حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
سات سروں کی لہروں پہ ہلکورے لیتے پھول سے ہیں
اک مدہوش فضا سنتی ہے اک چڑیا کے گانے کو
بولتی ہو تو یوں ہے جیسے پھول پہ تتلی ڈولتی ہو
تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسے ویرانے کو
لیکن ان سے اور طرح کی روشنیاں سی پھوٹ پڑیں
آنسو تو مل کر نکلے تھے آنکھ کے رنگ چھپانے کو
جیسے کوئی جسم کے اندر دیواریں سی توڑتا ہے
دیکھو اس پاگل وحشی کو روکو اس دیوانے کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.