یہ انقلاب بھی اے دور آسماں ہو جائے
مرا قفس بھی مقدر سے آشیاں ہو جائے
مآل ضبط فغاں مرگ ناگہاں ہو جائے
کسی طرح تو مکمل یہ داستاں ہو جائے
سمجھ تو لیں گے وہ مجھ سے اگر بیاں ہو جائے
سکوت حد سے گزر جائے تو زیاں ہو جائے
قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے
اسیرو آؤ ذرا ذکر آشیاں ہو جائے
دیا ہے درد تو رنگ قبول دے ایسا
جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے
زبان خشک بھی جنبش میں لا نہیں سکتے
یہ بے بسی بھی نہ منجملۂ فغاں ہو جائے
قفس بھی بگڑی ہوئی شکل ہے نشیمن کی
یہ گھر جو پھر سے سنور جائے آشیاں ہو جائے
نگاہ گرم سے دیکھو نہ اشک حسرت کو
یہ چاہتے ہو کہ یہ اوس بھی دھواں ہو جائے
حیات نوک مژہ تک ہے اشک رنگیں کی
پلک ذرا سی بھی جھپکے تو رائیگاں ہو جائے
سراجؔ دیکھ لو بے آنسوؤں کے بھی رو کے
یہ سعی بھی نہ کہیں سعیٔ رائیگاں ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.