Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Manzoor Hashmi's Photo'

منظور ہاشمی

1935 - 2008 | علی گڑہ, انڈیا

منظور ہاشمی کے اشعار

7.6K
Favorite

باعتبار

قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ

مرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں

یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے

ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے

سنا ہے سچی ہو نیت تو راہ کھلتی ہے

چلو سفر نہ کریں کم سے کم ارادہ کریں

کبھی کبھی تو کسی اجنبی کے ملنے پر

بہت پرانا کوئی سلسلہ نکلتا ہے

اک زمانہ ہے ہواؤں کی طرف

میں چراغوں کی طرف ہو جاؤں

نئی فضا کے پرندے ہیں کتنے متوالے

کہ بال و پر سے بھی پہلے اڑان مانگتے ہیں

اسی امید پہ برسیں گزار دیں ہم نے

وہ کہہ گیا تھا کہ موسم پلٹ کے آتے ہیں

ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف

مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں

تیس چالیس دن تو کاٹ دیے

اور کتنے ہیں اس مہینے میں

نہ جانے اس کی کہانی میں کتنے پہلو ہیں

کہ جب سنو تو نیا واقعہ نکلتا ہے

کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے

درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

جتنے اس کے فراق میں گزرے

دن وہ شامل کہاں ہیں جینے میں

موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے

جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا

پانی میں ذرا دیر کو ہلچل تو ہوئی تھی

پھر یوں تھا کہ جیسے کوئی ڈوبا ہی نہیں تھا

میں اس کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہوں

کہ ایک روز اسے روبرو تو ہونا ہے

ہمارے ساتھ بھی چلتا ہے رستا

ہمارے بعد بھی رستا چلے گا

پتا نہیں کہ جدا ہو کے کیسے زندہ ہیں

ہمارا اس کا تعلق تو جسم و جان کا تھا

شدت شوق میں کچھ اتنا اسے یاد کیا

آئینہ توڑ کے تصویر نکل آئی ہے

لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے

اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا

زندگی کتنی حسیں کتنی بڑی نعمت ہے

آہ میں ہوں کہ اسے پا کے بھی شرمندہ ہوں

چیخ و پکار میں تو ہیں شامل تمام لوگ

کیا بات ہے یہ کوئی بتا بھی نہیں رہا

چلو لہو بھی چراغوں کی نذر کر دیں گے

یہ شرط ہے کہ وہ پھر روشنی زیادہ کریں

امید و یاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے

مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے

جو اپنی نیند کی پونجی بھی کب کی کھو چکی ہیں

انہیں آنکھوں میں ہم اک خواب رکھنا چاہتے ہیں

کوئی مکیں تھا نہ مہمان آنے والا تھا

تو پھر کواڑ کھلا کس کے انتظار میں تھا

ہمارے لفظ آئندہ زمانوں سے عبارت ہیں

پڑھا جائے گا کل جو آج وہ تحریر کرتے ہیں

فراق بچھڑی ہوئی خوشبوؤں کا سہ نہ سکیں

تو پھول اپنا بدن پارا پارا کرتے ہیں

وہ تیر چھوڑا ہوا تو اسی کمان کا تھا

اگرچہ ہاتھ کسی اور مہربان کا تھا

شدید گرمی میں پہلے ان کو ندی میں نہلا دیا گیا

ہوا میں پھر گیلے بادلوں کو جھٹک کے پھیلا دیا گیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے