تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ
شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ
نخل ہستی نظر آئے گا کبھی نخل صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ
ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا یہی بے مہر سے لوگ
مطمئن رہتے ہیں طوفان مصائب میں کبھی
ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ
اے زمیں آج بھی ذرے ہیں ترے مہر تراش
اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ
صرف محرومیٔ فرہاد کا کیا ذکر سحرؔ
بے ستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ
- کتاب : namuud (Pg. 181)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.