بہ خدا ہیں تری ہندو بت مے خوار آنکھیں
بہ خدا ہیں تری ہندو بت مے خوار آنکھیں
نشہ کی ڈوری نہیں پہنیں ہیں زنار آنکھیں
نذر دل مانگتی ہیں آپ کی سرشار آنکھیں
عین مستی میں رہا کرتی ہیں ہوشیار آنکھیں
مجھ کو نظارہ ہے اس پردہ نشیں کا منظور
کاش بن جائیں مری روزن دیوار آنکھیں
چشم آہو سے غرض تھی نہ مجھے نرگس سے
تری آنکھوں سے جو ملتیں نہ یہ دو چار آنکھیں
چار چشم اس لئے کہتا ہے مجھے اک عالم
کہ مری آنکھوں میں پھرتی ہیں تری یار آنکھیں
دیکھتے رہتے ہیں ہم راہ تمہاری صاحب
آپ آتے نہیں آ جاتی ہیں ہر بار آنکھیں
شوخ چشمی سے چکاروں کو وہ دھمکاتی ہیں
دیکھنا ہم سے ملانا نہ خبردار آنکھیں
تاک لیتے ہیں نظر باز ہیں ہم بھی صاحب
دل چرایا ہے چراتے ہو جو ہر بار آنکھیں
پیار سے میں نے جو دیکھا تو وہ فرماتے ہیں
دیکھیے دیکھیے ہوتی ہیں گنہ گار آنکھیں
چوم لیتے ہیں وہ آئینے میں آنکھیں اپنی
لب مسیحائی کریں گے کہ ہیں بیمار آنکھیں
چشم بددور ہے کاجل بھی تو منظور نظر
کیوں نظر ہو گئی کیوں ہو گئیں بیمار آنکھیں
رخ صیاد جو دیکھا ہے تو اب دیکھ کے گل
بند کر لیتے ہیں مرغان گرفتار آنکھیں
بن گئے پنجۂ مژگاں بھی مری دست دعا
دیکھ رکھتی ہیں نہ کچھ حسرت دیدار آنکھیں
دست وحشت میں غزالوں کو تکا کرتا ہوں
رات دن پیش نظر ہیں تری اے یار آنکھیں
یہ مرا دامن تر دامن گلچیں ہوگا
رنگ لائیں گی ابھی تو مری خوں بار آنکھیں
مرغ دل اس سے کسی طرح نہیں بچ سکتا
کہیں شاہین شکاری سی ہیں طیار آنکھیں
چشم مخمور میں ساقی کی یہ کیفیت ہے
نشہ مستوں کے دوبالا ہوں جو ہوں چار آنکھیں
چاہیے حضرت موسیٰ کے لئے جلوۂ طور
تیرے دیدار کی ہیں اپنی سزاوار آنکھیں
آگرہ چھوٹ گیا مہرؔ تو چنار میں بھی
ڈھونڈھا کرتی ہیں وہی کوچہ و بازار آنکھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.