کوئی فریاد مجھے توڑ کے سن سے نکلی
کوئی فریاد مجھے توڑ کے سن سے نکلی
یوں لگا جیسے مری روح بدن سے نکلی
عادتاً میں کسی احساس کے پیچھے لپکا
دفعتاً ایک غزل دشت سخن سے نکلی
رنگ کس کا تھا جو دستک سے نمودار ہوا
کس کی خوشبو تھی جو کمرے کی گھٹن سے نکلی
کس کا چہرہ تھا جو صدیوں کے بھنور سے ابھرا
کیسی وحشت تھی جو برسوں کی تھکن سے نکلی
ایک سائے کے تعاقب میں کوئی پرچھائیں
پیاس اوڑھے ہوئے صحرائے بدن سے نکلی
کچھ تو ایسا تھا کہ بنیاد سے ہجرت کر لی
خاک یوں ہی تو نہیں اپنے وطن سے نکلی
راکھ جمنے لگی جب رات کی آنکھوں میں نبیلؔ
نیند آہستہ سے بستر کی شکن سے نکلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.