شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوت جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نا مراد جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہل خرد کا ہے دور آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام وصال
جئیں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اسی سے گئے
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعر کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دل کشی سے گئے
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہل جہاں لاکھ کج کلاہ تھے ہم
گئے حریم سخن میں تو عاجزی سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیش بندگی سے گئے
اٹھاؤ رخت سفر، آؤ اب چلو عرفانؔ
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.