گھر گیا ہوں بے طرح میں خواہشوں کے درمیاں
گھر گیا ہوں بے طرح میں خواہشوں کے درمیاں
جسم کے ریزے اڑاتی آندھیوں کے درمیاں
کتنے چہرے کتنی شکلیں پھر بھی تنہائی وہی
کون لے آیا مجھے ان آئینوں کے درمیاں
ہم کہاں یارو کہاں وہ موجۂ باد نسیم
وقت کی پہنائیاں حائل دلوں کے درمیاں
دل پہ گزری جو وہ گزری شہر کیوں ویراں ہوئے
ایک دہشت سی ہے پھیلی راستوں کے درمیاں
مدعا پنہاں پس الفاظ ہے جو پڑھ سکو
کچھ نہیں پاؤ گے تم ان سرخیوں کے درمیاں
جیسے خوشبو شہر میں صحرا میں جیسے چاندنی
یوں بکھر جاتا ہوں میں تنہائیوں کے درمیاں
جس کی خاطر شعر لکھتے ہو کبھی پڑھتی بھی ہے
کب تلک الجھے رہو گے قافیوں کے درمیاں
شامؔ جی بکھرے کبھی اس دل کے آنگن میں مہک
زندگی گزرے گی کب تک آہٹوں کے درمیاں
- کتاب : chera chera mery kahani (Pg. 82)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.