سواد غم ہو یا بزم طرب کچھ بھی نہیں ہوتا
سواد غم ہو یا بزم طرب کچھ بھی نہیں ہوتا
زباں مرہم رکھے یا زخم اب کچھ بھی نہیں ہوتا
چلے آتے ہیں بے موسم کی بارش کی طرح آنسو
بسا اوقات رونے کا سبب کچھ بھی نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے تو بس اتنا کہ لفظوں کا بھرم ٹوٹے
سخن آتا ہے اکثر تا بہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
کبھی تھے مہرباں موسم کبھی ساون برستا تھا
اور اب دھرتی ہے ساری تشنہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
تمنا جھانکتی ہے روزن زنداں سے چھپ چھپ کر
اسیری میں مگر انجام شب کچھ بھی نہیں ہوتا
قیامت سی گزرتی ہے قیامت آ نہیں جاتی
کوئی بے جان ہو یا جاں بہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
جبلت سر اٹھا لے تو خس و خاشاک ہے انساں
بڑا ہو نام یا اونچا نسب کچھ بھی نہیں ہوتا
یہاں ہوتا ہے بعد از مرگ واویلا بہت لیکن
کوئی مر مر کے جب جیتا ہو تب کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ دنیا ہے یہاں تاریخ ہی دہرائی جاتی ہے
انوکھا کچھ نہیں ہوتا عجب کچھ بھی نہیں ہوتا
- کتاب : Sitara Pas e Mizgaan (Pg. 66)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.