سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا
ہونٹ پر دیا رکھنا دل جلوں کی شوخی ہے
ورنہ اس اندھیرے میں کون مسکرا پایا
بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے
سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا
اہتمام دستک کا اپنی وضع تھی ورنہ
ہم نے در رسائی کا بارہا کھلا پایا
فلسفوں کے دھاگوں سے کھینچ کر سرا دل کا
وہم سے حقیقت تک ہم نے سلسلہ پایا
عمر یا زمانے کا کھیل ہے بہانے کا
سب نے ماجرا دیکھا کس نے مدعا پایا
شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی
حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا
سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا
ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا
- کتاب : sargoshiyan zamanon ki (Pg. 63)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.