زیست کی گرمیٔ بیدار بھی لایا سورج
زیست کی گرمیٔ بیدار بھی لایا سورج
کھل گئی آنکھ مری سر پہ جو آیا سورج
پھر شعاعوں نے مرے جسم پہ دستک دی ہے
پھر جگانے مرے احساس کو آیا سورج
کسی دلہن کے جھمکتے ہوئے جھومر کی طرح
رات نے صبح کے ماتھے پہ سجایا سورج
شام کو روٹھ گیا تھا مجھے تڑپانے کو
صبح دم آپ مجھے ڈھونڈنے آیا سورج
کم نہ تھا اس کا یہ احسان کہ جاتے جاتے
کر گیا اور بھی لمبا مرا سایہ سورج
ڈالتے اس پہ کمندیں وہ کوئی چاند نہ تھا
سو جتن سب نے کئے ہاتھ نہ آیا سورج
خوب واقف تھا وہ انسان کے اندھے پن سے
جس نے بھی دن کے اجالے میں جلایا سورج
لوگ کہتے رہے سورج کو دکھائیں گے چراغ
اور ہی رنگ تھا جب سامنے آیا سورج
شب کو بھی روح کے آنگن میں رہی دھوپ قتیلؔ
چاند تاروں نے بھی آ کر نہ بجھایا سورج
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.