نیند آئی ہی نہیں ہم کو نہ پوچھو کب سے
نیند آئی ہی نہیں ہم کو نہ پوچھو کب سے
آنکھ لگتی ہی نہیں دل ہے لگایا جب سے
ان کو محبوب کہیں یا کہ رقیب اب اپنا
ان کو بھی پیار ہوا جائے ہے اپنی چھب سے
اشک آنکھوں سے مری نکلے مسلسل لیکن
اس نے اک حرف تسلی نہ نکالا لب سے
دل سکھاتا ہے سب آداب محبت کے خود
یہ سبق سیکھا نہیں جاتا کسی مکتب سے
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
میں بھی تو دیکھوں غرض سے جھکی آنکھیں ان کی
کاش آئیں وہ مرے پاس کبھی مطلب سے
بھیڑ ہم جیسوں کی رہتی ہے ہمیشہ یوں تو
روشنی ہوتی ہے محفل میں بس اک کوکب سے
مری آنکھوں کے لیے روشنی سے ہے بڑھ کر
تری زلفوں کی سیاہی جو ہے گہری شب سے
سیکھ نفرت کی نہ دے اے صداؔ مذہب کوئی
ہے اصول اپنا کئے جاؤ محبت سب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.