پندرہ اگست
گھٹا ہے گھنگھور رات کالی فضا میں بجلی چمک رہی ہے
ملن کا سینہ ابھار پر ہے برہ کی چھاتی دھڑک رہی ہے
ہوا جو مستی میں چور ہو کر قدم قدم پر بہک رہی ہے
کمر ہے ہر شاخ گل کی نازک ٹھہر ٹھہر کر لچک رہی ہے
ہوا پہ چلتا ہے حکم ان کا گھٹائیں بھرتی ہیں ان کا پانی
انہیں سے سرخی بہار کی ہے انہیں سے برسات کی کہانی
انہیں سے چشمے انہیں سے جھرنے انہیں سے جھرنوں کی نغمہ خوانی
انہیں سے پربت انہیں سے دریا انہیں سے دریاؤں کی روانی
فریب دے کر چلی نہ جائیں بڑی دھوئیں دھار ہیں گھٹائیں
جب آ گئی ہیں تو جم کے برسے بغیر برسے نہ لوٹ جائیں
ملے نیا سب کو ایک جیون چمن کھلیں کھیت لہلہائیں
ہوا محبت کا راگ الاپے کسان دھرتی کے گیت گائیں
یہاں پہ ہے سب کا ایک درجہ کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہے
جہاں پہ ہو امتیاز اس کا وہ مے کدہ مے کدہ نہیں ہے
نکل ذرا گھر سے غم کے مارے عروس فطرت کے کر نظارے
سزا سمجھ کر نہ کاٹ پیارے یہ زندگی ہے سزا نہیں ہے
کیا ہے جس جس نے دور اندھیرا اسے اسے روشنی میں لاؤ
جہاں جہاں دفن ہے اجالا وہاں وہاں پر دیے جلاؤ
قسم ہے آزادئ وطن کی عداوت آپس کی بھول جاؤ
کیا ہو جس نے گلا تمہارا اسے بھی بڑھ کر گلے لگاؤ
قدم جو آگے بڑھائے سب کی زباں سے دہراؤ وہ کہانی
نذیرؔ پندرہ اگست سے لو نئے ارادے نئی جوانی
ہوا سے کہہ دو کہ ساز چھیڑے امر شہیدوں کے بانکپن کا
سناؤ یارو وطن کے نغمے یہ دن ہے آزادئ وطن کا
- کتاب : Kulliyat-e-Nazeer Banarasi (Pg. 327)
- Author : Nazeer Banarsi
- مطبع : Educational Publishing House (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.