بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں
بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں
کہ ہم سے یار سے آ ہو گئی مڈبھیڑ آندھی میں
جتا کر خاک کا اڑنا دکھا کر گرد کا چکر
وہیں ہم لے چلے اس گل بدن کو گھیر آندھی میں
رقیبوں نے جو دیکھا یہ اڑا کر لے چلا اس کو
پکارے ہائے یہ کیسا ہوا اندھیر آندھی میں
وہ دوڑے تو بہت لیکن انہیں آندھی میں کیا سوجھے
زبس ہم اس پری کو لائے گھر میں گھیر آندھی میں
چڑھا کوٹھے پہ دروازے کو موند اور کھول کر پردے
لگا چھاتی لیے بوسے کیا ہت پھیر آندھی میں
وہ کوٹھے کا مکاں وہ کالی آندھی وہ صنم گل رو
عجب رنگوں کی ٹھہری آ کے ہیرا پھیر آندھی میں
اٹھا کر طاق سے شیشہ لگا چھاتی سے دلبر کو
نشوں میں عیش کے کیا کیا کیا دل سیر آندھی میں
کبھی بوسہ کبھی انگیا پہ ہاتھ اور گاہ سینے پر
لگے لٹنے مزے کے سنگترے اور بیر آندھی میں
مزے عیش و طرب لذت لگے یوں ٹوٹ کر گرنے
کہ جیسے ٹوٹ کر میووں کے ہوویں ڈھیر آندھی میں
رقیبوں کی میں اب خواری خرابی کیا لکھوں بارے
بھری نتھنوں میں ان کے خاک دس دس سیر آندھی میں
کسی کی اڑ گئی پگڑی کسی کا پھٹ گیا دامن
گئی ڈھال اور کسی کی گر پڑی شمشیر آندھی میں
نظیرؔ آندھی میں کہتے ہیں کہ اکثر دیو ہوتے ہیں
میاں ہم کو تو لے جاتی ہیں پریاں گھیر آندھی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.