وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے
کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے
خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے
ترے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے
یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لئے
ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ
یہ آئنہ تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لئے
نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لئے
میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لئے
فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لئے
کنویں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ
کمند تھی جو مناروں پہ ڈالنے کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.