زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے
آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے
میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شام فراق
وہ کسی شہر نگاراں کی پری لگتی ہے
بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں
آج ہر آنکھ کوئی ابر تہی لگتی ہے
شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے
گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.