زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے
زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے
دھوپ بھی ہماری ہے چھاؤں بھی ہماری ہے
غم گسار چہروں پر اعتبار مت کرنا
شہر میں سیاست کے دوست بھی شکاری ہے
موڑ لینے والی ہے، زندگی کوئی شاید
اب کے پھر ہواؤں میں ایک بے قراری ہے
حال خوں میں ڈوبا ہے کل نہ جانے کیا ہوگا
اب یہ خوف مستقبل ذہن ذہن طاری ہے
میرے ہی بزرگوں نے سر بلندیاں بخشیں
میرے ہی قبلے پر مشق سنگ باری ہے
اک عجیب ٹھنڈک ہے اس کے نرم لہجے میں
لفظ لفظ شبنم ہے بات بات پیاری ہے
کچھ تو پائیں گے اس کی قربتوں کا خمیازہ
دل تو ہو چکے ٹکڑے اب سروں کی باری ہے
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں
کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے
گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظرؔ
شہر میں ہمارے تو جو بھی ہے مداری ہے
- کتاب : Zindagi (Pg. 23)
- Author : Manzar Bhopali
- مطبع : Nasir Publicans, Urdu Bazar Krachi (P.K.) (1993)
- اشاعت : 1993
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.