سر ورق
مجموعہ کلام حضرت تعشق
دیکھ آ کے عجب حال ہے اے یار کسی کا
کچھ کچھ گور غریبان پر بھی سامان ہوگیا
سوے دریا خندہ زن وہ یا رجانی پھر گیا
دل ہے مردہ خلد میں جانے سے کیا ہو جائے گا
نہان جب ہوا ماہ کامل ہمارا
لیں دم اس منزل میں اب یہ حوصلہ جاتا رہا
اونس ہے خانہ صیاد سے گلشن کیسا
جفا ہے گردش لیل و نہار سے پیدا
کیا تصور ہے کہ بدن ہر وقت ہم پہلوی دوست
کن دنوں میں مٹ گیا صیاد خان عندلیب
خموشی ہوگی طوق گلو آج
دود مون سے ہے فقط گور غر بیان آباد
یہ میرے نالوں سے تھی گنگ ہجر یار میں روح
دل جل کے رہ گئے دقن رشک ماہ پر
بجھ گیا دل نہ رہی فصل بہار عارض
اپنی فرحت کے دن آئے یار چلے آتے ہیں
کون اپنے ساتھ اوٹھا کر لے گیا اور رنگ و شمع
کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
یادِ غم دل سے کبھی جانی نہیں
نئے آج اونکےچلن دیکھتے ہیں
جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں
پہلے تھیں جلوہ نما صورتیں کیا کیا دل میں
قدم اہل زمیں آنکھوں سے رورو کر لگاتی ہیں
یہ باغ کیا جہاں میں ہو راحت یقیں نہیں
اس چمن میں کیوں کوئی حاجتِ روا پیدا کروں
حیا و شرم جانے دوا و ٹہاؤ روے زیبا کو
ناسحر کی ہے فغاں جاں کے غافل مجکو
نہ درے برق سے دلکی ہے کڑی میری آنکھ
بھرے ہیں آنکھوں میں آنسو اوداس بیٹھے ہو
جھانکنا سیکھا وہ بات اے مہ لقا جاتی رہی
محفل سے اوٹھا نے کے سزاوار ہمیں تھے
منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
یاد ایام کہ غم رتبۂ رضوان ہم تھے
پے تعظیم اوٹھی خاک اپنے جسم لاغر کی
نجد سے جانب لیلی جو ہوا آتی ہے
باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
دل پس مردن بھی یاد گلبدن میں مست ہے
منتظر تیرے ہیں چشم خون فشان کھولے ہوئے
سرشت میں ہے نزاکت حیا ہے تیری
بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے
مشکل ہے آفتاب کا چھپنا غبار سے
چاک داماں قیامت کیجیے
یاد رخ دیدہ پر آب میں ہے
اس قدر نایاب دنیا میں محبت ہوگئی
پہونچے جو مثل ابرہم آنسو بھرے ہوئے
ہو گئے غش اہل نار ایسی حرارت کےلئے
ہم اسیروں سے عشق کامل ہے
درد سر ہے جلد بتلادے دو کان حداد کی
تیری گلی سے پریشان و اشک بارآئے
عشق دندانکی رعایت مریجان لازم ہے
ہیں وہ آمادہ مری لاشے پہ آنے کے لئے
شہادت دل پر اضطراب ہوتی ہے
خنخال اونکے پاؤنکی زرگر بنائیں گے
سر ورق
مجموعہ کلام حضرت تعشق
دیکھ آ کے عجب حال ہے اے یار کسی کا
کچھ کچھ گور غریبان پر بھی سامان ہوگیا
سوے دریا خندہ زن وہ یا رجانی پھر گیا
دل ہے مردہ خلد میں جانے سے کیا ہو جائے گا
نہان جب ہوا ماہ کامل ہمارا
لیں دم اس منزل میں اب یہ حوصلہ جاتا رہا
اونس ہے خانہ صیاد سے گلشن کیسا
جفا ہے گردش لیل و نہار سے پیدا
کیا تصور ہے کہ بدن ہر وقت ہم پہلوی دوست
کن دنوں میں مٹ گیا صیاد خان عندلیب
خموشی ہوگی طوق گلو آج
دود مون سے ہے فقط گور غر بیان آباد
یہ میرے نالوں سے تھی گنگ ہجر یار میں روح
دل جل کے رہ گئے دقن رشک ماہ پر
بجھ گیا دل نہ رہی فصل بہار عارض
اپنی فرحت کے دن آئے یار چلے آتے ہیں
کون اپنے ساتھ اوٹھا کر لے گیا اور رنگ و شمع
کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
یادِ غم دل سے کبھی جانی نہیں
نئے آج اونکےچلن دیکھتے ہیں
جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں
پہلے تھیں جلوہ نما صورتیں کیا کیا دل میں
قدم اہل زمیں آنکھوں سے رورو کر لگاتی ہیں
یہ باغ کیا جہاں میں ہو راحت یقیں نہیں
اس چمن میں کیوں کوئی حاجتِ روا پیدا کروں
حیا و شرم جانے دوا و ٹہاؤ روے زیبا کو
ناسحر کی ہے فغاں جاں کے غافل مجکو
نہ درے برق سے دلکی ہے کڑی میری آنکھ
بھرے ہیں آنکھوں میں آنسو اوداس بیٹھے ہو
جھانکنا سیکھا وہ بات اے مہ لقا جاتی رہی
محفل سے اوٹھا نے کے سزاوار ہمیں تھے
منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
یاد ایام کہ غم رتبۂ رضوان ہم تھے
پے تعظیم اوٹھی خاک اپنے جسم لاغر کی
نجد سے جانب لیلی جو ہوا آتی ہے
باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
دل پس مردن بھی یاد گلبدن میں مست ہے
منتظر تیرے ہیں چشم خون فشان کھولے ہوئے
سرشت میں ہے نزاکت حیا ہے تیری
بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے
مشکل ہے آفتاب کا چھپنا غبار سے
چاک داماں قیامت کیجیے
یاد رخ دیدہ پر آب میں ہے
اس قدر نایاب دنیا میں محبت ہوگئی
پہونچے جو مثل ابرہم آنسو بھرے ہوئے
ہو گئے غش اہل نار ایسی حرارت کےلئے
ہم اسیروں سے عشق کامل ہے
درد سر ہے جلد بتلادے دو کان حداد کی
تیری گلی سے پریشان و اشک بارآئے
عشق دندانکی رعایت مریجان لازم ہے
ہیں وہ آمادہ مری لاشے پہ آنے کے لئے
شہادت دل پر اضطراب ہوتی ہے
خنخال اونکے پاؤنکی زرگر بنائیں گے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