ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
لینا ہی پڑا دل کو ضرورت بھی بہت تھی
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
گو ترک تعلق میں سہولت بھی بہت تھی
لیکن نہ ہوا ہم سے کہ غیرت بھی بہت تھی
اس بت کے ستم سہہ کے دکھا ہی دیا ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی
واقف ہی نہ تھا رمز محبت سے وہ ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت ہی بہت تھی
یوں ہی نہیں مشہور زمانہ مرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی
کیا دور غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کے فرصت بھی بہت تھی
ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی
بلوا کے ہم عاجزؔ کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیے کم بخت کی شہرت بھی بہت تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.