کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
مرے جذب دل کے بلائے ہوئے ہیں
کجی پر جو افلاک آئے ہوئے ہیں
ان آنکھوں کے شاید سکھائے ہوئے ہیں
کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ
یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں
کیا ہے جو کچھ ذکر مجھ دل جلے کا
پسینہ میں بالکل نہائے ہوئے ہیں
ذرا پھول سے پاؤں میلے نہ ہوں گے
تم آؤ ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں
کہیں خاک بھی اب نہ بیٹھی گی اپنی
کہ ان کی گلی سے اٹھائے ہوئے ہیں
گرے گا زمیں پہ نہ خون شہیداں
عبث آپ دامن اٹھائے ہوے ہیں
فقط پاس ہے ان کے تیر نگہ کا
جو سینہ سے دل کو لگائے ہوئے ہیں
جنازہ مرا دوستو کل اٹھانا
کہ وہ آج مہندی لگائے ہوئے ہیں
انہیں پاس ہے دل ہمارا مقرر
وہی ہم سے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں
جو ہے گھر کے اندر وہی گھر کے باہر
وہ آنکھوں میں دل میں سمائے ہوئے ہیں
میرے بعد جانے کے اتریں گے کیوں کر
یہ کپڑے جو میرے پنہائے ہوئے ہیں
نہ ہو سبزہ رنگوں میں کیوں ان کی شہرت
مرے قتل پر زہر کھائے ہوئے ہیں
مرے خط کے پرزے اڑائے انہوں نے
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں
خدا زلف سے دل جگر کو بچائے
بڑے پیچ میں دونوں آئے ہوئے ہیں
تڑپ کر شب ہجر میں کیوں نہ روؤں
چمکتی ہی برق ابر آئے ہوئے ہیں
تعشقؔ وہ جو چاہیں باتیں سنائیں
سر عجر ہم تو جھکائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.