تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
اب وہی ہے لالۂ زرد خزان ریختہ
آگے کچھوے کی کماں کے قدر کیا اس کی رہی
تھی فرید آبادی اپنی گو کمان ریختہ
خشک کرتے ہیں جو فکر خشک سے اپنا دماغ
جانتے ہیں اس کو مغز ستخوان ریختہ
پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت
اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ
فہم میں اتنا نہیں آتا بحکم رائے پست
اس بلندی سے گھٹی جاتی ہے شان ریختہ
خوان یغما بن کے پہنچا ہر کس و ناکس کے ہاتھ
نطع سلطاں جو تھا مخصوص خوان ریختہ
ہے رگ ابر بہاری ہاتھ میں میرے قلم
رشک جنت جس سے ہے یہ گلستان ریختہ
فارسی اب ہو گئی ہے ننگ اس کے واسطے
فارسی کا ننگ تھا جیسے قرآن ریختہ
چاند تارے کا دوپٹا میں دیا اس کو بنا
ورنہ اس زینت سے کب تھا آسمان ریختہ
رفتہ رفتہ ہائے اس کا اور عالم ہو گیا
نظم سے اپنی گرا نظم بیان ریختہ
جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ
خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(shashum) (Pg. 271)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.