گفتگو کیوں نہ کریں دیدۂ تر سے بادل
گفتگو کیوں نہ کریں دیدۂ تر سے بادل
لوٹ آئے ہیں ستاروں کے سفر سے بادل
کیا غضب ناک تھی سورج کی برہنہ شمشیر
کالے مجرم کی طرح نکلے نہ گھر سے بادل
رات کی کوکھ کوئی چاند کہاں سے لائے
یہ زمیں بانجھ ہے برسے کہ نہ برسے بادل
برف سے کہیے کہ سوغات کرے ان کی قبول
لائے ہیں آگ کے دستانے سفر سے بادل
میں کہ ہوں دھوپ کا آزاد پرندہ لیکن
بال کیوں نوچ رہے ہیں مرے پر سے بادل
آخری خط تو لکھوں گا میں لہو سے خود کو
اب بھی مایوس جو لوٹے ترے در سے بادل
نہ کسی جسم کا جادو نہ گھٹا گیسو کی
پریمؔ کیوں روٹھ گئے پریم نگر سے بادل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.