کا خون خشک کر رہا تھا۔ یکایک بیٹھے بیٹھے اس کے کانوں میں وہی الفاظ گونج جاتے۔ تو نے پرتگیا بھنگ کی ہے۔ تیرا بھلا نہ ہوگا۔ سوشیلا کو اپنی پیشانی پر موت کی سرد انگلیوں کا احساس ہوتا اور وہ کانپ کر رہ جاتی۔ رائے بہادر اس سے پوچھتے۔ سوشیلا تو اداس کیوں رہتی ہے؟ سوشیلا ان کے چہرے کی طرف دیکھتی اور آنکھیں نیچی کر کے خاموش ہو جاتی۔ کنول میں پانی کے قطرے نمودار ہو جاتے۔ رائے بہادر بیتابی سے کہتے، ’’میری سوشیلا! ’’مجھ سے کہہ تجھے کیا فکر ہے‘‘ سوشیلا ان کے سینہ میں سر چھپا لیتی اور سسک سسک کر رونا شروع کر دیتی۔ وہ چاہتی تھی کہ تمام واقعہ خاوند کے روبرو کہہ دے۔ لیکن جب کہنا چاہتی، اس وقت کوئی طاقت، کوئی خیال، کوئی خوف اس کے ہونٹوں کو بند کر دیتا۔ اس طرح ایک ماہ کے قریب گزر گیا، سوشیلا بیمار رہنے لگی۔
رائے بہادر کو اندیشہ ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر پھر سوشیلا ولائتی کپڑوں کا سوال چھیڑے تو وہ اعتراض نہ کریں۔ وہ خود بھی اس سوال کو چھیڑنے کو تیار تھے۔ لیکن ان کی ہمت نہ پڑی تھی۔ اس باب میں وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے لگے تھے۔ سوشیلا کو کھدر کے لباس میں دیکھ کر ان پر گھڑوں پانی پھر جاتا تھا، جس کمرے میں کپڑوں کے ٹرنگ تھے۔ اس میں جاتے ہوئے رائے بہادر کو ڈر معلوم ہوتا تھا۔ جیسے وہاں سانپ بیٹھے ہوئے ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ خود بھی کھدر پہننا شروع کر دیں۔ لیکن پیش قدمی کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اس کے لئے انہیں بیوی کی رہنمائی کی، اصرار کی اور ضد کی ضرورت تھی لیکن سوشیلا اب وہ سوشیلا نہ رہی تھی۔ اس کے اصرار کے لئے رائے بہادر ترس گئے۔ آخر ایک دن اس سے بولے، ’’گنگا جی چلوگی؟‘‘
سوشیلا کے چہرے پر اشتیاق کے آثار نمودار ہوئے لیکن ٹھیک اسی طرح جس طرح قریب المرگ آدمی کو کسی عزیز کی آمد پر خوشی ہوتی ہے۔ آہستہ سے بولی، ’’ہاں چلوں گی۔‘‘
رائے بہادر کا خیال تھا کہ وہاں چل کر سوشیلا کا دل بہل جائےگا لیکن ایسا نہ ہوا، سوشیلا کی حالت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ البتہ چڑچڑاپن پیدا ہو گیا۔ رائے بہادر ناکام واپس ہوئے۔ اس واپسی کے ساتھ ہی سوشیلا پر ہسیٹریا نے حملہ کردیا۔ رائے بہادر پر مصیبت ٹوٹ پڑی۔ اول اول اس کا دورہ دوسرے تیسرے دن ہوتا تھا لیکن چند دن کے بعد دن میں تین تین چار چار دفعہ ہونے لگا۔ رائے بہادر کی جان عذاب میں آ گئی۔ سارا دن ڈاکٹروں کو لئے کمرے میں گھسے رہتے۔ روز ادویات تبدیل ہوتیں لیکن مرض میں کوئی افاقہ نہ ہوتا۔ البتہ اضافہ ضرور ہوتا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر ناامید ہو گئے۔
