دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا
برق مانگی نہیں فلک تجھ سے
ہم نے خرمن کو خود جلایا تھا
دل کو زخموں سے چور ہونا تھا
عشق کی راہ پر چلایا تھا
پوچھتے ہو دھواں ہیں کیوں آنکھیں
جاں کی بستی میں دل جلایا تھا
میں تو بھولا نہیں سحابؔ اس کو
اس نے کیسے مجھے بھلایا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.