طبیعت رفتہ رفتہ خوگر غم ہوتی جاتی ہے
طبیعت رفتہ رفتہ خوگر غم ہوتی جاتی ہے
وہی رنج و الم ہیں پر خلش کم ہوتی جاتی ہے
خوشی کا وقت ہے اور آنکھ پر نم ہوتی جاتی ہے
کھلی ہے دھوپ اور بارش بھی چھم چھم ہوتی جاتی ہے
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے
کریں سجدہ کسی بت کو گوارہ تھا کسے لیکن
جبیں کو کیا کریں جو خود بہ خود خم ہوتی جاتی ہے
تجھے ہے فکر میری مجھ سے بڑھ کر اے مرے مولا
مجھے درکار ہے جو شے فراہم ہوتی جاتی ہے
اٹھی کیا اک نگاہ لطف پھر اپنی طرف یارو
کہ ہر ٹوٹی ہوئی امید قائم ہوتی جاتی ہے
بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی
بڑھے ہے عمر جیوں جیوں زندگی کم ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.