نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے
نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے
ٹکرا رہی ہے بات وہی میرے کان سے
سوتا رہا میں خوف کی چادر لپیٹ کر
آسیب چیختے رہے خالی مکان سے
اکثر میں ایک زہر بجھے تیر کی طرح
نکلا ہوں حادثات کی ترچھی کمان سے
پھیلا ہوا ہے حد نظر تک سکوت مرگ
آواز دے رہا ہے کوئی آسمان سے
تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر
راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے
ممکن ہے خوب کھل کے ہو گفت و شنید آج
وہ بھی خفا ہے ہم بھی ہیں کچھ بد گمان سے
اے کیفؔ جن کو بغض نئی شاعری سے ہے
وہ بھی ترے کلام کو پڑھتے ہیں دھیان سے
- کتاب : shab khuun (43) (rekhta website) (Pg. 52)
- اشاعت : 1969
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.