ایک دن سوشیلا نے کہا، ’’آپ میرا علاج بند کیوں نہیں کروا دیتے۔‘‘
رائے بہادر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔
’’کیوں‘‘
’’میرا بچنا ناممکن ہے۔‘‘
’’فضول باتیں نہ کرو۔ ایسا خیال بھی نقصان پہنچانے کا موجب ہو سکتا ہے۔‘‘
اس وقت ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔
سوشیلا بولی، ’’آپ چھپاتے کیوں ہیں۔ میں اب جانبرنہ ہو سکوں گی۔‘‘
’’کون کہتا ہے یہ۔‘‘
’’یہ ڈاکٹروں کی رائے ہے۔‘‘
رائے بہادر زیادہ نہ سن سکے۔ بچوں کی مانند سسکیاں بھر بھر کر رونے لگے اور رک رک کر بولے، ’’تم اب راضی ہو جاؤ، جو کہو گی وہی کروں گا۔‘‘
سوشیلا پر پھر بیہوشی کا دورہ ہوا۔ رائے بہادر نے گرم دودھ کا چمچہ منہ میں انڈیل کر کہا، ’’سوشیلا!‘‘
انہوں نے سوشیلا کے معالجہ میں دن رات ایک کر دیا۔ جس طرح نیک دل باوفا ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی بیماری میں خدمت کرتی ہیں۔ اس سے زیادہ محبت اور تندہی سے رائے بہادر نے سوشیلا کی تیمارداری کی لیکن اس کی بیماری میں افاقہ نہ ہوا اور وہ ہر روز موت کے نزدیک پہنچتی گئی مگر اس سے وہ مطمئن سی ہو گئی۔ خواب کا آخری حصہ اس کے لئے تسکین دہ تھا۔ وہ شوہر کو بچانے کے لئے سمندر میں کود پڑی تھی۔
آخر ۲۰ ستمبر ۱۹۲۱ کو دوپہر کے وقت سوشیلا عین عالم شباب میں جان بحق ہوئی۔ آسمان کا ایک تارہ ٹوٹ گیا۔ اس وقت اس کا ضمیر مطمئن تھا۔ کانوں میں وہ الفاظ نہ گونجتے تھے، ’’تیرا بھلا نہ ہوگا‘‘ اپنی بلی دے کر اس نے خاوند کو بچا لیا۔ اس کی آخری وصیت یہ تھی، ’’مجھ پر کھدر کا کفن ڈالا جائے۔‘‘ یہ وصیت پوری کی گئی۔
رائے بہادر کے لئے دنیا تاریک ہو گئی۔ کئی دن تک وہ کمرے سے باہر نہ نکلے۔ آنکھیں سوج گئی تھیں۔ چہرہ اتر گیا تھا۔ ان کو رہ رہ کر یہی خیال آتا تھا کہ سوشیلا کا قاتل میں ہوں۔ میں نے چند ہزار روپوں کا منہ دیکھا اور بیوی کو ہاتھ سے کھو دیا۔ اکثر سوچتے، اگر کپڑے جل جاتے تو یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ایسی باوفا بیوی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے گی۔ لوگ افسوس کرنے آتے تو جواب دیتے، ’’اس کا قاتل میں ہوں، وہ میرے لئے مری ہے۔‘‘
دوپہر کا وقت تھا۔ رائے بہادر بیوی کا کریا کرم کروانے میں مشغول تھے۔ ان کی آنکھوں سے چھما چھم آنسو گر رہے تھے۔ سوچتے کیا۔ اب پھر اس کی شکل دکھائی نہ دےگی۔ وہ ہنس مکھ چہرہ۔ وہ ہرن کے بچے کی سی آنکھیں شکل دکھائی نہ دے گی۔ وہ ہنس مکھ چہرہ، وہ ہرن کے بچے کی سی آنکھیں وہ الھڑپن، وہ ناز، وہ ضدیں، وہ بھولا پن۔ کیا سب کا خاتمہ ہو گیا۔ یکایک ایسا معلوم ہوتا۔ گویا وہ برانڈے میں کھڑی بلا رہی ہے۔ رائے بہادر کے کلیجے میں چھریاں گڑ جاتیں۔ ان کا دل خون کے آنسو رونے لگتا۔
