ساقی گیا ہے روٹھ کے ہم سے ہزار حیف
ساقی گیا ہے روٹھ کے ہم سے ہزار حیف
آتی ہے کیوں تو دھوم سے اب کے بہار حیف
کل شوخ سے دو چار میں ہو راہ میں کہا
کس کا ملے ہو ہات میں خوں کو نگار حیف
کہنے لگا کہ کچھ ہے تجھے سوجھتا نہیں
اندھے یہ ہے حنا تو نہ کہہ بار بار حیف
نیں تو قسم خدا کی میں سمجھوں گا بے طرح
کچھ بھی شعور ہے تجھے اے بد شعار حیف
میں نے کہا کہ بخشو میاں لو خدا کا نام
اچھے ہو تم بھی روز ہو لیکن ہزار حیف
مجنوں صفت پھروں ہوں میں صحرا میں تو بھی ہائے
اے لیلی وش کیا نہیں بوس و کنار حیف
رویا ہوں بسکہ ہجر میں آنکھیں ہوئیں سفید
مدت گزر گئیں نہ ملا تو تو یار حیف
اوس بے وفا نیں سن کے غضب سے کہا مجھے
کس دن کیا تھا مجھ پہ دل اپنا نثار حیف
میں تجھ کو جانتا ہی نہیں ہوں خدا کی سوں
آوے ہے مجھ کو ہونے سے تیرے دو چار حیف
وقتے کہ تل رخان جہاں کا یہ رنگ ہو
پھر زندگی جہان میں کیجے ہزار حیف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.