چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے
چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواح شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرۂ ذات میں سناٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری ہر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تاب یک لحظہ کہاں حسن جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لو ہے نہ رو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفانؔ
نام لوں اس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.