عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گرد رہ جولان صبا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.