دہر کے اندھے کنویں میں کس کے آوازہ لگا
دہر کے اندھے کنویں میں کس کے آوازہ لگا
کوئی پتھر پھینک کر پانی کا اندازہ لگا
ذہن میں سوچوں کا سورج برف کی صورت نہ رکھ
کہر کے دیوار و در پر دھوپ کا غازہ لگا
رات بھی اب جا رہی ہے اپنی منزل کی طرف
کس کی دھن میں جاگتا ہے گھر کا دروازہ لگا
کانچ کے برتن میں جیسے سرخ کاغذ کا گلاب
وہ مجھے اتنا ہی اچھا اور تر و تازہ لگا
پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی
جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا
شہر کی سڑکوں پر اندھی رات کے پچھلے پہر
میرا ہی سایہ مجھے رنگوں کا شیرازہ لگا
جانے رہتا ہے کہاں اقبال ساجدؔ آج کل
رات دن دیکھا ہے اس کے گھر کا دروازہ لگا
- کتاب : kulliyat-e-iqbaal saajid (Pg. 63)
- Author : javaaz jaafrii
- مطبع : jang publishar (1994)
- اشاعت : 1994
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.