نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
دلچسپ معلومات
غالب نے ایک خط میں خود اس مطلع کے سلسلے میں فرمایا ہے ۔ ''ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا کر لے جانا'' ۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے
دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا
لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل
نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا
خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.