کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے
کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے
اس سے رشتہ بھی رہا وہم و گماں سے آگے
لے کے پہنچی ہے کہاں سیم بدن کی خواہش
کچھ علاقہ نہ رہا سود و زیاں سے آگے
خواب زاروں میں وہ چہرہ ہے نمو کی صورت
اور اک فصل اگی رشتۂ جاں سے آگے
کب تلک اپنی ہی سانسوں کا چکاتا رہوں قرض
اے مری آنکھ کوئی خواب دھواں سے آگے
شاخ احساس پہ کھلتے رہے زخموں کے گلاب
کس نے محسوس کیا شورش جاں سے آگے
جب بھی بول اٹھیں گے تنہائی میں لکھے ہوئے حرف
پھیلتے جائیں گے ناقوس و اذاں سے آگے
جس کی کرنوں سے اجالا ہے لہو میں اجملؔ
جل رہا ہے وہ دیا کاہکشاں سے آگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.