بہت ہی بڑے ایک جنگل میں اک بار
بہت ہی بڑا ایک ہی شیر تھا
بہت ہی بڑی اس کی مونچھیں بھی تھیں
بہت ہی بڑی پونچھ اس شیر کی
کبھی پونچھ اوپر اٹھاتا تھا جب
تو پنچھی بھی پیڑوں پہ ڈر جاتے تھے
نکلتا تھا جب غار سے اور غراتا تھا
تو جنگل میں سب ڈر کے چھپ جاتے تھے
بہت سہمے سہمے سے رہتے تھے سب
کبھی کوئی گیدڑ کبھی لومڑی
کبھی نیل گائے کبھی کوئی سور
کبھی ایک دو اور کبھی تین تین
جہاں بھی ملے جس قدر بھی شکار
وہ جنگل کا راجا تھا کھا جاتا تھا
کوئی بھی امن سے نہ جی پاتا تھا
بہت سوچ کر سب کے سب ایک دن
سبھا میں ملے اور کیے فیصلے
اگر شیر باہر نہ آیا کرے
تو ہر روز پرچی نکالا کریں
کہ ہر روز بس ایک ہی جانور
خود ہی شیر کے غار میں بھیج کر
چین سے جی سکیں
مگر شیر جی سے یہ کیسے کہیں
سبھا کے سبھی سوچ میں پڑ گئے
بہت دیر بعد
بڑے پیر بکرے جی بولے کہ میں
میری عمر تو یوں ہی باقی ہے کم
مجھے کھائے جاتا ہے بچوں کا غم
اگر شیر نے کھا لیا بھی تو کیا
سنایا بڑے پیر نے جا کے جنگل کا یہ فیصلہ
شیر جی سن کے پہلے تو چونکے ذرا
مگر غور سے سوچا جب معاملہ
تو سمجھے چلو اپنی محنت بچی
یہ جنگل بھی اپنا ہے راجا بھی ہم
ہمیں ہی تو ہوگا نہ پرجا کا غم
زباں پھیر کر خشک ہونٹوں پہ بولے
خبر کر دی جائے گی جنتا کو کل
مگر آج کے دن ہلوم ہلوم
آج تو آپ ہی میری خوراک ہو
کہا اور بس کھا گیا بوڑھے بکرے کو شیر
دن گزرتے گئے
لوگ گھٹتے گئے مہینے گئے
یوں ہی روز خوراک جاتی رہی شیر کے غار تک
کہ اک دن نکل آئی باری جو خرگوش کی
وہ گھبرا گیا
چلا دھیمے دھیمے سے کچھوے کی چال
پہنچتے پہنچتے اسے غار تک شام ہونے لگی
اسے دیکھ کر شیر بھنا گیا
چھٹنکی برابر یہ خوراک بھیجی ہے جنگل نے
اور اس قدر دیر سے
مٹا دوں گا خرگوش کی ذات کو
میں جنگل کا جنگل ہی کھا جاؤں گا
سنا اور خرگوش رونے لگا
گڑگڑانے لگا
حضور اس میں میری نہیں ہے خطا
نہ جنگل سبھا کا کوئی دوش ہے
کہ جنگل نے تو سات خرگوش بھیجے مگر
مگر کیا
مگر سر
مگر کیا کیوں ہکلا رہے ہو بتاؤ مجھے
مگر مگر مگر سر
کہاں ہیں تمہارے چھ غدار ساتھی
وہ خرگوش پھر سے سسکنے لگا
ہمیں راستے میں حضور ایک
ظالم نے روکا تھا
اور بہت گالیاں آپ کو دیں
کہا میں دہراؤں کیسے وہ سب کچھ حضور
کہا جاؤ کہہ دو مرے ساتھیوں کو وہی کھا گیا
یہ سننا تھا کہ شیر غرایا مونچھوں میں بل آ گئے
اکڑنے لگی اس کی ہنٹری پونچھ
اور آنکھوں میں بس خون اترنے لگا
کہاں ہے کدھر ہے بتا کون ہے
مرے ہوتے کس کا ہوا حوصلہ
کہ میری رعایا پہ کوئی ظلم کر سکے
وہ ہے آپ کی ذات کا سر مگر
میں م میں میں وہ کہتا تھا سر
ج ج جنگل کا راجا اصل
میں وہ وہ ہے
لپک کے اٹھا شیر بولا بتا
کہاں ہے بتا اس کو کچا چبا جاؤں گا
وہ پیپل کی پوڑی کے پیچھے
جو کنواں ہے نا
وہیں پہ چھپا ہے وہ کائر حضور
پلک کے جھپکنے میں پہنچے کنویں پہ
خرگوش اور شیر
کھڑے ہو کے کنوئیں پہ اس شیر نے
جو پانی میں دیکھا تو ہاں شیر تھا
وہ پانی میں اس کی ہی پرچھائیں تھی
مگر شیر سمجھا وہی دوسرا شیر ہے
دکھائے جو اس نے بھیانک سے دانت
تو اس نے بھی دکھلائے ویسے ہی دانت
یہ غرایا غرائی پرچھائیں بھی
پلٹ کے کنویں سے جو آواز لوٹی
وہ سمجھا وہ آیا
یہ کودا چھپاک سے پانی میں اور
ڈوب کے مر گیا
خوشی سے جو اچھلا ہے خرگوش تو
ابھی تک اچھل کر ہی چلتا ہے وہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.