کریا کرم ختم ہو گیا۔ رائے بہادر نے پوچھا، ’’اب کچھ کام باقی تو نہیں رہ گیا۔‘‘
اچاریہ نے جواب دیا، ’’نہیں۔‘‘
یکایک دیوی چند کھڑے ہو گئے اور بولے، ’’نہیں ایک کام ابھی باقی ہے۔‘‘
آچاریہ نے حیرت سے پوچھا، ’’کون سا؟‘‘
’’ذرا ٹھیر جاؤ‘‘
رائے بہادر نے جا کر کپڑوں والا کمرہ کھولا۔ چاروں طرف حسرت برس رہی تھی۔ مگر رائے بہادر نے اس طرف خیال نہ کیا۔ انہوں نے جلدی جلدی ٹرنک کھولے۔ معاً ان کا کلیجہ کانپنے لگا۔ ٹرنکوں میں کپڑوں کی گٹھڑیاں بندھی ہوتی تھیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ان کو باندھنے والے حسین ہاتھ اتنی جلدی آگ کے شعلوں کی نذر ہو جائیں گے۔ رائے بہادر کے دل میں ہلچل مچ گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ جیسے کسی نے چشمہ کا باندھ کھول دیا ہو۔ روتے ہوئے گٹھڑیوں کو اٹھا اٹھا کر صحن میں لے آئے۔ لوگوں میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔
آچاریہ نے پوچھا، ’’ان کو کیا کیا جائے؟‘‘
’’ان کی ہولی منائی جائےگی۔ یہ مرحومہ کی سب سے بڑی خواہش تھی۔‘‘
لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ ان کو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی ان ہونی بات سن لی ہو۔ ان کو رائے بہادر سے اس کی توقع نہ تھی۔ مگر رائے بہادر بار بار کہہ رہے تھے، ’’ان کی ہو لی منائی جائےگی۔ یہ مرحومہ کی سب سے بڑی خواہش تھی‘‘
اتنے میں نوکر سامنے آیا۔ وہ بھی آبدیدہ ہو رہا تھا۔ سوشیلا اس سے بہت مہربانی کا سلوک کیا کرتی تھی۔ اسے یاد کر کر کے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ رائے بہادر نے کہا، ’’جاؤ گھر سے ایک ایک ولایتی کپڑا چن لاؤ۔ میرا کپڑا بھی کوئی نہ رہے۔ میں سب کو جلا کر خاک سیاہ کردوں گا۔‘‘
لوگوں نے سنا تو ان پر جادو ہو گیا۔ انہوں نے چلاکر کہا۔
’’بندے ماترم‘‘
سٹرک پر سے ایک انگریز جا رہا تھا۔ وہ اس ہجوم کو دیکھ کر اور نعرے کو سن کر کھڑا ہو گیا۔ مگر رائے بہادر نے ذرا پرواہ نہ کی۔ سوشیلا کی موت نے ان کو بے خوف بنا دیا تھا۔
شام کا وقت تھا۔ ’’دیوی آشرم‘‘ میں کپڑوں کی ہولی منائی گئی۔ رائے بہادر کے پاس تسکین قلب کا یہی آخری ذریعہ تھا۔ رات کو انہوں نے خواب دیکھا۔ سوشیلا مسکراتی ہوئی نظر آئی۔ اس کے بعد سو نہ سکے۔ ساری رات جاگتے رہے۔ دل کا درد قدرے ہلکا ہو گیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.