بشیرؔ بدرؔ کی غزلیں سنا رہا تھا میں
بشیرؔ بدرؔ کی غزلیں سنا رہا تھا میں
کل آسماں کو زمیں پر بلا رہا تھا میں
گزر رہا تھا میں جب میکدے کی راہوں سے
جگر کے ہاتھ سے دامن بچا رہا تھا میں
یہ بات سب کو بتائی تھی مرزا غالب نے
بہار گھر میں تھی صحرا اڑا رہا تھا میں
تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی
غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں
اداس شام نظر آئی جان کے جیسی
جب انتظار میں تیرے کھڑا رہا تھا میں
وہ امرتا کی طرح مجھ سے عشق کرتی تھی
سو اپنے آپ کو ساحرؔ بتا رہا تھا میں
فرازؔ و فیضؔ کے دل کش کلام کو پڑھ کر
محبتوں کا طریقہ سکھا رہا تھا میں
مجازؔ کان میں میرے بتا گئے آ کر
کہ کیسے حسن کو پاگل بنا رہا تھا میں
شکیلؔ اعظمی کہنے لگے پروں کو کھول
جو سوئے آسماں سر کو اٹھا رہا تھا میں
یہ باتوں باتوں میں مجھ کو بتا گئے تنویرؔ
کل اس کے ہاتھ کا کنگن گھما رہا تھا میں
نداؔ نے شہر میں گاؤں بسا کے رکھا تھا
سو ان سے ملنے اسی گاؤں جا رہا تھا میں
لپٹ کے رونے لگے مجھ سے شاعر مشرق
جب ان کو قوم کی حالت بتا رہا تھا میں
ظفرؔ بتائیں گے تم کو یا میں بتاؤں گا
کے ملک چھوڑ کے کس طرح جا رہا تھا میں
عجب ہی خواب دکھائی دیا مجھے محسنؔ
کل آفتاب کی میت اٹھا رہا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.