مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے
وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے
ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے
اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے
ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنا بھی ہے
اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.