ذیشان ساحل
غزل 14
نظم 131
اشعار 13
میں زندگی کے سبھی غم بھلائے بیٹھا ہوں
تمہارے عشق سے کتنی مجھے سہولت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ختم کر دیتا ہے ہر امید ہر امکان کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گزر گئی ہے مگر روز یاد آتی ہے
وہ ایک شام جسے بھولنے کی حسرت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کھڑکی کے رستے سے لایا کرتا ہوں
میں باہر کی دنیا خالی کمرے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتنے ہیں لوگ خود کو جو کھو کر اداس ہیں
اور کتنے اپنے آپ کو پا کر بھی خوش نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
نثری نظم 3
کتاب 10
تصویری شاعری 4
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو ختم کر دیتا ہے ہر امید ہر امکان کو گیت گاتا بھی نہیں گھر کو سجاتا بھی نہیں اور بدلتا بھی نہیں وہ ساز کو سامان کو اتنے برسوں کی ریاضت سے جو قائم ہو سکا آپ سے خطرہ بہت ہے میرے اس ایمان کو کوئی رکتا ہی نہیں اس کی تسلی کے لیے دیکھتا رہتا ہے دل ہر اجنبی مہمان کو اب تو یہ شاید کسی بھی کام آ سکتا نہیں آپ ہی لے جائیے میرے دل_نادان کو شہر والوں کو تو جیسے کچھ پتا چلتا نہیں روکتا رہتا ہے ساحل روز_و_شب طوفان کو