میں اپنی آنکھ بھی خوابوں سے دھو نہیں پایا
میں اپنی آنکھ بھی خوابوں سے دھو نہیں پایا
میں کیسے دوں گا زمانے کو جو نہیں پایا
شب فراق تھی موسم عجیب تھا دل کا
میں اپنے سامنے بیٹھا تھا رو نہیں پایا
مری خطا ہے کہ میں خواہشوں کے جنگل میں
کوئی ستارہ کوئی چاند بو نہیں پایا
حسین پھولوں سے دیوار و در سجائے تھے
بس ایک برگ دل آسا پرو نہیں پایا
چمک رہے تھے اندھیرے میں سوچ کے جگنو
میں اپنی یاد کے خیمے میں سو نہیں پایا
نہیں ہے حرف تسلی مگر کہوں ساحلؔ
نہیں جو پایا کہیں یار تو نہیں پایا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.