مجھے خواب سراب عذاب دئے مری روح کا نغمہ چھین لیا
مجھے خواب سراب عذاب دئے مری روح کا نغمہ چھین لیا
آشوب ملال عشرت جاں وجدانؔ سے کیا کیا چھین لیا
اک رنج سفر کی دھول مرے چہرے پہ گرد ملال ہوئی
اک کیف جو سنگی ساتھی تھا اس کیف کا سایہ چھین لیا
مرے ہاتھ بھی زخم دل کی طرح میں ٹوٹ گیا ساحل کی طرح
اے درد غم ہجراں تو نے کیا مجھ کو دیا کیا چھین لیا
ان رنگوں میں مرا رنگ بھی تھا ان باتوں میں مری بات بھی تھی
مرا رنگ مٹا مری بات کٹی کس نے مرا رستہ چھین لیا
اے شہر الم مری بات تو سن تو خواب مرے واپس کر دے
میں تیرا کرم لوٹا دوں گا تو نے مرا چہرہ چھین لیا
میں نوحہ گری تک بھول گیا مرے لوگ جلے مرے شہر لٹے
اس شہر معیشت نے مجھ سے احساس کا دریا چھین لیا
یہ سود و زیاں کی باتیں ہیں ان باتوں میں کیا رکھا ہے
اک خواب تمنا دے کے مجھے اک خواب تمنا چھین لیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.