انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں
انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں
یہ سوچنے بیٹھیں تو پریشانی سے مر جائیں
وہ جن کو میسر تھی ہر اک چیز دگر بھی
ممکن ہے سہولت کی فراوانی سے مر جائیں
کشتی پہ تھے کشتی کو جلاتے ہوئے حضرات
اب آگ سے بچ جائیں بھلے پانی سے مر جائیں
آئینے کا یہ کون سا سیزن ہے ہمیں کیا
دیوار کو تکتے ہوئے حیرانی سے مر جائیں
بابرؔ کوئی جذباتی کرونوں سے یہ پوچھے
کس کھاتے میں ہم آپ کی نادانی سے مر جائیں
اے دوست مکمل نظر انداز ہی کر دیکھ
ایسا نہ ہو ہم نیم نگہبانی سے مر جائیں
بچ جائیں تو آخر کسے کیا فرق پڑے گا
دشمن نہ سہی دوست پشیمانی سے مر جائیں
آنکھوں میں اترتے ہوئے اترائیں ستارے
سورج ہوں تو جل کر تری پیشانی سے مر جائیں
رانجھے کو تو پھر ہیر کی تصویر بہت ہے
جی کرتا تھا لگ کر اسی مرجانی سے مر جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.