باکرہ
۔۔۔۔اور چادر پر شب باشی کا زندہ لہو تھا
اس نے اٹھ کے انگڑائی لی
آئینے میں چہرہ دیکھا
سرشاری میں اطمینان کی ٹھنڈی سانس لی
اس کی تھکی ہوئی آنکھوں میں
دیوانی مغرور چمک تھی
فتح کے نشے سے پلکیں بوجھل تھیں
اس نے سوچا ہائیڈ پارک میں
جو لڑکی اک جاسوسی ناول میں ڈوبی
اسے ملی تھی
وہ تو جیسے فاختہ نکلی
اس نے اپنی سیکس اپیل کا کمپا مار کے
رام کیا تھا
اس کی لچھے دار انوکھی باتیں سن کر
اس کے ساتھ چلی آئی تھی
صبح سویرے
چائے بنا کر
بوسہ دے کر
چلی گئی تھی
وہ تو سچ مچ باکرہ نکلی
(ورنہ سولہ سترہ برس کی لڑکی حرافہ ہوتی ہے)
اس نے سوچا
اس نے شب بھر
بند کلی پر
اک زنبوری رقص کیا تھا
اور چادر پر اتنا لہو تھا
جیسے جنگ عظیم
اسی بستر پر لڑی گئی تھی
اس نے اپنی مونچھوں کے گچھے میں
اپنی ہنسی دبائی
ایک خیال سے
آنکھوں میں سایہ لہرایا
سر چکرایا۔۔۔۔
یہ تو اس کی مہواری کا مردہ لہو تھا
جو چادر پر پھیل گیا تھا
- کتاب : Jalta Hai Badan (Pg. 53)
- Author : Zahid Hasan
- مطبع : Apnaidara, Lahore (2002)
- اشاعت : 2002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.