Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیر اور خرگوش

گلزار

شیر اور خرگوش

گلزار

MORE BYگلزار

    بہت ہی بڑے ایک جنگل میں اک بار

    بہت ہی بڑا ایک ہی شیر تھا

    بہت ہی بڑی اس کی مونچھیں بھی تھیں

    بہت ہی بڑی پونچھ اس شیر کی

    کبھی پونچھ اوپر اٹھاتا تھا جب

    تو پنچھی بھی پیڑوں پہ ڈر جاتے تھے

    نکلتا تھا جب غار سے اور غراتا تھا

    تو جنگل میں سب ڈر کے چھپ جاتے تھے

    بہت سہمے سہمے سے رہتے تھے سب

    کبھی کوئی گیدڑ کبھی لومڑی

    کبھی نیل گائے کبھی کوئی سور

    کبھی ایک دو اور کبھی تین تین

    جہاں بھی ملے جس قدر بھی شکار

    وہ جنگل کا راجا تھا کھا جاتا تھا

    کوئی بھی امن سے نہ جی پاتا تھا

    بہت سوچ کر سب کے سب ایک دن

    سبھا میں ملے اور کیے فیصلے

    اگر شیر باہر نہ آیا کرے

    تو ہر روز پرچی نکالا کریں

    کہ ہر روز بس ایک ہی جانور

    خود ہی شیر کے غار میں بھیج کر

    چین سے جی سکیں

    مگر شیر جی سے یہ کیسے کہیں

    سبھا کے سبھی سوچ میں پڑ گئے

    بہت دیر بعد

    بڑے پیر بکرے جی بولے کہ میں

    میری عمر تو یوں ہی باقی ہے کم

    مجھے کھائے جاتا ہے بچوں کا غم

    اگر شیر نے کھا لیا بھی تو کیا

    سنایا بڑے پیر نے جا کے جنگل کا یہ فیصلہ

    شیر جی سن کے پہلے تو چونکے ذرا

    مگر غور سے سوچا جب معاملہ

    تو سمجھے چلو اپنی محنت بچی

    یہ جنگل بھی اپنا ہے راجا بھی ہم

    ہمیں ہی تو ہوگا نہ پرجا کا غم

    زباں پھیر کر خشک ہونٹوں پہ بولے

    خبر کر دی جائے گی جنتا کو کل

    مگر آج کے دن ہلوم ہلوم

    آج تو آپ ہی میری خوراک ہو

    کہا اور بس کھا گیا بوڑھے بکرے کو شیر

    دن گزرتے گئے

    لوگ گھٹتے گئے مہینے گئے

    یوں ہی روز خوراک جاتی رہی شیر کے غار تک

    کہ اک دن نکل آئی باری جو خرگوش کی

    وہ گھبرا گیا

    چلا دھیمے دھیمے سے کچھوے کی چال

    پہنچتے پہنچتے اسے غار تک شام ہونے لگی

    اسے دیکھ کر شیر بھنا گیا

    چھٹنکی برابر یہ خوراک بھیجی ہے جنگل نے

    اور اس قدر دیر سے

    مٹا دوں گا خرگوش کی ذات کو

    میں جنگل کا جنگل ہی کھا جاؤں گا

    سنا اور خرگوش رونے لگا

    گڑگڑانے لگا

    حضور اس میں میری نہیں ہے خطا

    نہ جنگل سبھا کا کوئی دوش ہے

    کہ جنگل نے تو سات خرگوش بھیجے مگر

    مگر کیا

    مگر سر

    مگر کیا کیوں ہکلا رہے ہو بتاؤ مجھے

    مگر مگر مگر سر

    کہاں ہیں تمہارے چھ غدار ساتھی

    وہ خرگوش پھر سے سسکنے لگا

    ہمیں راستے میں حضور ایک

    ظالم نے روکا تھا

    اور بہت گالیاں آپ کو دیں

    کہا میں دہراؤں کیسے وہ سب کچھ حضور

    کہا جاؤ کہہ دو مرے ساتھیوں کو وہی کھا گیا

    یہ سننا تھا کہ شیر غرایا مونچھوں میں بل آ گئے

    اکڑنے لگی اس کی ہنٹری پونچھ

    اور آنکھوں میں بس خون اترنے لگا

    کہاں ہے کدھر ہے بتا کون ہے

    مرے ہوتے کس کا ہوا حوصلہ

    کہ میری رعایا پہ کوئی ظلم کر سکے

    وہ ہے آپ کی ذات کا سر مگر

    میں م میں میں وہ کہتا تھا سر

    ج ج جنگل کا راجا اصل

    میں وہ وہ ہے

    لپک کے اٹھا شیر بولا بتا

    کہاں ہے بتا اس کو کچا چبا جاؤں گا

    وہ پیپل کی پوڑی کے پیچھے

    جو کنواں ہے نا

    وہیں پہ چھپا ہے وہ کائر حضور

    پلک کے جھپکنے میں پہنچے کنویں پہ

    خرگوش اور شیر

    کھڑے ہو کے کنوئیں پہ اس شیر نے

    جو پانی میں دیکھا تو ہاں شیر تھا

    وہ پانی میں اس کی ہی پرچھائیں تھی

    مگر شیر سمجھا وہی دوسرا شیر ہے

    دکھائے جو اس نے بھیانک سے دانت

    تو اس نے بھی دکھلائے ویسے ہی دانت

    یہ غرایا غرائی پرچھائیں بھی

    پلٹ کے کنویں سے جو آواز لوٹی

    وہ سمجھا وہ آیا

    یہ کودا چھپاک سے پانی میں اور

    ڈوب کے مر گیا

    خوشی سے جو اچھلا ہے خرگوش تو

    ابھی تک اچھل کر ہی چلتا ہے وہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے