الوداع
کیسے ماہ و سال گزرے
اب نہ کچھ بھی یاد ہے
صرف ہیں دھندلے نقوش
یا بصارت کی کمی ہے
کچھ نظر آتا نہیں
بس کتابوں اور فلموں میں رہی
اک بصیرت کی تلاش
کچھ نہ کچھ روٹی کی بھی تھی جستجو
جانے کس منزل کی تھی وہ آرزو
بے سبب لوگوں سے یارانہ رہا
اور پھر تنہا رہا برسوں تلک
سب تھے قیدی اپنے اپنے جال کے
تمناؤں کی دلدل میں پڑے
کس میں ہمت تھی کہ بدلے زندگانی کے پرانے خول کو
ہم سے سرکش کو دیا کرتے تھے نام
اور ہنس کر خوش ہوا کرتے سارے اجنبی
کون سمجھائے کہ ہم محکوم ہیں مظلوم ہیں
بے بسی کیسے مقدر بن گئی
بولے گا کون
خوف ایسا ہے کہ کوئی شخص کچھ کہتا نہیں
جانے کس طوفان کے سب منتظر ہیں
بت بنے
کیسے چلاؤں کہ اپنا ہم نوا کوئی نہیں
الوداع خود اپنے سائے کو مگر
کہنا پڑا
- کتاب : Dastavez (Pg. 297)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.