Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در مدح آم

خالد محمود

در مدح آم

خالد محمود

MORE BYخالد محمود

    شاہ اودھ سے فون پہ کل میں نے بات کی

    اسم گرامی شاہ کا عبدالسلام ہے

    پوچھا کہ لکھنؤ میں ہیں میں نے کہا کہ ہاں

    بولے کہ یہ بتائیے کے دن قیام ہے

    میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں یا اخی

    یوں تو خلوص شاہ میں کس کو کلام ہے

    لیکن یہ آنے والے سے جانے کا پوچھنا

    کیا اس میں کوئی راز ہے یا کچھ پیام ہے

    بولے کہ راز واز تو کچھ بھی نہیں ہے بس

    سنڈے کی شام پانچ بجے اذن آم ہے

    میں تم کو لینے وقت پہ پہنچوں گا اور تم

    ملنا سڑک پہ جو کہ تمہارا مقام ہے

    میں نے کہا کہ میں بھی، تو بولے کہ ہاں ضرور

    یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ اذن طعام ہے

    ہوتا اگر طعام تمہیں کون پوچھتا

    اس فصل میں بس آم ہی گٹھلی کے دام ہے

    تم نے تکلفاً بھی جو انکار کر دیا

    غالب کا وہ جواب بہ ذہن عوام ہے

    القصہ ان کے ساتھ چلا آیا پخ بنا

    خچر کے آس پاس ہی جس کا مقام ہے

    پخ سے اگر کسی کو کوئی بغض ہو تو ہو

    غالب کے اس گدھے سے تو بہتر یہ نام ہے

    دیکھا یہاں جو آ کے تو سب بھانت بھانت کے

    آموں کا چار سمت بڑا اژدہام ہے

    میں بھی شریک ہو گیا بوس و کنار میں

    ہر آم کھانے والے کا یہ طرز عام ہے

    چوسا دسہری ہو کہ سفیدہ ہو ایک ایک

    چکنا رسیلا شیریں دہن زرد فام ہے

    ہر سمت گٹھلیوں کے وہ انبار ہائے ہائے

    دل چھلکے چھلکے ہو گیا عبرت مقام ہے

    دل نے کہا میاں یہ کہاں لے کے آ گئے

    دعوت نہیں یہ آم کی یہ قتل عام ہے

    میں نے ڈپٹ کے دل سے کہا چپ خموش رہ

    رکھ کام اپنے کام سے تیرا جو کام ہے

    تو بھی تو ایک گٹھلی بے چھلکا ہی تو ہے

    اور وہ بھی بے مٹھاس بڑا تیرا نام ہے

    تجھ سے تو بڑھ کے آم کی گٹھلی ہے کچھ سنا

    مٹی میں داب دو تو پھر اک پورا آم ہے

    ہر لحظہ پیتا رہتا ہے تو گھونٹ خون کے

    اور آم آم ہی نہیں بھرپور جام ہے

    در دست جام آم ہے اور تو ہے در بغل

    تیری تو ایک بوند بھی مجھ پر حرام ہے

    دل نے کہا کہ خیر تجھے کیا جواب دوں

    جب اشہب قلم ہی ترا بے لگام ہے

    میرا تو خوں حرام ہے تجھ پر حلال خور

    تیری رگوں میں کس کا لہو تیز گام ہے

    آتی نہیں ہے مجھ کو یہ بحر الفصاحتی

    بندہ ابوالکلام نہ عبدالکلام ہے

    نا وقت فلسفے کا پڑھانے لگا سبق

    سب محو آم اور تو محو کلام ہے

    دل کے بلیغ طنز سے میں سٹپٹا گیا

    شاید کہ یہ عمل بھی حماقت کے نام ہے

    اب جو نظر اٹھا کے ادھر سے ادھر تلک

    دیکھا تو آم وام کا قصہ تمام ہے

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے